ملک میں رونما ہونے والے دو بڑے واقعات کے بیچ وفاقی وزیر اطلاعات فوا د چوہدری بڑے ’دبنگ‘ انداز میں اپنی حکومت کی ناکامیوں کو کامیابی بنا کر پیش کرنے کا کارنامہ سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے باوجود ان کا دعویٰ ہے کہ تحریک انصاف کو ایک ذمہ دار اور واحد ایسی پارٹی سمجھا جائے جو ملک کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لیکن جس حکومت کا وزیر اطلاعات ببانگ دہل اپنی لاعلمی، ناقص العقلی اور بے چارگی کا اعلان کرتے ہوئے سمجھ رہا ہو کہ اس نے میدان مار لیا ہے، اس کی تدبیروں پر کیسے بھروسہ کیا جاسکتا ہے؟
گزشتہ ہفتہ کے روز لورالائی میں ابراہیم ارمان لونی کی جواں سال موت کے بعد ملک بھر کے پشتون سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے اس حوالے سے صرف ایک رد عمل سامنے آیا ہے جو گزشتہ روز وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک ٹویٹ پیغام میں افغان صدر کو اس انتباہ کے ساتھ دیا تھا کہ ’بہتر ہوگا اشرف غنی اپنے کام سے کام رکھیں اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کی کوشش نہ کریں‘۔ تاہم وزیر خارجہ کے علاوہ ملک کے منہ زور اور بڑبولے وزیر اطلاعات کو بھی اس بات کی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس مسئلہ کی طرف اشارہ کردیتے جس کی وجہ سے ہمسایہ ملک کے صدر نے ٹوئٹر پیغام میں انتہا پسندی کے خلاف ’سرگرم کارکنوں‘ کی اخلاقی حمایت کی کوشش کی تھی۔
عمران خان تو یہ وعدہ کرتے ہوئے برسر اقتدار آئے تھے کہ وہ عوام سے کچھ پوشیدہ نہیں رکھیں گے۔ لیکن ایک ہفتہ مکمل ہونے والا ہے کہ ملک کے پشتون نوجوان ارمان لونی کی ہلاکت کے بعد مسلسل اپنے حقوق اور تحفظ کے لئے آواز بلند کررہے ہیں لیکن کسی ذمہ دار وزیر یا عہدیدار کو اس پر بات کرنے، نوجوانوں کو دلاسہ دینے اور ملک کے باقی ماندہ عوام کو حقیقت حال سے آگاہ کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ بلکہ خود اپنا ’جگر چیر کر عوام کے سامنے رکھ دینے والے‘ وزیراعظم سمیت ان کا کوئی ساتھی یہ بتانے کے لئے بھی تیا رنہیں ہے کہ ملک کے دو صوبوں میں آباد پشتون کس بات پر سراپا احتجاج ہیں اور ان کی تشفی یا تالیف قلب کے لئے حکومت کیا اقدام کررہی ہے۔
فواد چوہدری نے بھی آج ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کا تو تفصیل سے ذکر کیا ہے کہ قومی وسائل میں سے قرضوں پر سود کی ادائیگی، دفاع کے مصارف اور صوبوں کو ان کا حصہ دینے کے بعد وفاقی حکومت ’ننگی کیا نہائے کیا نچوڑے‘ کے مصداق تہی دست ہوتی ہے۔ اسی لئے تحریک انصاف اپنے انتخابی وعدوں کے مطابق ملک کے متوسط طبقہ کو کوئی ’ریلیف‘ دینے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ مجموعی قومی آمدنی اور ’سابقہ حکومتوں‘ کے لئے ہوئے قرضوں کا ذکر کرتے ہوئے فواد چوہدری نے نہایت درمندی سے اپنی حکومت کی مجبوریوں کا ذکر کیا ہے لیکن جوش خطابت میں یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ وہ جو انگلی دوسروں پر اٹھا رہے ہیں وہ خود ان کا گریبان وا کررہی ہے۔
اس ملک میں کون سا ایسا صاحب فہم ہو گا جسے اس ملک کی پیداواری صلاحیت، قومی آمدنی اور اخراجات کا اندازہ نہ ہو، حکومت کی تنگ دامنی کا احساس نہ ہو اور جو یہ سمجھنے کی صلاحیت سے بہرہ ور نہ ہو کہ پاکستان جیسے کثیر آبادی اور محدود دستیاب وسائل کے حامل ملک میں معاشی استحکام پیدا کرنا جوئے شیرلا نے کے مترادف ہے۔ تاہم اس دنیا میں ایسی قومیں اور لیڈر موجود ہیں جنہوں نے یہ مشکل کام عملی طور سے کردکھایا ہے اور تنگ دستی سے خوشحالی کا سفر طے کیا ہے۔ تاہم ایسا کرنے والے لیڈر اور حکومتیں اپنی ذمہ داری قبول کرتی ہیں۔ دوسروں پر الزام تراشی کے ذریعے اپنی بے بسی کے قصے نہیں سناتیں۔
وزیر اطلاعات کو معیشت پر بولنے کا بہت شوق ہے حالانکہ س مقصد کے لئے حکومت میں وزیر خزانہ اور دیگر معاشی ماہرین موجود ہیں۔ فواد چوہدری سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ سبزیوں اور دالوں کے نرخ بتانے کی بجائے ملک کی سیاسی صورت حال پر تبصرہ کریں گے۔ لیکن وزیر اطلاعات کی ’میموری ڈسک‘ شہباز شریف کے لوٹے ہوئے پندرہ سو ارب روپوں اور منی لانڈرنگ کے لئے آصف زرداری کے ’کرتوتوں‘ سے کم یا زیادہ کچھ بتانے یا رجسٹر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اسی لئے وہ ارمان لونی کی شہادت اور پی ٹی ایم کے احتجاج جیسے قومی سانحہ اور سنگین مسئلہ پر کوئی رائے دینے یا اس کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی صلاحیت سے محروم دکھائی دیتے ہیں۔
وہ میڈیا کی آزادی کے بلند بانگ دعوو?ں کے باوجود پی ٹی ایم پر عائد سنسر شپ کا ذکر کرتے ہوئے بھی شرماتے ہیں کیوں کہ اس سے تحریک انصاف کی اصول پسندی اور جمہوری اقدار کی پاسداری کا پول کھلتا ہے۔ البتہ وہ اتنے ڈھیٹ ضرور ہیں کہ ملک کے سینکڑوں صحافیوں کے بے روزگار ہونے یا تنخواہیں نہ ملنے پر اپنی اخلاقی یا قانونی ذمہ داری پوری کرنے کی بجائے میڈیا ہاو?سز کو ہونے والی آمدنی کا حساب کتاب کرتے ہوئے یہ پوچھنا نہیں بھولتے کہ میڈیا صنعت کو گزشتہ تین برس میں 40 ارب روپے کی آمدنی ہوئی ہے تو وہ کہاں گئی؟
حالانکہ خبروں کی ترسیل میں رکاوٹ ڈالنے اور سیلف سنسر شپ کا ہتھکنڈا استعمال کرنے کا جواب دینے کے علاوہ یہ پتہ لگانا اور اس کا حل تلاش کرنا بھی وزیر اطلاعات کی ذمہ داری ہے کہ اگر میڈیا مالکان خود دولت کما رہے ہیں تو وہ اپنے کارکنوں کو تنخواہیں کیوں ادا نہیں کرتے اور روزانہ کی بنیاد پر اس صنعت سے وابستہ لوگ کیوں بے روزگار ہورہے ہیں۔
حکومت اور اس کے سرخیل نمائندے کو خبر ہونی چاہیے کہ دوسروں پر الزام عائد کر کے وہ اپنی ذمہ داری سے روگردانی نہیں کر سکتے۔ ان کا کام باتیں بنانے سے بڑھ کر ہے۔ وہ صرف ماضی کے قرضوں کا حساب کرکے خود کو مظلوم ثابت نہیں کرسکتے بلکہ انہیں یہ حساب بھی کرلینا چاہیے کہ ان کی حکومت کاروبار مملکت چلانے کے لئے مسلسل جو قرض لے رہی ہے، ان پر بھی سود اور اقساط اسی قوم کو ادا کرنا ہیں۔ وزیر اطلاعات نے گرمئی گفتار میں ایک بار پھر اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کے تحت قومی وسائل پر صوبوں کے استحقاق کو متنازعہ معاملہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
اگر یہ رویہ دانستہ اختیار کیا جاتا ہے تو عمران خان کی حکومت کو اس کا جواب دینا چاہیے کہ اس کے نمائندے کس آئینی اختیار اور سیاسی فراست کے تحت صوبوں کے مسلمہ حقوق سے انکار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اگر یہ طرز تکلم کسی نادانی کا نتیجہ ہے تو وزیر اعظم کو اپنے وزیر اطلاعات کی سرزنش کرنی چاہیے تاکہ وہ صوبوں کے درمیان مزید غلط فہمیاں اور دوریاں پیدا کرنے کا سبب نہ بنیں۔
فواد چوہدری نے آج کی تقریر میں 2014 کے دھرنے کو اپنی پارٹی کی شاندار حکمت عملی قرار دیا ہے اور کہا کہ ’کوئی سیاسی شیر خوار ہی یہ کہے گا کہ 126 روز پر مشتمل اس دھرنے کا پاکستانی سیاست پر منفی اثر مرتب ہو?ا تھا۔ پاکستان کی سیاسی تحریکوں کے بارے میں معمولی شدھ بدھ رکھنے والا بھی یہ جانتا ہے کہ اس دھرنے نے پاکستان کی مڈل کلاس اور نوجوانوں کو ایک متبادل پیغام دیا۔ اس دھرنے سے نئے پاکستان کی بنیاد رکھی گئی تھی‘۔
یہ دعویٰ کرنے والے وزیر اطلاعات نے دو روز پہلے فیض آباد دھرنا کیس میں سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلہ کا مطالعہ کیا ہوتا تو وہ اس پر فخر کرنے کی بجائے، اس بات پر شرمندگی محسوس کرتے کہ ملک کی عدالت عظمیٰ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ تحریک انصاف نے 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کے ڈھکوسلے پر یہ دھرنا دیا تھا لیکن جب اس وقت کے چیف جسٹس کی سربراہی میں ان انتخابات کی تحقیقات کرنے والے عدالتی کمیشن نے ان الزامات کو مسترد کردیا تو بھی تحریک انصاف کی قیادت کو اپنے رویہ پر معافی مانگنے کی توفیق نہیں ہوئی۔
یوں تو 6 فرری کو سامنے آنے والے سپریم کورٹ کے اس فیصلہ میں متعدد ایسے امور ہیں جن کے بارے میں تحریک انصاف اور حکومت کے ذمہ داروں کو جواب دینا چاہیے۔ ان میں سے ایک فیض آباد دھرنا کے دوران اشتعال پھیلانے والوں کو موجودہ حکومت میں ملنے والی پوزیشنوں کا معاملہ ہے اور دوسرا یہ سوال کہ اس دھرنا کے دوران انٹیلی جنس ایجنسیوں اور عسکری اداروں کے اہل کاروں نے کس حد تک مداخلت کی تھی۔ سپریم کورٹ نے وزارت دفاع کے ذریعے مسلح افواج کے سربراہوں کو حکم دیا ہے کہ ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے۔
وزیر اطلاعات کو اصولی طور پر یہ بتانا چاہیے کہ حکومت اس عدالتی حکم پر عمل درآمد کے لئے کیا اقدام کررہی ہے؟ لیکن ایسے وزیر اطلاعات اس سوال کا کیا جواب دیں گے جو ایک روز پہلے حکومت، فوج اور عدالت کو ریاستی اقتدار کے تین ستون قرار دیتے ہوئے یہ فرما چکے ہیں کہ تحریک انصاف کے دور میں یہ تینوں ’خود مختاری‘ سے کام کر رہے ہیں۔ نادان فواد چوہدری بھول گئے کہ فوج کوئی خود مختار ادارہ نہیں ہے بلکہ حکومت کی وزارت دفاع کے تحت کام کرنے والا عسکری ادارہ ہے جس کے سربراہ سیکرٹری دفاع اور وزیر دفاع کو جوابدہ ہونے چاہئیں۔
پارلیمنٹ کے اختیار کو فراموش کرنے والی حکومت کے نمائیندے متفقہ آئینی اور مالی معاملات کو متنازعہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ پاکستان کو جس معاشی گرداب کا سامنا ہے اس سے نکلنے کے لئے الزام تراشی کی بجائے ذمہ داری قبول کرنے اور مالی بوجھ کم کرنے کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ عمران خان کی حکومت کو اس سوال کا جواب دینے کے لئے مزید مہلت نہیں مل سکتی کہ کیا ان کے پاس ملکی معیشت کی بحالی کے لئے کوئی ٹھوس منصوبہ بھی ہے یا ان کی گدڑی میں محض فواد چوہدری جیسے لعل ہی ہیں۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ