ملک میں یہ خبریں گردش میں ہیں کہ حکومت متبادل ذرائع کی امید اور وعدوں کی وجہ سے آئی ایم ایف کا پیکیج لینے سے گریز نہیں کررہی اور نہ ہی اس غیر یقینی کی وجہ فنڈ کی طرف سے پیش کی جانے والی ایسی شرائط ہیں جن سے عام شہریوں کے گھریلو بجٹ پر اثر مرتب ہوگا۔ بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف، سی پیک منصوبے اور ان پر ہونے والی سرمایہ کاری شرائط کی تفصیلات جاننا چاہتی ہے تاکہ پاکستان کی معاشی صلاحیت اور چین کی طرف سے ملک پر پڑنے والے بوجھ کی روشنی میں درست فیصلہ کرسکے۔ سی پیک کے تحت ہونے والے معاہدے پاکستان اور چین کے لئے اسٹریجک اہمیت کے حامل ہیں، اس لئے حکومت ان معاہدوں کے دستاویزی شواہد آئی ایم ایف کو فراہم کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔
ان معاہدوں میں آئی ایم ایف کے علاوہ امریکہ کی دلچسپی بھی راز کی بات نہیں ہے۔ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد، ملکی معیشت کے بحران کو دور کرنے کے لئے دس بارہ ارب ڈالر کی فوری ضرورت کی باتیں منظر عام پر آنے لگی تھیں بلکہ وزیر خزانہ اسد عمر نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے سے پہلے ہی بارہ ارب ڈالر کے فوری پیکیج کا اشارہ دیا تھا۔ یہ قیاس بھی کیاجارہا تھا کہ ماضی کی طرح حکومت مالی بحران پر قابو پانے کے لئے آئی ایم ایف سے رجوع کرے گی۔
یہ عالمی فنڈ دنیا بھر کے ملکوں کو فوری اور مختصر المدت قرضے فراہم کرتا ہے۔ پاکستان اس فنڈ سے ماضی میں متعدد بار یہ سہولت حاصل بھی کرچکا ہے۔ تاہم اسی موقع پر امریکی وزیر خارجہ مائیک پومیو نے ایک انٹرویو میں یہ کہہ کر پاکستان کی حد تک بہت سے لوگوں کو چونکا دیا تھا کہ امریکہ، اس بات کی حمایت نہیں کرسکتا کہ پاکستان چینی قرضوں کی ادائیگی کے لئے آئی ایم ایف کے پیکیج کو استعمال کرے۔
امریکی وزیر خارجہ کا یہ بیان غیر ضروری اور قبل از وقت تھا کیوں کہ اس وقت تک پاکستان نے آئی ایم ایف سے پیکیج لینے کے لئے رجوع نہیں کیا تھا۔ اور نہ ہی عام طور سے یہ سمجھا جارہا تھا کہ سی پیک منصوبوں میں چینی سرمایہ کاری پاکستان کے لئے عالمی سطح پر مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ پاکستان کے وزیر خزانہ بار بار آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا معاملہ ٹالتے رہے ہیں۔ حکومت یہ اشارے دے رہی ہے کہ اگر دوست ملکوں سے ملنے والے وسائل ادائیگیوں کے توازن پر قابو پانے کے لئے کافی ثابت ہوئے تو اسے شاید آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کی ضرورت نہ رہے۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان کے لئے ساڑھے بارہ ارب ڈالر کے فوری اور مختصرالمدت مالی پیکیج دینے کا اعلان کرچکے ہیں جبکہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ چین بھی اسٹیٹ بنک کو مالی استحکام فراہم کرنے کے لئے وسائل دینے پر راضی ہے۔ البتہ وزیر اعظم عمران خان نے متعدد مواقع پر کہا ہے کہ وہ چین کی طرف سے ملنے والی اعانت کی تفصیلات بیان نہیں کرسکتے کیوں کہ چینی حکومت اس کا اعلان کرنا مناسب نہیں سمجھتی۔ یہ دلیل پاکستان کے باشندوں کو تو آسانی سے مطمئن کرسکتی ہے کیونکہ وہ ملکوں کے درمیان تعلقات کو بھی اپنے سماجی پس منظر اور ذاتی دوستی دشمنوں کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔ لیکن عالمی سطح پر سفارتی لحاظ سے اس حجت کو تسلیم کروانا ممکن نہیں ہے۔
چینی امداد کی تفصیلات کو اخفائے راز میں رکھنے کے بارے میں وزیر اعظم کے متعدد بیانات کو اگرچہ حکومت اور عمران خان کی کامیاب سفارت کاری اور دوست دشمن ملکوں سے تعلقات کو نئی جہت دینے کی کوشش کے طور پر پیش کیا جارہا ہے لیکن اس اصرار کو امریکی وزیر خارجہ کے آئی ایم ایف اور پاکستان کے حوالے سے بیان اور مبینہ طور سے سی پیک کی تفصیلات کے بارے میں آئی ایم ایف کے تجسس کے تناظرمیں دیکھنا بھی ضروری ہے۔ اس طرح یہ سمجھنا آسان ہو سکتا ہے کہ پاکستانی حکومت کو معاشی بحران سے نمٹنے کے لئے صرف مالی وسائل جمع کرنے ہی کی فکر نہیں ہے بلکہ اسے اس چیلنج کا بھی سامنا ہے کہ ایک دوست ملک سے طے ہونے والے معاملات کو کیسے خفیہ رکھا جاسکے۔ اور اس کی وجہ سے دوسرے ممالک سے تعلقات بھی متاثر نہ ہوں۔ اس پیچیدہ صورت حال میں یہ پہلو بھی کم دلچسپ نہیں ہے کہ پاکستان کی موجودہ مشکلات کو حل کرنے میں سب سے نمایاں کردار بظاہر سعودی عرب ادا کررہا ہے۔ جس نے نہ صرف خود چھے ارب ڈالر کی مالی امداد فراہم کی ہے بلکہ متحدہ عرب امارات سے بھی پاکستان کو ایسی ہی سہولت دلوائی ہے۔ اس کے علاوہ گوادر میں آئل ریفائنری کے لئے دس ارب ڈالر سرمایہ کاری کی بات بھی زور شور سے کی جارہی ہے۔
امریکہ اگر پاکستان کی معیشت، عسکری سہولتوں اور پالیسی سازی میں چین کے اثر و رسوخ کے بارے میں دلچسپی رکھتا ہے اور کسی بھی طریقے سے اس بارے میں تفصیلات جاننا چاہتا ہے تاکہ عالمی سطح پر چین کی اقتصادی برتری اور بحر جنوبی چین میں اس کی عسکری اور اسٹریجک قوت کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی تیار کرسکے تو اس کے پاس آئی ایم ایف مطلوبہ معلومات حاصل کرنے کا واحد ذریعہ نہیں ہوسکتا۔ سعودی شاہی خاندان اور امریکہ کی موجودہ حکومت کے تعلقات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ سعودی عرب جب گوادر میں کثیر سرمایہ کاری کی تفصیلات طے کرے گا تو وہ فطری طور سے پاکستان کے چین کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کی تفصیلات بھی جاننا چاہے گا۔ اس حوالے سے یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اقتصادی اور اسٹریجک محاذوں پر چین کا مقابلہ کرنے کے لئے بھارت، امریکہ کا قریب ترین حلیف ہے۔
سابقہ حکومت کی طرح موجودہ حکومت بھی سی پیک کو پاکستان کے لئے ’گیم چینجر‘ قرار دیتی ہے۔ اگرچہ سابقہ دور حکومت میں تحریک انصاف کی پوری قیادت سی پیک کو شریف خاندان اور مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں کی کرپشن کا ذریعہ سمجھتے ہوئے، اس کی مخالفت کرتی رہی تھی۔ حکومت سنبھالنے کے بعد ا س منصوبہ پر نظر ثانی کی بازگشت بھی سنائی دیتی رہی تھی۔ تاہم بعد میں یہ رویہ عمران خان کے ’یو ٹرن‘ کے عالمگیر نظریہ کی روشنی میں تبدیل کرلیا گیا۔
اب چین اس قدر قابل اعتبار اور ہر مشکل گھڑی میں کام آنے والا دوست ملک ہے جو اپنے احسانات عام کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہے اور وزیر اعظم اس موقف کی تشہیر کرتے ہوئے عوام کو دوست ملکوں کے تعاون اور اپنی چابک دستی کے ذریعے مشکلات کے خاتمہ کی نوید سناتے رہتے ہیں۔ لیکن ان دعوﺅں کی تائید یا تردید اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک مختلف ملکوں کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کی تفصیلات منظر عام پر نہ لائی جائیں۔
پاکستان میں سی پیک کے بارے میں مثبت خبروں اور پروپیگنڈے کے ساتھ منفی تبصرے بھی سامنے آتے رہے ہیں۔ اس بات پر اتفاق کرنے کے باوجود کہ سی پیک منصوبوں میں چینی سرمایہ کاری پاکستان کے لئے بنیادی اہمیت کی حامل ہے اور ملک میں معاشی احیا کا سبب بن سکتی ہے۔ لیکن اس موقف کو ایک سچائی کے طور پر تسلیم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس منصوبہ کی تمام تفصیلات سامنے ہوں جن کا مطالعہ کر کے غیر جانبدار رائے قائم کی جا سکے۔
پاکستانی حکومتوں نے تو اب تک کسی مربوط طریقے سے عوام کو یہ تک بتانے کی زحمت بھی نہیں کی کہ ا س منصوبہ سے پاکستان کو کیا فائدہ ہوگا۔ اس سے پاکستانی حکومت کی آمدنی میں کیسے اور کتنا اضافہ ہوگا اور روزگار کے کتنے مواقع پیدا ہوں گے۔ یہ مفادات حاصل کرنے کے لئے پاکستان کو قرضوں پر سود دینے کے علاوہ کون کون سے شعبوں میں کیا قیمت ادا کرنا پڑے گی۔
وزیر اعظم عمران خان نے آج ہی درست معلومات عام کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے وزارت اطلاعات سے کہا ہے کہ وہ اس مقصد کے لئے ملکی میڈیا کو مثبت طور سے استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کرے۔ کیا یہ مان لیا جائے کہ وزیر اعظم کے اس بیان کی روشنی میں سی پیک کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے ملنے والی امداد کے ساتھ عائد شرائط سے بھی عام لوگوں کو آگاہ کیا جائے گا؟
آج وزیر اعظم عمران خان نے ایک ٹویٹ میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے ’غیر ذمہ دارانہ‘ رویہ کی مذمت کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اپوزیشن لیڈر بدعنوانی کی سزا سے بچنے اور ’این آر او‘ حاصل کرنے کے لئے اسمبلی کے اجلاس سے واک آﺅٹ کرتے ہیں۔ دوسری طرف وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ہفتہ عشرہ کے وقفہ کے بعد پھر سے سندھ میں حکومت کی تبدیلی کے اشارے دینے شروع کر دیے ہیں۔ عمران خان اس وقت اقتدار میں ہیں۔ اس لئے وہ یہ شکایت نہیں کرسکتے کہ ان کی اصل معلومات تک رسائی نہیں ہے۔
وزیر اعظم کو ٹھنڈے دل سے یہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا معاملات واقعی اتنے ہی سادہ ہیں کہ پارلیمانی مسائل ہوں یا انتظامی اور سیاسی اندیشے، ان کو سابقہ حکمرانوں کی بدعنوانی سے منسلک کرکے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ یا ملک کے علاوہ تحریک انصاف کی حکومت کو لاحق خطرات کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی توممکن ہے کہ عالمی سیاست و سفارت کی چومکھی جس طرح تحریک انصاف کی حکومت کے پاﺅں کی زنجیر بن رہی ہے، سابقہ حکومتیں اور لیڈر بھی اسی بھنور کا شکار ہوئے ہوں۔ عمران خان اگر واقعی نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں تو انہیں پورا سچ ماننے اور بیان کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا۔ تب ہی ان کی حکومت کی مدت بھی طول پکڑ سکتی ہے۔
(بشکریہ:کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ