ننکانہ صاحب میں وزیر اعظم عمران خان کی تقریر سن کر نہ جانے کیوں یوں محسوس ہوا کہ کوئی استاد کلاس کے کسی شریر بچے کو شاگردوں کو مصروف رکھنے کا حکم دے کر خود سردیوں کی سنہری دھوپ میں دوسرے استادوں کے ساتھ چائے پینے چلا گیا ہو۔ استاد واپس آکر جب اس اناپ شناپ کا حساب کرے گا تو کلاس کے ساتھ اس مانیٹر نما شریر شاگرد کے ساتھ جو سلوک کرے گا اس کا اندازہ کسی بھی دیہاتی پرائمری یا مڈل اسکول میں تعلیم پانے والا ہر شخص بخوبی کر سکتا ہے۔
یہ بات جاننے کے لئے بھی کسی خاص استعداد کی ضرورت نہیں کہ اگر استاد کی جگہ پانے والا کلاس کا سب سے شریر بچہ ہوگا تو وہ ہم جماعتوں پر اپنی عقلمندی اور خوبیوں کا رعب جمانے کے لئے کیسی باتیں کرے گا۔ ان باتوں کا حقیقت احوال یا علم و فہم سے تعلق ہونا ضروری نہیں ہے لیکن ان سے ایک تو کلاس میں کسی کو اس استاد نما شاگرد کی ’اتھارٹی‘ چیلنج کرنے کا موقع نہیں ملنا چاہیے، دوسرے کلاس میں بیٹھے ہر بچے کو یقین ہونا چاہیے کہ اگر اس نے اس موقع پر مداخلت کرنے یا استاد کے متبادل کو ٹوکنے کی کوشش کی تو یہ نئے نویلے استاد جی نہ صرف کلاس میں اس کے ساتھ بدسلوکی کریں گے بلکہ اسکول کے بعد بھی دھول دھپا کرکے اس کا جینا حرام کردیں گے۔ اسی کو ڈسپلن قائم رکھنے کا بنیادی گر کہا جاسکتا ہے اور اسی لئے جب استاد کی غیر حاضری میں کلاس کو خاموش اور مصروف رکھنا مقصود ہو تو کسی لائق شاگرد کی بجائے شریر اور ہتھ چھٹ طالب علم کا انتخاب ہی مناسب اور ’نظریہ ضرورت‘ کے مطابق سمجھا جاتا ہے۔
البتہ نظریہ ضرورت کو قوموں پر مسلط کرنے کے جو منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، کسی کلاس میں کتاب سے بے بہرہ اور سبق یاد کرنے میں پھسڈی لڑکے کو استاد بنانے کے اثرات بھی اس سے مختلف نہیں ہوتے۔ یہ کہنا تو محال ہے کہ کسی استاد نے عمران خان کو شریر مگر زور آور طالب علم سمجھ کر ملک و قوم کو درپیش وقتی مسئلہ و بحران کا حل تلاش کیا ہے لیکن وزیر اعظم کے فرمودات سن کر یہ پورا منظر نامہ اپنی تمام جزئیات کے ساتھ نگاہوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔ اب یہی دیکھ لیں کہ وزیر اعظم نے کس بے بسی سے این آر او کا ذکر کیا ہے اور اس بات پر اصرار کیا ہے کہ ماضی میں دیے جانے والے این آر او یعنی جرائم سے معافی کا قانونی راستہ، قوم سے غداری کے مترادف تھے۔ اس لئے وہ خود ایسی غداری کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
یہ بیان دو طرح سے قابل توجہ ہے۔ ایک یہ کہ عمران خان اور ان کے ہونہار وزیر اطلاعات جن لوگوں کو این آر او نہ دینے پر اصرار کررہے ہیں یعنی شریف خاندان اور آصف زرداری، وہ بار بار اس ’پیشکش‘ کو ٹھکرا چکے ہیں۔ یعنی ضرورت مند تو ڈھیٹ ہو کر یہ کہہ رہا ہے کہ اسے کسی رعایت کی ضرورت یا توقع نہیں ہے لیکن دینے کا ’اختیار‘ رکھنے والا (اگرچہ یہ نکتہ بھی قابل بحث ہے کہ کیا عمران خان یا ان کی لولی لنگڑی حکومت کے پاس ایسا کوئی موقع یا اختیار ہے بھی یا نہیں ) پھر بھی بار بار کہہ رہا ہے کہ کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔ آخر اس اصرار کی کوئی وجہ تسمیہ تو ہونی چاہیے۔ ملک کے سوچنے والوں اور تجزیہ کا ہنر جاننے والوں کو اس کی گہرائی میں جانے کی ضرورت ہے۔
این آر او دینے کا تسلسل سے اعلان کرنے کی دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جس طرح کلاس کے ’عبوری استاد‘ کو اس بات کا تو یقین ہوتا ہے کہ استاد واپس آکر اسے اس کی جگہ پر بٹھا دے گا بلکہ اس کی غلطیوں پر گوشمالی بھی کرے گا لیکن وہ ہم جماعتوں کو یہ تاثر دینے کی پوری کوشش کرتا ہے کہ اب وہی ان کا استاد اور رہنما ہے لہذا اگر کسی نے چوں چرا ں کی تو اس سے برا کوئی نہیں ہوگا۔ کلاس کے شریر طالب علم یا عبوری استاد کو تو استاد کی واپسی کا خوف ہوتا ہے لیکن اس بات کا جواب البتہ عمران خان ہی دے سکتے ہیں کہ انہیں کس کی ’واپسی‘ کا خوف ہے اور وہ کیوں بدحواس ہو کر ایسی باتیں کرنے کی کوشش کررہے ہیں جن کا نہ ان کے پاس اختیار ہے اور نہ ہی جس کا کوئی عملی موقع موجود ہے۔
اس ملک میں پرویز مشرف نے اپنے آمرانہ اختیار کو بروئے کار لاتے ہوئے ضرور ایک این آر او جاری کیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے اس این آر او کا جو حشر کیا، وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ این آر او پرویز مشرف کی ایسی سیاسی غلطی ثابت ہوا جس کا خمیازہ اسے پہلے آرمی چیف کے عہدے سے علیحدگی اور پھر ایوان صدر سے رخصتی کی صورت میں بھگتنا پڑا۔
ننکانہ صاحب کی تقریرمیں این آر کو کو غداری قرار دینے کی وجہ بھی عمران خان نے نہایت صراحت سے بیان کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح چوروں لٹیروں کو یہ یقین ہوجاتا ہے کہ کوئی ان کی گرفت نہیں کرسکتا۔ اسی لئے وہ بے دریغ ملک کی دولت لوٹتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت وزیر اعظم نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے سابقہ دو ادوار کو قرار دیا ہے جن کے دوران بقول عمران خان ملک کا قرضہ چھے ہزار ارب روپے سے بڑھ کر تیس ہزارارب روپے ہوچکا ہے۔
گویا وزیر اعظم عوام کو یہ بتارہے ہیں کہ ان کی مخالف سیاسی پارٹیاں دس برس میں 24 ہزار ارب روپے ’لوٹ‘ کر لے گئیں جس کا خمیازہ اب پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اسی لئے تحریک انصاف اپنے وعدوں کے مطابق لوگوں کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے۔ اب عوام ایک ایسے ’نئے پاکستان اور تبدیلی‘ پر گزارہ کریں جس میں عمران خان کے مطابق پانچ ماہ میں تین وزیروں نے استعفیٰ دیا ہے۔ اب کوئی خان صاحب سے پوچھے ان کے وزیروں کے مستعفی ہونے سے عوام کا پیٹ کیسے بھرے گا او ر غریب کے گھر کا چولہا کیسے جلے گا۔
اگر ملک کے قرضوں کے حجم سے ہی کسی قوم کے لیڈروں کے جرائم کو ماپنا بنیادی اصول وضع ہوجائے تو حساب دان تو یہ بھی گن کر بتائے گا کہ عمران خان نے پورے جتن سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے پانچ ماہ میں 9 ارب ڈالر قرض لیا ہے جو تقریباً 1300 ارب روپے بنتے ہیں۔ تحریک انصاف کے بزرجمہر ہی بتادیں کہ ان میں سے کتنی دولت کس کے اکاو?نٹ میں جمع ہوئی ہے اور قوم پر 30 ہزار ارب روپے کی بجائے اب جو 31 ہزار 300 روپے کا بوجھ ہے، اسے کیوں کر اور کون ادا کرے گا۔ اگر قرض لینے اور قومی بجٹ خسارہ پورا کرنے کی یہ رفتار جاری رہی اور تحریک انصاف کی حکومت نے قرض لینے کی موجودہ روش برقرار رکھی تو اس حکومت کی روانگی تک ملک کا مجموعی قرض 40 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرجائے گا۔
قومی خسارہ کا ذکر کرتے ہوئے این آر او کے ذکر سے اپنی خامیوں کو چھپانا اور ملکی ترقی کے لئے حاصل کیے گئے قرضوں کو سیاسی مخالفین کی بدعنوانی کے ثبوت کے طور پر پیش کرنا بہت آسان ہے۔ لیکن گزشتہ روز کابینہ کے اجلاس میں سیکریٹری خزانہ نے موجودہ مالی سال میں دفاعی اخراجات کی مد میں مختص کردہ 1100 ارب روپے کی بجائے 1676 ارب روپے کے اعداد و شمار پیش کیے اور مالی بحران میں گھری ہوئی حکومت کی جبیں پر شکن تک نہ آئی۔ دفاعی بجٹ میں مالی سال مکمل ہونے سے پہلے ہی پچاس فیصد اضافہ ایک انہونی سے کم نہیں ہے لیکن خود مختاری اور شفافیت کے نعرے لگاتے وزیر اعظم اس حوالے سے ایک لفظ تک کہنے پر آمادہ نہیں ہیں۔
تحریک انصاف کے لیڈر وسائل پر وفاقی حکومت کی دسترس بڑھانے کے لئے صوبوں کے حق پر تو نقب لگانا چاہتے ہیں لیکن قومی خسارہ کم کرنے کے لئے دفاعی اخراجات میں ہوشربا اضافہ کرتے ہوئے اف تک نہیں کرتے۔ وزیر اعظم کو جواب دینا چاہیے کہ ان کی حکومت کے نمائندے جب ملکی آئین اور این ایف سی ایوارڈ میں طے شدہ اصول کو مسترد کرتے ہوئے صوبوں کے مالی وسائل پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور وفاقی حکومت کے لئے وسائل میں زیادہ حصہ مانگتے ہیں تو کیا وہ یہ وسائل فوج کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے فراہم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ جیسا کہ موجودہ حکومت کے انتظام میں حالیہ بجٹ کے دوران کیا جارہا ہے۔
ملک کے اقتصادی مسائل حل کرنے کے لئے آبادی کنٹرول کرنے اور غیر پیداواری اخرجات کم کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ یہ غیر پیداواری اخراجات وزیر اعظم ہاو?س کی بھینسیں نیلام کرکے کم نہیں ہوں گے بلکہ کوئی بھی ہوشمند معیشت دان دفاع پر صرف ہونے والے وسائل محدود کرنے کا مشورہ دے گا۔ اس ملک کو جب ایٹمی طاقت بنانے کے جوش میں مالی دباﺅ میں لایا گیا تھا تو یہی بتایا گیا تھا کہ پاکستان کی جوہری صلاحیت دشمن کے مقابلے میں رکاوٹ (Deterrent) کا کام کرے گی۔
اس طرح دفاع پر اپنی بساط سے زیادہ وسائل صرف کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اور اب زور شور سے یہ دلیل دی جارہی ہے کہ بھارت کے دفاعی اخراجات میں ہوشربا اضافہ کے بعد ملکی دفاع کے لئے زیادہ وسائل فراہم کرنا لازم ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ معاشی مشکلات اور بحران کے باوجود دفاعی بجٹ میں اچانک پچاس فیصد اضافہ کرتے ہوئے حکومت، قوم کو اعتماد میں لینا بھی ضروری خیال نہیں کرتی۔
دفاعی اخراجات میں اس اچانک اضافہ کی خبر اور اس میں مزید اضافہ کی نوید کو ماضی قریب میں رونما ہونے والے سیاسی منظر نامہ کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس میں فیض آباد دھرنے میں عسکری اداروں کا کردار، تحریک لبیک کا اچانک قوت پکڑنا اور پھر غبارے سے ہوا کی طرح غائب ہوجانا اور جولائی 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی نمایاں واقعات ہیں۔ قوم کو اس سوال کا جواب چاہیے کہ کیا یہ اہتمام قومی وسائل میں عسکری اداروں کا حصہ بڑھانے کے لئے کیا گیا تھا؟
ملک کا دفاع پاکستان کے ہر باشندے کے لئے اہم ہے لیکن یہ کوئی ایسا مقدس موضوع نہیں ہے جس پر بات کرنا یا رائے دینا ملک دشمنی قرار دیا جائے۔ اس ملک میں مالی حیثیت سے زیادہ وسائل مسلح افواج کو دیے جارہے ہیں لیکن اس موضوع پر گفتگو کی بجائے مباحث کو این آر او اور غیر ملکی قرضوں تک محدود کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کیا اسے وزیر اعظم کی سادہ لوحی اور دیانت داری کا مظاہرہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا جائے؟
وزیر اعظم این آر او کو قوم سے غداری قرار دیتے ہیں لیکن دفاعی اخراجات میں اضافہ پر زبان کھولنے پر قادر نہیں ہیں۔ بتایا جائے کہ یہ دیانت داری اور حب الوطنی کی کون سی قسم ہے؟
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ