وزیر خزانہ اسد عمر نے پشاور میں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈکی جانب سے قرضہ ملنے کے قوی امکانات پیدا ہو گئے ہیں اور آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ آگے بڑھا ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ اب پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ کیوں کہ آئی ایم ایف نے اب اپنے مو?قف میں لچک دکھائی ہے۔ گزشتہ روز دوبئی میں وزیر اعظم عمران خان نے عالمی مالیاتی فنڈ کی سربرا ہ کرسٹینے لاگاردے سے ملاقات کی تھی۔
سرکاری طور پر اس ملاقات کی تفصیل تو نہیں بتائی گئی لیکن یہ خبر ضرور سامنے آئی تھی کہ آئی ایم ایف کی سربراہ نے پاکستانی وزیر اعظم کو بتایا تھا کہ ان کا ادارہ پاکستان کی مدد کے لئے تیا ر ہے تاہم ملکی معیشت کو متحرک کرنے کے لئے حکومت کو اہم پالیسی فیصلے کرنے ہوں گے اور اصلاحات کا بیڑا اٹھانا ہو گا۔ عمران خان حکومتوں کی عالمی سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لئے دوبئی گئے تھے۔ اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے لاگاردے کی موجودگی میں ملک کو درپیش اقتصادی مسائل کی وجہ اور علاج ان الفاظ میں بیان کیا تھا : ’مجھے بتانے دیجئے کہ اصلاحات تکلیف دہ ہوتی ہیں۔ یہ سرجری کی مانند ہیں۔ جب سرجری ہوتی ہے تو مریض کو تکلیف ہوتی ہے لیکن پھر اس کی حالت بہتر ہونے لگتی ہے۔ کسی معاشرے کے لئے بدترین چیز یہی ہو سکتی ہے کہ مخالفت کے خوف سے اصلاحات کو ملتوی کیا جاتا رہے یا مفاد پرست اصلاحات کے راستے کی رکاوٹ بن جائیں‘۔
وزیر اعظم کی ان باتوں اور اسد عمر کی طرف سے آئی ایم ایف سے مفاہمت پیدا ہونے کی ’نوید‘ کو ملا کر پڑھا جائے تو عام پاکستانی شہری کی تفہیم کے لئے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حکومت فوری طور پر اور آنے والے بجٹ میں ایسے سخت مالیاتی اقدامات کرنے پر مجبور ہوگی جن کی وجہ سے پاکستانی عوام کی قوت خرید متاثر ہوگی اور متوسط طبقہ پر مالی بوجھ بڑھایا جائے گا۔ اسد عمر نے اگرچہ وزارت خزانہ کا چارج سنبھالنے سے پہلے ہی کہہ دیا تھا اور جولائی میں قائم عبوری حکومت بھی یہ اشارے دیتی رہی تھی کہ پاکستان کو ادائیگیوں کے توازن کے خسارہ سے نمٹنے کے لئے عالمی مالیاتی فنڈ سے رجوع کرنا پڑے گا۔ یہ قرض عام طور سے بہتر شرائط پر عبوری مدت کے لئے دیا جاتا ہے لیکن اس کے لئے فنڈ کی طرف سے معاشی اصلاح کے متعدد اقدامات تجویزکیے جاتے ہیں۔ اس مالی پروگرام کی مدت میں قرض لینے والی حکومت ان اصلاحات پر عمل درآمد کے بارے میں رپورٹ کرنے کی پابند ہوتی ہے۔
تاہم حکومت سنبھالنے اور خاص طور سے سعودی عرب سے تین ارب ڈالر کا مالی پیکیج ملنے کے بعد سے وزیر خزانہ کے علاوہ وزیر اعظم نے بھی مسلسل یہ چرچا کیا تھا کہ حکومت آئی ایم ایف سے قرض لینے پر مجبور نہیں ہے۔ یہ مالی پروگرام آئی ایم ایف کی شرائط کی بجائے پاکستانی حکومت کی شرائط پر ہوگا۔ وزیر اعظم اور وزیر خزانہ یہ تاثر دیتے رہے ہیں گویا عالمی مالیاتی فنڈ کوئی ایسا ادارہ ہے جو پاکستان کی خود مختاری پر ’حملہ آور‘ ہونے کے لئے تیار بیٹھا ہے۔
لیکن نئے پاکستان کے ’محافظ‘ کسی ایسے سمجھوتے کا حصہ نہیں بن سکتے جو عوام کے لئے بوجھ ہو اور ملک کو توہین آمیز شرائط قبول کرنے پر مجبور کیا جائے۔ ماہرین معاشیات اور معاملہ کی حساسیات کو سمجھنے والے اس دوران یہ واضح کرتے رہے ہیں کہ حکومت کو اس معاملہ کو موخر کرنے اور غیر یقینی پیدا کرنے کی بجائے جلد فیصلہ کرکے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرلینے چاہئیں۔ لیکن سعودی عرب کے بعد ابوظہبی اور پھر چین سے امدادی پیکیج ملنے کی خوشی میں حکومت نے آئی ایم ایف کو ولن بنا کر پیش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
بے شک آئی ایم ایف میں دنیا کی بڑی معیشتوں کے نمائیندے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ بالواسطہ ہی سہی کسی ملک کو آئی ایم ایف سے قرض لینے کی صورت میں یہ ممالک اپنے سیاسی و معاشی مفادات کا تحفظ بھی چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی حکومت کی طرف سے باقاعدہ درخواست کرنے سے پہلے ہی امریکی وزیر خارجہ مائیک پومیو نے ایک انٹرویو میں واضح کردیا تھا کہ امریکہ، چینی قرض ادا کرنے کے لئے پاکستان کو آئی ایم ایف کے وسائل استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
مبصرین کا خیال تھا کہ اس بیان کا مقصد دراصل پاکستان کو بعض اہم امریکی سفارتی منصوبوں میں ساتھ دینے پر مجبور کرنا تھا جن میں سے ایک افغانستان کے معاملہ میں طالبان پر دباﺅ ڈال کر انہیں مذاکرات پر آمادہ کرنا تھا اور دوسرے پاک چین اقتصادی معاہدہ کی ان شقات تک رسائی کی درپردہ خواہش تھی جو اس علاقے میں امریکہ کی اسٹریجک حکمت عملی کے لئے سود مند ہو سکتی تھیں۔ سی پیک میں چینی سرمایہ کاری کی تفصیلات فراہم کرنے کی باتیں بعد میں کھل کر بھی کہی گئیں۔ یہ اشارے بھی سامنے آئے کہ شاید امریکہ بھارت نوازی کی دھن میں سی پیک میں رخنہ کی نیت سے ان معاہدوں کی بین الحکومتی تفصیلات جاننا چاہتا ہے۔
اس پیچیدہ اور مشکل صورت حال میں البتہ تحریک انصاف کی حکومت نے کبھی کھل کر یہ بتانے کی کوشش نہیں کی کہ آئی ایم ایف ایسی کون سی شرائط عائد کرنا چاہتا ہے جنہیں عوام کے حقوق کے خلاف اور ملکی خود مختاری پر حملہ سمجھتے ہوئے حکومت قبول کرنے سے گریز کرنے کا تہیہکیے ہوئے ہے۔ آئی ایم ایف یا کسی بھی ادارے یا ملک سے قرض لینا کوئی خوش آئیند معاملہ نہیں ہے۔ خاص طور جس ملک کی معیشت کے اشاریے منفی رخ پر جا رہے ہوں اور عالمی ادارے اس کی ریٹنگ کم کر رہے ہوں، اس کے لئے آئی ایم ایف سے امدادی پیکیج لینا دشوار ہو جاتا ہے۔
کیوں کہ یہ ادارہ دوسرے ملکوں کے سرمایہ کو تقسیم کرتا ہے اور اسے کسی بھی ملک کو قرض دیتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ اس معیشت سے یہ رقم واپس وصول ہوجائے گی۔ حکومتیں عام طور سے مشکل اقتصادی فیصلوں کو اپنی سیاسی مقبولیت کے لئے خطرہ سمجھتی ہیں، اس لئے معاشی اصلاح کے لئے کیے جانے والے منفی پہلوﺅں کا سارا بوجھ آئی ایم ایف جیسے اداروں پر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایک پاپولسٹ جماعت کے طور پر تحریک انصاف کو بھی یہی مجبوری لاحق ہے۔
گزشتہ آٹھ نو ماہ سے پاکستان کے سارے معیشت دان یہ جانتے تھے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے امدادی پیکیج لینا پڑے گا لیکن تحریک انصاف نے برسر اقتدار آنے کے بعد چھے ماہ تک قوم کو اس دھوکہ میں مبتلا رکھا ہے کہ عمران خان کی سحر انگیز شخصیت کی وجہ سے دوست ملک دھڑا دھڑ امداد دے رہے ہیں اور سرمایہ کار قطاریں بنا کر پاکستان میں دولت کے انبار لگانے کے لئے بے چین ہیں۔ اس لئے حکومت آئی ایم ایف جیسے ادارے سے اس وقت تک قرض لینا گوارا نہیں کرے گی جب تک وہ پاکستان کی شرائط پر یہ معاہدہ کرنے پر آمادہ نہ ہو۔ اگرچہ یہ بیان بازی اس بنیادی منطق کے ہی خلاف تھی کہ عملی طور پر قرض دینے والا شرائط عائد کرتا اور لینے والا ملک ہو یا فرد اسے ان شرائط کو ماننا پڑتا ہے۔
اس کے باوجود پاکستانی حکومت نے عوام کے مفاد کے نام پر اب تک ملکی معیشت کو بے یقینی اور اضطراری کیفیت سے دوچار رکھا ہے۔ اس لئے وزیر خزانہ اسد عمر اور وزیر اعظم عمران خان سے یہ پوچھنا ضروری ہے کہ ان چھے ماہ کے دوران ملکی معیشت کو جو نقصان پہنچا ہے اور حکومت کے لیت و لعل کی وجہ سے معاشی اشاریوں میں جو کمی واقع ہوئی ہے، اس کی قیمت مہنگے قرضوں اور بین الاقوامی لین دین میں سخت شرائط کی صورت میں بہر حال پاکستانی عوام کو ہی ادا کرنا پڑے گی۔ اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟
عمران خان ہر قومی اور عالمی تقریب میں سابقہ حکومتوں کی نالائقی، بدعنوانی اور بد انتظامی کو اپنی حکومت کی مجبوری بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن گزشتہ چھے ماہ کے دوران وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں اور تحریک انصاف کی حکومت تمام فیصلے کرنے کی مجاز ہے۔ تو اس نے فیصلے کرنے میں تاخیر کیوں کی؟ اگر حکومت اور وزیر خزانہ کی یہ بات درست ہے کہ اب آئی ایم ایف پاکستان کی شرائط ماننے پر مجبور ہوگیا ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ یہ ساری تفصیلات عام کرے کہ پہلے آئی ایم ایف کیا مطالبہ کر رہا تھا اور اب اس کے موقف میں کیا تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ عمران خان پاکستان میں بدعنوانی اور بیڈ گورننس کا رونا روتے ہوئے اپنی حکومت کو آئیڈیل اور عوام دوست قرار دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ لیکن ہر لحاظ سے کامل حکومت کے ہوتے ہوئے فیصلوں میں تاخیر سے ملکی معیشت کو جو نقصان پہنچا ہے، اسے کون پورا کرے گا؟
گزشتہ روز دوبئی میں حکومتوں کی عالمی کانفرنس ’بہتر معاشی تفہیم، ماحولیات دوست حکمت عملی اور نئی تخلیقات کی حوصلہ افزائی‘ کے موضوع پر تبادلہ خیال کے لئے منعقد ہوئی تھی۔ لیکن پاکستانی وزیر اعظم نے اس فورم سے خطاب کرتے ہوئے سابقہ حکومتوں کی نا اہلی بیان کرنے کے علاوہ پاکستان کے لئے سرمایہ کاری کی اپیل کی ہے۔ البتہ سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لئے جو معاشی ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے وہ عمران خان کی پر جوش اور شاہ محمود قریشی کی لچھے دار گفتگو کے علاوہ کہیں دکھائی نہیں دیتا۔
حکومت یہ بتانے سے قاصر ہے کہ اصلاحات کا وہ کون سا ایجنڈا ہے جسے نافذ کرکے وہ ملکی معیشت میں گزشتہ نصف صدی کے دوران پیداکیے گئے مسائل کو رفع کردیں گی۔ اس تقریر میں عمران خان نے ماضی میں ملک کی سوشلسٹ قیادت پر صنعتیں قومیانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح سرمایہ دار کو منافع کمانے سے محروم کرکے معاشی احیا کا راستہ روکا گیا۔ لیکن اگلے ہی سانس میں سرمایہ داری کے خلاف بات کرتے ہوئے یہ اعلان بھی کیا کہ ’میں دراصل نیو لبرل معیشت کا مخالف ہوں جس میں باسٹھ افراد دنیا کے تین ارب لوگوں کے مساوی دولت پر قابض ہوجاتے ہیں‘۔
عمران خان کو سمجھنا چاہیے کہ کوئی بھی عالمی اجلاس تحریک انصاف کے حامیوں کا جلسہ نہیں ہوتا۔ وہاں کی جانے والی باتیں دلیل، حقائق اور میرٹ کی کسوٹی پر پرکھی جاتی ہیں۔ اس طرح عالمی لیڈر اور ادارے اس لیڈر کے علاوہ اس ملک کے بارے میں بھی رائے قائم کرتے ہیں، وہ جس کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے۔
(بشکریہ:کاروان۔۔۔ناروے)