وزیر اعظم عمران خان نے کابینہ کو بتایا ہے کہ امریکہ تحریک انصاف کے مطالبے کے مطابق افغانستان کا مسئلہ فوج کشی کی بجائے سیاسی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر راضی ہو گیا ہے۔ اس پر رب کریم کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے کہ اب ڈو مور کا مطالبہ کرنے کی بجائے تعاون کی درخواست کی گئی ہے۔ قوم کو بھی اس بات پر اللہ کا شکر کرتے ہوئے مسرت و افتخار کا اظہار کرنے کی ضرورت ہے کہ اسے بالآخر جادو کی چھڑی والا وزیراعظم دستیاب ہو گیا ہے جو چٹکی بجاتے قوم کو لاحق دہائیوں پرانے مسائل حل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کا جادو تو اس کی باتوں اور دعوؤں میں دیکھا اور سنا جاسکتا ہے لیکن وہ کسی ماہر کی طرح جادوئی چھڑی کو کہیں زیر آستین پوشیدہ رکھتا ہے جس کا سراغ آسانی سے نہیں مل سکتا۔
البتہ فوج کے ترجما ن میجر جنرل آصف غفور نے آج ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس چھڑی کی طرف تھوڑا سا اشارہ کرنے کی کوشش ضرور کی ہے جو مسائل کو حل کرنے میں کارگر اور تیر بہدف ثابت ہورہی ہے۔ لیکن ماضی قریب کی تاریخ دیکھتے ہوئے یہ تسلیم کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے کہ چھڑی کا جادو یوں سر چڑھ کر بولے گا کہ واشنگٹن اور نئی دہلی سے لے کر دنیا کے تمام اہم دارالحکومتوں میں پاکستانی حکومت کی جے جے کار ہونے لگے اور پاکستان، افغانستان میں امن قائم کروانے کے بعد خطے اور دنیا کے دیگر حصوں میں تنازعات حل کروانے میں کردار ادا کرنا شروع کردے۔
وزیر اعظم نے یمن جنگ بند کروانے کے لئے ایران اور سعودی عرب کے درمیان مفاہمتی کردار ادا کرنے کا اعلان تو کر ہی دیا ہے۔ پاکستان یا اس کی حکومت کو چونکہ کریڈٹ لینے کا شوق نہیں ہوتا شاید اسی یمن میں امن کے لئے مذاکرات اقوام متحدہ کی سرکردگی میں اسٹاک ہولم میں ہو رہے ہیں جن میں پاکستان کا کوئی نمائندہ بہر حال موجود نہیں ہے۔
آج کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کی گفتگو اور فوج کے دفتر تعلقات عامہ کے ڈائیریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس دونوں خاصے کی چیز ہیں جن کی تفصیلات پڑھ کر یہ جاننے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی کہ اگر سول حکومت اور فوج ایک پیج پر ہوں تو کیسی صورت حال پیدا ہوتی ہے۔ لیکن اس سے یہ اندازہ کرنا دیکھنے اور سننے والا کا پنا کام ہے کہ اس ہم آہنگی سے مسائل کیسے حل ہوں گے۔
اگر امریکی صدر کے ایک روٹین خط اور زلمے خلیل زاد جیسے ترش نوا سفیر کے ساتھ ایک ملاقات میں صورت حال تبدیل ہونے کی نوید سامنے لائی جاسکتی ہے تو مبصرین اور امور خارجہ کی تفہیم رکھنے والوں کو اپنے علم کی تجدید کرنا ہوگی۔ وزیر اعظم عمران خان نے آج کابینہ کو ایک طرف یہ بتایا کہ کابینہ کے 80 فیصد فیصلوں پر عمل درآمد ہوچکا ہے تو اس کے ساتھ ہی امریکہ کے ساتھ تعلقات اور افغانستان میں امن کے حوالے سے معلومات بھی فراہم کیں۔
خبروں کے مطابق وزیر اعظم نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ تحریک انصاف کا یہ مطالبہ مان گیا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لئے فوجی قوت استعمال کرنے کا فائدہ نہیں ہوگا بلکہ اس کا سیاسی حل تلاش کرنا پڑے گا۔ افغان تنازعہ کے لئے امریکی مندوب زلمے خلیل زادسے ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے عمران خان نے کہا اللہ کے کرم سے اب امریکہ نے ’ڈو مور‘ کا مطالبہ کرنے کی بجائے ہم سے افغان مسئلہ کے پرامن حل کے لئے مدد کی درخواست کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے پاکستان اپنا کردار ضرور ادا کرے گا۔
پاکستان تو افغان مسئلہ کے حل کے لئے ایک دہائی سے سیاسی حل کی ضرورت پر زور دیتا رہا ہے۔ لیکن تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے سیاست کرتے ہوئے عمران خان امریکہ کے سامنے ڈٹ جانے، افغانستان میں نیٹو کی سپلائی لائن بند کرنے اور طاقت کے زور پر امریکہ کو علاقے سے باہر دھکیلنے کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ عمران خان کو ’طالبان خان‘ کا خطاب بھی اسی لئے ملا تھا کہ وہ تحریک طالبان پاکستان کی فوج کے خلاف مسلح جد و جہد کی توجیہات پیش کرتے ہوئے انہیں مظلوم اور محب وطن قرار دینے پر زور صرف کرتے رہے ہیں۔
2013 کے انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال، احتجا ج اور دھرنے سے گزرتے ہوئے اچانک عمران خان کو اقتدار تک رسائی کے خفیہ راستہ کی خبر ملی۔ وہ اس پر چلتے ہوئے 2018 کے انتخابات میں جزوی کامیابی کے باوجود ان تمام ہرکاروں کی تائد و حمایت کی وجہ سے وفاق کے علاوہ پنجاب میں بھی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں، جن کی باگ ڈور کٹھ پتلیوں کی طرح کسی پس پردہ ماہر کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔
یہ اب ڈوریاں سنبھالے ہوئے اس ماہر کا کمال ہے کہ وہ کس پتلی سے کون سا تماشہ ناظرین کو محظوظ کرنے کے لئے پیش کرتا ہے۔ فی الوقت لگتا ہے کہ اس تماشہ کا عنوان ’عمران خان بطور سفارت کار۔ ایک نابغہ‘ قرار دیا جاسکتا ہے۔ پہلے کرتار پور راہداری کے حوالے سے بتایا گیا کہ عمران خان نے نریندر مودی کی حکومت کو ’گگلی‘ کرواکے عین انتخابات سے پہلے ہراساں کردیا ہے اور اب یہ سبق یاد کروایا جارہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے امریکہ کو خاک چاٹنے پر مجبور کردیا ہے۔
عمران خان کے چند منہ زور ٹویٹس کے بعد امریکہ کا نام نہاد منہ پھٹ اور دبنگ صدر یوں ریشہ خطمی ہؤا ہے کہ ایک طرف اس نے مراسلہ ارسال کرکے اپنی غلطیوں پر پشیمانی کا اظہار کیا ہے تو دوسری طرف زلمے خلیل زاد کے ذریعے عمران خان سے دست بستہ درخواست کی ہے کہ وہ افغانستان کے بحران کو حل کرنے اور وہاں امن قائم کروانے میں ثالث کا کردار ادا کریں۔ اس کے ساتھ ہی بقول عمران خان خلیل زاد نے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ امریکہ اب ’ڈو مور‘ مطالبہ ہرگز نہیں کرے گا۔ اس تماشہ کو دیکھتے ہوئے اگر تماشائی حیرانی میں اپنی انگلی نہ کاٹ بیٹھے تو اسے پتلی باز کی کاری گری کا شائبہ بھی نہ ہوسکے۔
آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے آج اپنی پریس کانفرنس میں البتہ نہ صرف ریاستی صبر کے پیمانے کا ذکر کیا بلکہ تحریک انصاف کی ایک سو دن کی کارکردگی والے جشن اور میڈیا سے عمران خان کی گفتگو کے دوران پیدا ہونے والے ابہام کو بھی دور کردیا ہے۔ انہوں پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ پیغام بھی قوم تک پہنچایا ہے کہ کوئی ادارہ یا فرد آئین سے بالا نہیں ہے۔ طاقت کا استعمال صرف ریاست کا استحقاق ہے۔ انہوں نے قوم کو یہ یقین بھی دلایا ہے کہ ’ہم ایک ایک اینٹ اپنی جگہ پر رکھتے ہوئے پاکستان کو معمول کی طرف واپس لائیں گے۔ ۔ ۔ پاکستان میں آئین ہی کی حکمرانی ہوگی‘ ۔
میجر جنرل آصف غفور نے وضاحت سے ملک و قوم کی تعمیر کے لئے اختیار کی جانے والی پالیسیوں اور ان حدود کا ذکر کیا ہے جنہیں اندرونی اور بیرونی دشمن توڑنے کی کوشش کرتے رہے ہیں لیکن ریاست کے صبر کی بھی حد ہوتی ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ اس صبر کو آزمانے کی کوشش نہ کی جائے۔ اس موقع پر فوج کے ترجمان البتہ یہ بتانا ہرگز نہیں بھولے کہ وزیر اعظم سے منسوب یہ بات درست نہیں کہ فوج تحریک انصاف کے منشور سے اتفاق رکھتی ہے اور کہا کہ انہوں نے تین بار وزیر اعظم کی پریس ٹاک دیکھی اور سنی ہے۔ عمران خان کی باتوں کو سیاق و سباق سے علیحدہ کر کے پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یعنی فوج کے ترجمان نے اعلان مکرر کیا ہے کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں۔ دشمن اپنی سازشوں میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
میجر جنرل آصف غفور نے بتایا کہ ’پاکستان ستر برس تک کمزور معیشت، ناقص نظام حکومت، عدالتی اور تعلیمی نظام میں کمزوری اور مذہبی انتہا پسندی کا شکار رہا ہے۔ تاہم ملک اب تاریخ کے ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں سے وہ ایک نئی سحر کا آغاز کرسکتا ہے۔ انہوں نے کہا پاکستان کو مشکل حالات کا سامنا رہا ہے۔ مشرقی پاکستان گنوا دیا گیا، دہشت گردی کا سامنا ہؤا اور ملک معاشی بحران کا شکار رہا۔ لیکن اب حالات بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ اندرونی اور بیرونی دشمنوں نے ہمارے صبر کو آزمانے کی کوشش کی ہے۔ تاکہ ملک کا استحکام متاثر ہو۔ لیکن اس کے ارادوں کو شکست دے دی جائے گی‘ ۔
بھارت، کرتار پور اور افغانستان کے حالات پر تبصرہ کے علاوہ میجر جنرل آصف غفور نے یہ بھی بتایا ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ جیسی تحریکوں نے اپنی حدود عبور کرنے کی کوشش کی تو ریاست طاقت کا استعمال کرنے پر مجبور ہوگی۔ اس حوالے سے انہوں نے لاپتہ افراد کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ معاملات لاپتہ افراد کے کمیشن کے سامنے یا عدالتوں میں تھے۔ روزانہ کی بنیادوں پر ان کی سماعت ہو رہی ہے۔ فراہم کردہ سات ہزار افراد کی فہرست میں سے چار ہزار کیسز حل ہو چکے ہیں۔ جبکہ تین ہزار کا پتہ لگایا جا رہا ہے۔
یہ بیان دیتے ہوئے البتہ فوج کے ترجمان بھی حکومت کی طرح اس بے خبری کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ ملک میں آئین کی حکومت اور قانون سب کے لئے مساوی ہے تو لوگ غائب کیسے ہوجاتے ہیں۔ لاپتہ افراد کے حوالے سے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی قیادت میں مقدمات پر غور کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے خفیہ اداروں کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ یہ سوال ابھی تک جواب طلب ہے کہ اس معاملہ کی تہ تک پہنچنے کے لئے فوج نے کیا کارکردگی دکھائی ہے۔
اس سوال کا جواب آخر کون دے گا کہ مسئلہ لاپتہ افراد کے حوالہ سے انہیں تلاش کرنے کے علاوہ غیر قانونی اقدام کرنے والے افراد اور اداروں کی جوابدہی کا بھی ہے۔ کوئی بھی ریاست اس قانون شکنی کی ذمہ داری کا تعین کیے بغیر اور قصور واروں کو کیفر کردار تک پہنچائے بغیر کیسے یہ اعلان کرسکتی ہے کہ ملک میں آئین کی بالادستی ہے اور قانون سب کے لئے برابر ہے۔
قانون کے سامنے عدم مساوات کے یہ مظاہر دیکھتے ہوئے ریاست کا وہ سافٹ امیج کیسے پیش کیا جا سکتا ہے جس کی خواہش کا اظہار بھی آج میجر جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس میں سامنے آیا ہے۔ حیرت انگیز پر فوج کے نمائیندے ریاست کو ماں جیسا قرار دیتے ہوئے پشتون تحفظ موومنٹ کے نوجوانوں کو متاثرین اور دکھی قرار دے رہے تھے اور بتا رہے تھے کہ اسی لئے ان سے نرمی برتی جا رہی ہے کیوں کہ انہوں نے ابھی تک تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا ہے۔
لیکن میڈیا کے جیالے یہ استفسار کر رہے تھے کہ فوج پی ٹی ایم کے ساتھ سختی سے کیوں پیش نہیں آتی۔ اسی جیالے اور محب وطن میڈیا کے ذریعے فوج ریاست کا سافٹ میج سامنے لانا چاہتی ہے۔ ہاتھ پاؤں بندھے ملکی میڈیا کے نمائندے شاید ایسے ہی سوال کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ کبھی وہ وزیر اعظم کا اس بات پر شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے میڈیا کو آزادی دی ہے اور کہیں وہ نوجوانوں کے گروہ کے خلاف فوج کو کارروائی پر اکساتے ہیں۔
میجر جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس میں سامنے آنے والی دھمکی پر تبصرہ کرتے ہوئے پشتون تحفظ موومنٹ کے منظور پشتین کا کہنا تھا کہ ’وہ اپنے جائز مطالبات کے حق کے لیے بھرپور آواز اُٹھائیں گے۔ اگر پاکستان ہماری ریاست ہے، تو ہمارے مطالبات پورے کیے جائیں۔ اگر آقا اور غلام کا معاملہ ہے تو پھر وہ ظلم کرتے رہیں، ہم سہتے رہیں گے‘ ۔ سوچنا چاہیے کہ اس سادہ سوال کا کوئی پرامن جواب بھی فوج یا حکومت کے پاس موجود ہے۔
(بشکریہ: ہم سب)
فیس بک کمینٹ