پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نئی آئینی ترمیم کی تیاری کررہی ہے جس کے تحت چار برس قبل ملک میں قائم کی گئی فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کروانے کی کوشش کی جائے گی۔ جنوری 2015 میں اکیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے قومی ایکشن پلان کی تجویز کے مطابق ملک میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے فوجی عدالتیں قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اکیسویں ترمیم میں دو برس کی مدت متعین کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ حکومت اور فوج کو یقین تھا کہ دو برس کی مختصر مدت میں فوجی عدالتوں میں سرعت سے فیصلے کرتے ہوئے ملک میں دہشت گردی کے سرغنہ عناصر کو منظر نامہ سے ہٹا کر ایک پر امن ماحول پیدا کرلیا جائے گا۔ پارلیمنٹ نے اس آئینی فیصلہ کے ذریعے دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے یہ غیر معمولی اقدام کیاتھا۔ لیکن سیاسی حالات و واقعات پر نظر ڈالی جائے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں ہو گا کہ یہ فوج کی خواہش تھی اور ملک کی منتخب حکومت اور پارلیمنٹ فوج کی اس خواہش کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو چکی تھی۔
قومی ایکشن پلان ، 16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشت گرد حملہ اور ڈیڑھ سو سے زائد معصوم طالب علموں کو قتل کرنے کی سفاکانہ کارروائی کے بعد تیار کیا گیا تھا۔ یوں تو اس وقت ملک میں دہشت گردی کے واقعات تسلسل سے رونما ہو رہے تھے لیکن آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملہ کو ایک مثال بنا کر دہشت گردی کے مکمل خاتمہ کا فیصلہ کیا گیا۔ دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن ضرب عضب کو مو¿ثر بنایا گیا اور فوج کے دباو¿ میں حکومت نے قومی ایکشن پلان کے تحت سول معاملات میں عسکری اداروں کی زیادہ مداخلت کو قبول کرتے ہوئے ملک کے عدالتی نظام کے متوازی ’فوجی عدالتوں‘ کے ذریعے دہشت گردوں کو عبرت ناک سزائیں دے کر اس فتنہ سے نمٹنے پر صاد کیا تھا۔
تاہم جب پہلے دو برس میں یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکا تو مسلم لیگ (ن) ہی کی حکومت نے 2017 میں ایک نئی آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتوں میں مزید دو سال کی توسیع کا فیصلہ کیا۔ ایک بار پھر یہ فیصلہ فوج کی خواہش اور حکومت کی از حد مجبوری کا آئینہ دار تھا۔ 2015 میں اکیسویں آئینی ترمیم کے وقت نواز شریف کی حکومت تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے طویل دھرنے سے جان بر ہوئی تھی۔ بلکہ عمران خان نے تاحیات دھرنا جاری رکھنے کا اعلان فوج کی خواہش کے پیش نظر ہی تبدیل کیا تھا۔ اور 2017 میں پاناما لیکس کے انکشافات کے بعد دباو¿ میں آئی ہوئی مسلم لیگ (ن) کے پاس پارلیمنٹ میں اکثریت کے باوجود عسکری اداروں کی تجویز مان لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
فوجی عدالتیں قائم کرنے کا فیصلہ جس طرح ان کے قیام کے وقت غلط تھا، اسی طرح ان کی توسیع کے وقت بھی وہ بے مقصد اور ملک کے آئینی جمہوری نظام کے لئے چیلنج تھا۔ اب ایک نئی حکومت ، ایک نئے عذر کے ساتھ فوجی عدالتوں میں توسیع کی بات کر رہی ہے۔ لیکن جیسا کہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کے پاس قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مطلوبہ اکثریت نہیں ہے۔ تاہم وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اس معاملہ میں رابطہ میں ہیں۔ حکومت کے نمائیندوں کو امید ہے کہ 31 مارچ کو فوجی عدالتوں کی موجودہ توسیع ختم ہونے سے پہلے وہ نئی آئینی ترمیم لانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس کا واضح مقصد یہ ہے کہ اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیاں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو اس منصوبہ میں شامل کیاجائے گا۔ ماضی کی طرح پیپلز پارٹی کے جنرل سیکرٹری فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی کسی صورت فوجی عدالتوں کی مدت میں مزید توسیع کو قبول نہیں کرے گی۔ فرحت اللہ بابر کے یہ الفاظ اس معاملہ میں البتہ حرف آخر نہیں ہیں۔ کیونکہ پیپلز پارٹی اکیسویں اور تیئسویں ترمیم سے پہلے بھی اسی قسم کے دعوے کرتی رہی تھی لیکن جب ووٹ ڈالنے کا وقت آیا تو ملک کے’وسیع تر مفاد‘ کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو اپنا اصولی مو¿قف تبدیل کرنا پڑا۔
مسلم لیگ (ن) اس تجویز کو آئینی جامہ پہنانے اور فوجی عدالتوں کو شہریوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار دینے میں پیش پیش رہی ہے۔ اب اس کی ترجمان نے فوجی عدالتوں کی مدت میں ایک مزید توسیع کے بارے میں کوئی رائے دینے سے گریز کیا ہے۔ مریم اورنگ زیب نے اس حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے تحریک انصاف کی حکومت کی نااہلی کا ذکر ضرور کیا لیکن وہ یہ بتانے سے قاصر رہیں کہ کیا اب ان کی پارٹی بنیادی انسانی حقوق اور جمہوری روایت کے برعکس قائم کی گئی فوجی عدالتوں سے گلو خلاصی میں کردار ادا کرے گی یا نئی مجبوریاں اب بھی اس کے راستے کی دیوار بنیں گی اور وہ ایک بار پھر فوجی عدالتوں کو قوم پر مسلط کرے گی۔
ان دونوں بڑی پارلیمانی پارٹیوں کا طرزعمل ہی دراصل فوجی عدالتوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا سبب بنے گا لیکن چھوٹی چھوٹی حلیف پارٹیوں کی تائید سے قائم عمران خان کی حکومت کسی یقین دہانی پر ہی ایک نئی آئینی ترمیم کا ڈول ڈالنے کی با ت کر رہی ہے۔ یہ اعتماد حکومت کے اس یقین کا مظہر بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں بڑی پارٹیاں فوج کی خواہش کو نظر انداز کرکے کوئی ’باغیانہ‘ اقدام کرنے کا حوصلہ نہیں کریں گی۔ حکومت کا یہ اعتماد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو درپیش قانونی مشکلات کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔ اس کا خیال ہو گا کہ مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف اور صدر شہباز شریف پہلے ہی قید ہیں اور پیپلز پارٹی کے آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے علاوہ درجنوں معتمدین کے خلاف اب ایف آئی اے کے بعد سپریم کورٹ کی ہدایت پر نیب کارروائی کا آغاز کرنے والی ہے۔ ایسی صورت میں یہ دونوں پارٹیاں کیوں کر طاقت کے مراکز سے ٹکرانے کی ہمت پیدا کریں گی۔
حکمران جماعت کا یہ گمان بے بنیاد نہیں۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی عمران خان پر اداروں کی ساز باز اور اعانت سے برسر اقتدار آنے کا الزام لگاتی ہیں لیکن ان دونوں پارٹیوں نے ماضی قریب میں اسی قسم کے سمجھوتے کرتے ہوئے ہی اپنی سیاسی بقا کا اہتمام کیا ہے۔ اگر یہ دونوں پارٹیاں امتحان کی گھڑی آنے پر ذاتی حرص اور مفاد کی وجہ سے ایک دوسرے کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی بجائے اصولی مو¿قف اختیار کرنے کا حوصلہ کرتیں تو اس وقت ملک میں جمہوریت، آزادی رائے، انسانی حقوق اور پارلیمانی اختیار کو لاحق اندیشوں کا راستہ روکا جاسکتا تھا۔ اس پس منظر میں یہ امید کرنا، طوفان میں دیا روشن کرنے کی کوشش کے مترادف ہو گا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی فوجی عدالتوں کے معاملہ کو اصولی جمہوری معاملہ بنا کر سیاست میں اداروں کی مداخلت کے خلاف ایک مضبوط بیانیہ سامنے لانے کی روشن روایت کا آغاز کرسکیں گی۔
نواز شریف، نیب عدالت سے سزا ملنے کے بعد قید کی سزا بھگت رہے ہیں جبکہ شہباز شریف اپوزیشن لیڈر ہونے کے باوجود نیب کی حراست میں ہیں اور ان کے خلاف متعدد ریفرنسز لانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ ملک میں یہ مباحث زور پکڑ رہے ہیں کہ پارلیمانی نظام کو شخصی حکمرانی میں تبدیل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ صوبوں کے اختیارات محدود کرنے کے لئے نت نئے پہلوو¿ں پر غور کیا جا رہا ہے۔ ان میں سر فہرست اٹھارویں آئینی ترمیم کا معاملہ ہے جس پر سپریم کورٹ کے جج بھی لب کشائی کرتے ہوئے احتیاط کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔ میڈیا کی آزادی تماشا بنائی جا چکی ہے۔ لکھنے اور کہنے کے علاوہ سوچنے کی آزادی محدود کرنے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ لے کر چلنے والے نواز شریف اور مریم نواز قیادت کے لئے سامنے آنے کو تیار ہیں اور نہ پیپلز پارٹی دو ٹوک سیاسی حکمت عملی اختیار کر سکی ہے۔ آصف زرداری کے پاس ترپ کا پتہ سندھ کارڈ کی صورت میں موجود ہے، جسے استعمال کرتے ہوئے وہ اپنی نجات اور پیپلزپارٹی کے لئے جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر فوجی عدالتوں کی تائید کے معاملہ کو ان سہولتوں سے مشروط کر دیا گیا تو زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی کے زعما اشک بار آنکھوں سے ہی لیکن کسی بھی ایسی ترمیم کے لئے ووٹ دینے پر مجبور ہوں گے۔
اپوزیشن ہو یا نیا پاکستان بنانے کی دعوے دار حکومت، فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی بات کرتے ہوئے ان عدالتوں کی کارکردگی پر مبنی جائزہ رپور ٹ طلب یا پیش کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ یہ بتانے یا جاننے کی کوشش بھی نہیں کی جارہی کہ کس بنیاد پر ان عدالتوں میں توسیع کی تجویز سامنے لائی جا رہی ہے۔ فوجی عدالتیں دو سال کے لئے قائم کی گئی تھیں، پھر انہیں مزید دو سال کی توسیع مل گئی۔ تیسری توسیع مانگتے ہوئے اعداد و شمار کے ساتھ یہ رپورٹ طلب کرنا تو اس ملک کے ہر شہری کا حق ہے کہ ان عدالتوں اور ان کے حکم پر سینکڑوں لوگوں کو پھانسی پر چڑھانے سےدہشت گردی کی کس حد تک حوصلہ شکنی ہو سکی ہے۔
عقیدہ اور نظریہ کی بنیاد پر دہشت گردی کو ہتھکنڈا بنانے والے لوگوں کو موت کی سزا سے خوف زدہ نہیں کیا جاسکتا لیکن اس طرح عام شہریوں کو ضرور ریاستی دہشت کے خوف میں مبتلا کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں فوجی عدالتیں اس کے سوا کوئی مقصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔
(بشکریہ:کاروان۔۔ ناروے)
فیس بک کمینٹ