گزشتہ روز قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے حکومت کے خلاف مشترکہ حکمت عملی بنانے کے اعلان اور اس حوالے سے کمیٹی قائم کرنے کے فیصلہ کے بعد آج قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اعتراف کیا ہے کہ حکومت نے منی لانڈرنگ اور فیک اکاﺅنٹ کیس میں 172 افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا فیصلہ عجلت میں کیا تھا۔ یہ مصالحانہ رویہ عمران خان کی طرف سے گزشتہ روز اپوزیشن کے واک آﺅٹ پر سخت ٹوئٹ پیغام اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی طرف سے سندھ حکومت کو گرانے کے انتباہ کی روشنی میں زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر حکومت نے آصف زرادی اور ان کی بہن فریال تالپور کے علاوہ بلاول بھٹو زرداری اور سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کا نام بھی ای سی ایل میں شامل کیا تھا۔ سپریم کورٹ کی سخت ناراضگی اور اس فیصلہ پر نظر ثانی کی ہدایت کے باوجود حکومت نے از خود کسی شخص کا نام ای سی ایل سے ہٹانے کا اعلان نہیں کیا۔ البتہ سپریم کورٹ نے بعد میں بلاول اور مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا تھا۔
اس پس منظر میں حکومت کے اعلیٰ ترین نمائندے کی طرف سے قومی اسمبلی میں غلطی کا اعتراف اس لحاظ سے معنی خیز ہے کہ عمران خان اور ان کی حکومت تواتر سے اپوزیشن کے حوالے سے کسی بھی قسم کی لچک دکھانے سے انکار کرتے رہے ہیں۔ اگرچہ شاہ محمود قریشی کے بیان میں یہ نہیں کہا گیا کہ حکومت اب ’عجلت میں کیے گئے اس فیصلہ‘ پر نظر ثانی کرے گی اور پیپلز پارٹی کے اہم لیڈروں کے نام ای سی ایل سے نکال کر خود کو سیاسی تنہائی اور دفاعی پوزیشن سے نکالنے کی کوشش کرے گی۔
اس کے باوجود یہ بیان اس بات کا اشارہ ضرور ہے کہ عمران خان کی حکومت کو درپیش اندیشوں کا اندازہ ہو رہا ہے۔ کل اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی طرف سے اپوزیشن لیڈروں کا جو اجلاس طلب کیا گیا تھا، اس میں پیپلز پارٹی کے چئیر مین بلاول بھٹو زرداری اور معاون چئیرمین آصف زرداری بھی شریک ہوئے۔ میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور بلاول بھٹو زردداری کا لب و لہجہ یکساں جارحانہ تھا اور انہوں نے حکومت کی معاشی پالیسیوں کو قومی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دینے پر بھی اتفاق رائے کیا۔
محض چند ہفتے قبل ملک کی دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان جو دوریاں دکھائی دیتی تھیں، اب وہ دور ہوتی نظر آرہی ہیں۔ لیکن اس قربت میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں کی چابک دستی سے زیادہ حکمران جماعت تحریک انصاف اور اس کے مستعد لیڈروں کی ترش کلامی نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ منی لانڈرنگ کیس میں پیپلز پارٹی کے متعدد لیڈروں کا نام ای سی ایل میں ڈالنے اور سندھ حکومت کو گرانے کی کوششیں شروع کر کے بھی تحریک انصاف نے ملک کی تمام اپوزیشن کے خلاف اعلان جنگ کیا تھا۔
اس لئے اپوزیشن اگر آج متحد، متحرک اور مستعد ہوتی دکھائی دے رہی ہے تو اسے تحریک انصاف کی غیرمتوازن سیاسی حکمت عملی کا نتیجہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس غلطی کی اصلاح کے لئے اب حکومت کس حد تک جانے کے لئے تیار ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ اگر عمران خان اقتدار کی حفاظت کے علاوہ اپنی حکومت کی کارکردگی دکھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو انہیں اپوزیشن سے براہ راست جنگ کا سماں پیدا کرنے سے گریز کی ضرورت ہو گی۔
شہباز شریف قانونی طور پر نیب کی حراست میں ہونے کے باوجود قومی اسمبلی میں حکومت کے لئے مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ اسپیکر اسد قیصر ابھی تک اکثر قائمہ کمیٹیاں قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں اور حکومت قانون سازی کے معاملات میں ابھی تک اپوزیشن کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے میں ناکام ہے۔ اس صورت حال میں قومی میڈیا میں حکومت کے خلاف ویسے ہی مباحث اور تبصروں کا آغاز ہو چکا ہے جو عام طور سے اعتماد سے محروم ہوتی حکومتوں کے بارے میں اختیار کیا جاتا ہے۔
اس حکومت کے بارے میں ’نامزد سرکار‘ اور وزیر اعظم کے بارے میں ’لاڈلا‘ جیسے الفاظ استعمال ہوتے تھے اور ایک پیج پر ہونے کی کہانی عام کر کے بتایا جاتا تھا کہ اب ملک کو درپیش تمام مسائل حل کرنے کے عملی کام کا آغاز ہو چکا ہے کیوں کہ طاقت کے اہم مراکز میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لیکن اب اسے مشکلات میں گھرا قرار دے کر نئے اسکرپٹ کی گونج سنائی دینے لگی ہے۔
موجودہ حکومت کے فوج کے ساتھ اتفاق رائے کے بارے میں ہر رائے رکھنے والا اپنے نقطہ نظر کی بنیاد پر خیال آرائی کرتا رہا ہے لیکن اس وقت حکومت کی نا اہلی، ناکامی، بدحواسی اور بے یقینی کے بارے میں جو فضا پیدا کی جا رہی ہے، اس سے یہ تاثر ابھرنا شروع ہوا ہے کہ گو کہ تحریک انصاف کو اقتدار میں آئے ابھی چھے ماہ بھی مکمل نہیں ہوئے لیکن اپوزیشن ہی نہیں بلکہ مقتدر حلقے بھی اس حکومت سے مایوس ہو رہے ہیں۔ وہ امیدیں پوری نہیں ہو پا رہیں جوعمران خان سے باندھی گئی تھیں۔
حکومت اور حکومت سازوں کے بیچ اگر اس قسم کی کوئی دراڑ موجود ہے تو اپوزیشن اور شہباز شریف اس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ کل تمام اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے سامنے آنے والا اتفاق رائے، اسی حکمت عملی کا مظہر ہے۔ آصف زرداری جو چند ماہ پہلے تک مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف کو نظر انداز کرتے ہوئے براہ راست معاملات طے کرنے کے لئے پر امید تھے، سندھ حکومت کو لاحق خطرات کی وجہ سے اب وہ بھی شہباز شریف کی قیادت میں اپوزیشن کی مشترکہ حکمت عملی کا حصہ بننے کا عندیہ دے رہے ہیں۔
شہباز شریف نے گزشتہ روز فوجی عدالتوں کے تسلسل کے لئے آئینی ترمیم کی حمایت کرنے کے علاوہ بیرون ملک سے ملنے والی معاشی امداد کا کریڈٹ فوج کے سربراہ کو دے کر ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک طرف انہوں نے حکومت پر یہ واضح کیا ہے کہ اس کے پاس کوئی معاشی حکمت عملی نہیں ہے اور جو بیرونی امداد پاکستان کو مالی بحران سے نکالنے کے لئے دوست ملکوں سے مل رہی ہے، وہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی ذاتی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
اس کے ساتھ ہی انہوں نے دہشت گردی ختم کرنے کے لئے آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد کا ذکر کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کو بھی اس حوالے سے اہم عنصر قرار دیا۔ اس طرح انہوں نے فوجی عدالتوں کے تسلسل کے لئے سیاسی حمایت کو موجودہ حکومت کے لئے رعایت ظاہر کرنے کی بجائے براہ راست فوج کو خوش کرنے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
دور کی کوڑی لانے والے حال ہی میں سپریم کورٹ کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے ایون فیلڈ کیس میں نواز شریف اور مریم نواز کے کی سزا معطل کرنے کے فیصلہ کے خلاف نیب کی اپیل مسترد ہونے اور آج لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے حمزہ شہباز کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے حکم کو بھی ملک کے سیاسی منظر نامہ سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھیں گے۔ بدنصیبی سے انصاف، احتساب اور سیاست کو یوں خلط ملط کر دیا گیا ہے کہ چیزوں کو علیحدہ کرکے میرٹ کی بنیاد پر دیکھنا ناممکن ہو چکا ہے۔ اگر شہباز شریف کی باتیں، اپوزیشن کا اتحاد اور عدالتوں کے فیصلے ایک ہی سلسلہ کی کڑی شمارکیے جائیں تو آنے والے دنوں میں موجودہ حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوتا محسوس کیا جاسکتا ہے۔
تاہم پاکستان کو اس وقت داخلی طور سے معاشی اور عالمی سطح پر جن سفارتی چیلنجز کا سامنا ہے، ان کے ہوتے اس قسم کے سیاسی کھیل ملک کی تقدیر سے کھیلنے کے مترادف ہیں۔ تحریک انصاف اور عمران خان سے اختلاف کرنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ان کی حکومت کو گرا کر ملک میں ایک نیا بحران پیدا کیا جائے اور موجودہ چہروں کو ہٹا کر نئے مہروں کو عہدے دے کر ایک نئی تبدیلی کا پیغام دینے کی کوشش کی جائے۔ شہباز شریف نے پاکستان کی مقبول سیاست کے حوالے سے تو یقیناً بے مثال چال چلی ہے لیکن کیا اس چال بازی سے ملک کی تقدیر بدلنے کا سامان بھی ہو سکے گا؟
تحریک انصاف کی حکومت سماجی و انتظامی ڈھانچے اور سیاسی مزاج کا طور طریقہ بدل دینا چاہتی ہے۔ لیکن وہ اس مقصد کے لئے پارلیمنٹ کو طاقت کا مرکز بنانے کی بجائے مقتدر حلقوں پر تکیہ کرتے ہوئے اپنے سب سیاسی مخالفین کو پچھاڑنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ کسی بھی سیاسی حکومت کے لئے یہ طریقہ ناکامی کا پیغام ثابت ہوتا ہے۔ ماضی میں بہت سی سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں نے یہ طریقہ اختیار کیا۔ اس سے ملک میں جمہوریت کا راستہ کھوٹا ہوا اور ایسے سارے لیڈروں کو پریشانی اور خواری کا سامنا کرنا پڑا۔
مسلم لیگ (ن) کی سابقہ حکومت کو اسی لڑائی کی وجہ سے اقتدار میں دقت کا سامنا ہوا اور گزشتہ برس جولائی کے انتخابات میں ناکامی نوشتہ دیوار بنا دی گئی۔ اس کے باوجود ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ لگانے والے جیل میں مقید ہونے کے باوجود خاموش رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں اور شہباز شریف انتخابی ناکامی کو کامرانی سے تبدیل کرنے کے لئے گٹھ جوڑ کررہے ہیں۔ اگر وہ اس مقصد میں کامیاب ہو بھی جائیں تو بھی نہ تویہ جمہوریت کی کامیابی ہوگی اور نہ ہی اس طرح ملکی معیشت کو بہتری کے راستے پر لایا جاسکے گا۔ البتہ موجودہ خرابیوں کی مدت میں اضافہ ضرور ہو گا اور پاکستان افغان جنگ 1 اور 2 کے بحران سے جاں بر ہونے سے پہلے ہی ایک نئے طوفان کو گھر آنے کی دعوت دینے کا موجب بنے گا۔
پاکستان کے مسائل کا کوئی آسان حل دستیاب نہیں۔ کسی لیڈر یا پارٹی کے پاس ان مسائل کو حل کرنے کے لئے جادو کی چھڑی نہیں ہے۔ ان مسائل کو حل کرنا عوام کے منتخب لیڈروں اور جماعتوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اقتدار یا اپوزیشن سے قطع نظر اگر ملک کے سیاست دان اس بات کو سمجھ سکیں، تب ہی وہ مسائل کے حل میں کوئی کردار ادا کر سکیں گے۔ اس کامیابی کا راستہ ایک دوسرے کی گردن دبوچنے کی بجائے طاقت ور پارلیمنٹ سے ہو کر گزرتا ہے۔
آج پارلیمنٹ کو صرف حکومت گرانے یا اقتدار تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھنے والوں کو یہ باور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ ہتھکنڈے سیاستدانوں کو کمزور اور جمہوریت دشمن قوتوں کو مضبوط کرتے ہیں۔ با اختیار پارلیمنٹ صرف حکومت سازی کا ذریعہ نہیں بنتی بلکہ فیصلے کرنے کا پلیٹ فارم ہوتی ہے۔ کیا نئے موقع کی تلاش میں شہباز شریف اس بات کو سمجھ سکیں گے؟
(بشکریہ:کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ