نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر حملے اور ایک نسل پرست شخص کی وحشیانہ فائرنگ سے 49 افراد کے جاں بحق ہونے کے بعد دنیا بھر سے مذمت کے بیان جاری کیے جارہے ہیں۔ تمام مغربی ممالک میں مساجد کی حفاظت کے نقطہ نظر سے نگرانی سخت کردی گئی ہے اور نیوزی لینڈ کی پولیس نے ملک کی تمام مساجد سے کہا ہے کہ وہ صورت حال واضح ہونے اور اگلا پیغام ملنے تک مساجد بند رکھیں۔ اگرچہ کرائسٹ چرچ پولیس کے سربراہ مائیک بش نے کہا ہے کہ صورت حال کنٹرول میں ہے۔
چار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں 28 سالہ آسٹریلین شہری برینٹن ٹیرنٹ بھی شامل ہے۔ اسی شخص نے یکے بعد دیگرے شہر کی دو مساجد پر بھاری اسلحہ سے فائرنگ کرکے کثیر تعداد میں لوگوں کو ہلاک کیا ہے۔ ان میں سے 41 لوگ النور مسجد میں مارے گئے جبکہ 7 افراد لن ووڈ ایوینیو پر واقع مسجد میں نسل پرست قاتل کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ ایک شخص زخموں کی تاب نہ لا کر ہسپتال میں جاں بحق ہؤا۔ مرنے والوں میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پچاس کے لگ بھگ لوگ زخمی حالت میں ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں جن میں سے 20 کی حالت نازک بتائی گئی ہے۔
یہ وحشیانہ حملہ آسٹریلیا کے ایک 28 سالہ شہری نے کیا ہے جس نے اس حملہ سے پہلے ایک منشور آن لائن شائع کیا تھا۔ اس منشور میں اس نے سفید فام برتری کا اعلان کرنے کے علاوہ تارکین وطن اور مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کیا ہے۔ اس نے منشور میں اپنے بارے میں معلومات دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’میں پہلے کمیونسٹ تھا، پھر انارکسٹ ہوگیا اور فسطائی بننے سے پہلے لبرل تھا‘ ۔ اس نے دعویٰ کیاکہ وہ ناروے میں 2011 میں 77 افراد کو ہلاک کرنے والے نسل پرست آندرش برائیوک کے ساتھ بھی رابطہ میں رہا تھا۔
وہ مقامی نسل پرست گروہوں کے ساتھ متحرک رہا تھا۔ اس نے اپنی منشور نما دستاویز میں لکھا ہے کہ اس نے امریکی صدر ٹرمپ کی حمایت بھی کی تھی کیوں کہ ’وہ سفید فام برتری کو بحال کرنے کی امید ہیں‘ ۔ قاتل نے امریکہ میں ٹرمپ کی حامی اور سیاہ فام آبادی کے خلاف رائے رکھنے والی کینڈنس اوونز سے متاثر ہونے کا اعتراف بھی کیا ہے۔ اور لکھا ہے کہ اس خاتون کا میری زندگی اور خیالات کی ترویج پر گہرا اثر رہا ہے۔
حملہ آور نے گزشتہ رات فیس بک پر ایک نوٹ میں لکھا تھا کہ ’میں ملک میں گھس آنے والوں پر حملہ کروں گا اور اسے فیس بک پر لائیو اسٹریم بھی کروں گا‘ ۔ اس نے حملہ کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے یہ بھی لکھا تھا کہ ’اگر میں اس حملہ میں زندہ نہ بچ سکا تو سب کو خدا حافظ‘ ۔ اس نے کرائسٹ چرچ کی النور مسجد پر حملہ کے وقت اپنے اعلان کے مطابق براہ راست اس اندوہناک اور وحشیانہ عمل کو نشر کیا۔ دنیا کے اکثر ٹیلی ویژن اداروں نے اس ویڈیو کو نشر کرنے سے گریز کیا ہے تاہم جن لوگوں نے اسے دیکھا ہے وہ اسے گھناؤنا اور خوفناک منظرقرار دے رہے ہیں۔
ایک ایسے ہی ایک تبصرہ نگار کا کہنا ہے کہ اس ویڈیو میں فائرنگ میں 20 کے لگ بھگ لوگوں کو گولیاں کھا کر گرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ مقامی وقت کے مطابق ایک بج کر چالیس منٹ پر جب حملہ آور شہر کے وسط میں واقع النور مسجد میں داخل ہؤا تو اس وقت دو سو کے لگ بھگ نمازی موجود تھے جن میں بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم کے ارکان بھی شامل تھے۔ تاہم ٹیم کے تمام ارکان بحفاظت وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ نمازیوں میں سے بیشتر کھڑکیاں توڑ کر فرار ہوئے جبکہ 41 افراد گولیاں لگنے سے موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے۔ اس مسجد پر حملہ کے بعد قاتل اپنی کار میں لن ووڈ ایوینیو پر واقع دوسری مسجد پہنچا اور وہاں بھی اسی طرح بے دریغ فائرنگ کرکے 7 افراد کو شہید کیا۔
شروع میں پولیس کو معاملہ کو سمجھنے میں مشکل پیش آرہی تھی تاہم پورے شہر کی پولیس جائے واقع کے علاوہ اہم شاہراہوں کی نگرانی پر متعین کردی گئی تھی۔ ایسی ہی ایک ناکہ بندی پر پولیس نے دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ کی کار کو روکا۔ کار کی پڑتال پر اس میں دھماکہ خیز مواد ملا۔ تاہم پولیس نے فوری طور سے ان بموں کو ناکارہ بنانے کا اہتمام کیا۔ ٹینرنٹ کے علاوہ تین مزید افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جنہیں ہفتہ کے روز عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
گرفتار ہونے والوں میں ایک لڑکی بھی شامل ہے۔ حملہ آور کا دعویٰ ہے کہ اس نے دس لوگوں کے ساتھ مل کر اس حملہ کی منصوبہ بندی کی تھی اور اس میں دو برس صرف ہوئے تھے۔ اس نے تین ماہ پہلے ان دونوں مساجد کو ٹارگٹ کرلیا تھا جن پر اس نے آج نماز جمعہ کے وقت حملہ کیا گیا۔ پولیس کا خیال ہے کہ اس واقعہ میں ملوث سب لوگوں کو پکڑ لیا گیا ہے تاہم پورے ملک میں انتہا پسند سفید فام گروہوں میں ایسے لوگوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو ممکنہ طور پر قاتل کے معاون رہے ہوں۔
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا ایرڈن نے سانحہ کی خبر ملتے ہی اپنے غم و غصہ کا اظہارکرنے کے لئے پریس کانفرنس منعقد کی اور کہا کہ ’آج کا دن نیوزی لینڈ کی تاریخ میں سیاہ ترین دن ہے۔ ہم اس قسم کے تشدد کو قبول نہیں کرسکتے‘ ۔ رات گئے ایک دوسری پریس کانفرنس میں وزیر اعظم نے سانحہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے اس واقعہ کو دہشت گردی قرار دیا۔ جیسنڈا ایرڈن کا کہنا تھا کہ ’اس میں شبہ نہیں ہے کہ یہ دہشت گردی کا واقعہ ہے۔
ہم پر یہ حملہ اس لئے نہیں ہؤا کہ ہم نسل پرستی کے حامی ہیں یا انتہا پسند ہیں بلکہ ہم ان دونوں کو مسترد کرنے کی وجہ سے حملہ کا شکار ہوئے ہیں۔ تم نے ہم پر حملہ تو کر لیا لیکن ہم سختی سے اس کی مذمت کرتے ہیں اور اسے مسترد کرتے ہیں۔ آج کے سانحہ کا نشانہ بننے والے بہت سے لوگ شاید ترک وطن کرکے یہاں آئے تھے، کچھ پناہ گزین ہوں گے۔ انہوں نے نیوزی لینڈ کو اپنا گھر بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ ملک ان کا گھر ہے۔ وہ ہم میں سے ہی ہیں۔ اور جس شخص نے یہ تشدد کیا ہے، وہ ہم میں سے نہیں۔ ایسے لوگوں کی نیوزی لینڈ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس قسم کی دہشت گردی کی نیوزی لینڈ میں کوئی جگہ نہیں ہے‘ ۔
نیوزی لینڈ 47 لاکھ افراد کا ایک پرسکون ملک ہے جو عام طور سے عالمی خبروں میں نہیں رہتا۔ وہاں اس وقت 50 ہزار مسلمان رہتے ہیں۔ یہ تعداد 2006 کے مقابلے میں 28 فیصد زیادہ ہے۔ تاہم مسلمانوں سمیت تارکین وطن نیوزی لینڈ کے معاشرہ میں گھل مل کر رہتے ہیں لیکن تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ کی وجہ سے گزشتہ ایک دہائی کے دوران نسل پرست اور مسلمان دشمن عناصر متحرک ہوئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ملک میں درجنوں نسل پرست گروہ منظم ہیں۔ انہیں ہمسایہ ملک آسٹریلیا کے تارکین وطن مخالف اور مسلمان دشمن عناصر سے اخلاقی سرپرستی میسر آتی ہے۔ تاہم یہ بات کسی کے بھی وہم و گمان میں نہیں تھی کہ اس چھوٹے سے ملک میں چھوٹی سی مسلمان اقلیت کے خلاف اس قدر نفرت انگیز اور شدید حملہ کیا جائے گا۔
یہ حملہ جولائی 2011 میں ناروے میں آندرش برائیوک کے حملوں سے مماثلت رکھتا ہے۔ اس نے بھی دو جگہ پر حملہ کیا تھا اور لیبر پارٹی کے یوتھ ونگ کے سمر کیمپ پر دھاوا بول کر 69 افراد کو ہلاک کیا تھا۔ جبکہ اس سے پہلے وہ شہر میں واقع سرکاری سیکریٹریٹ پر بم دھماکہ میں آٹھ افراد کو ہلاک کرچکا تھا۔ برائیوک بھی سفید فام برتری پر یقین رکھتا تھا اور سفید فام عناصر کی حکومت قائم کرنے کا خواب دیکھتا تھا۔ اس نے بھی تارکین وطن اور مسلمانوں کی نفرت میں اندھا ہوکر ایک ایسی جماعت کے نوجوانوں کو نشانہ بنایا تھا جو اس کے خیال میں ملک میں مسلمانوں اور تارکین وطن کو لانے کا سبب بنی تھی۔ نیوزی لینڈ میں قتل عام میں ملوث شخص نے برائیوک سے رابطہ کا اعتراف کیا ہے تاہم اس نے مسلمانوں کی ملک میں آمد کا سبب بننے والی کسی سیاسی پارٹی کی بجائے براہ راست مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے۔
برائیوک کی طرح ٹیرنٹ بھی نفرت کو عام کرنا اور لوگوں میں خوف کی فضا پیدا کرنا چاہتا ہے۔ نفرت اور دہشت کے اس پیغام کا جواب مزید اتفاق اور انتہا پسندی کو مسترد کرکے ہی دیا جا سکتا ہے۔ آج کا دن صرف نیوزی لینڈ یا مسلمانوں کے لئے ہی غم اور افسوس کا موقع نہیں ہے بلکہ اس کرہ ارض پر آباد سب انسانوں کے لئے یوم سیاہ ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں مختلف عناصر مختلف ناموں سے مختلف عذر پیش کرتے ہوئے معصوم اور بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنا کر تفریق اور انتشار پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ نفرت اور بے اعتباری کے اس ماحول میں ہی انتہا پسند پھل پھول سکتے ہیں۔ اسی لئے ان کا جواب دینے کے لئے ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے کی بجائے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑنے اور میں اور تو کی تقسیم پر سر کھپانے کی بجائے، تشدد اور نفرت کو مسترد کرنے کی کوششوں کو مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا ایرڈن نے تشدد کا ارتکاب کرنے والے شخص کو مسترد کرتے ہوئے بلاشبہ اپنے ملک کے سب باشندوں میں یہ اعتبار پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ عناصر کسی ایک عقیدہ یا نسل کے خلاف نہیں ہیں بلکہ یہ معاشروں کو انتشار اور انحطاط کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔ یہ طرز عمل عام طور سے اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ نائین الیون کے بعد ایک طرف مسلمان انتہا پسند گروہوں نے قوت پکڑی اور مغربی ممالک میں دہشت گردی کو عین اسلام قرار دیا تو دوسری طرف مغرب میں یہ تاثر قوی کرنے والے عناصر نے بھی سر اٹھایا کہ مسلمان ہی دراصل دہشت گردی کی علامت ہیں اور ان کی معاشروں میں موجودگی ہی علت اور پریشانی کا سبب ہے۔ تاہم کرائسٹ چرچ میں ہونے والی دہشت گردی نے ثابت کیا ہے کہ انتہا پسند ہر نسل اور عقیدہ میں ہو سکتے ہیں اور ان کے خلاف باہمی اشتراک اور احترام کو فروغ دے کر ہی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔
مسلمانوں کو بھی اس واقعہ کو اسلامی انتہا پسند گروہوں کی ’راست بازی‘ کی دلیل کے طور پر حوالہ بنانے کی بجائے، اس بنیادی نکتہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دونوں طرح کے انتہا پسند نفرت عام کر رہے ہیں جس کا نشانہ انسان بنتے ہیں خواہ ان کا عقیدہ کچھ ہی کیوں نہ ہو۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ