پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری سے قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لئے مشورہ مانگتے ہوئے وزیر خارجہ کے لہجہ کی لجاجت اور چہرے کی متانت دیدنی تھی۔ یہ ایک ایسے درد مند رہنما کی گفتگو لگتی تھی جو اپوزیشن کے ناجائز اور ناخوشگوار مطالبوں سے عاجز آنے کے باوجود جمہوریت کے نام پر ہر حد تک جانے پر آمادہ ہو۔ تاہم حیرت تو صرف اس بات پر ہے کہ حکمران پارٹی کا نائب چئیرمین اور ملک کے وزیر خارجہ کے منصب پر فائز ہونے کے باوجود شاہ محمود قریشی یہ کیوں نہیں جانتے کہ قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لئے کون سے مراحل طے کرنا ضروری ہے۔ اور اب انہیں اس حوالے سے نوجوان بلاول بھٹو زرداری کے مشورہ اور رہنمائی کی کیوں ضرورت پیش آرہی ہے۔
شاہ محمود قریشی جہاں دیدہ سیاست دان ہیں۔ عمران خان کا دامن تھامنے سے پہلے وہ پیپلز پارٹی کی ہی حکومت میں وزارت عظمی کے لئے منہ میں پانی بھرتے ہوئے بالآخر وزارت خارجہ پر قانع ہوگئے تھے۔ جس طرح تحریک انصاف کے دور اقتدار میں پنجاب کا وزیر اعلی بننے کی امید لگاکر مجبوری کے عالم میں انہیں وزیر خارجہ ہی کا منصب قبول کرنا پڑا ہے ۔ وہ خود ان عوامل کو زیادہ بہتر طور سے جانتے ہوں گے جو پنجاب کا حکمران اعلی بننے میں ان کے راستے کا پتھر بن گئے تھے۔ وہ خود ہی اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں کہ کیا یہ بات اتنی ہی سادہ ہے کہ وہ اپنے ہی ایک سابق ارادت مند کے ہاتھوں صوبائی اسمبلی کی نشست ہار گئے تھے، اس لئے وزیر اعلیٰ پنجاب نہ بن سکے ۔ یا یہ کہ ان کے نئے قائد عمران خان کو القا ہؤا تھا کہ عثمان بزدار سے بہتر کوئی شخص صوبے کی قیادت کا اہل نہیں ہوسکتا۔ جس کی وجہ سے شاہ محمود جیسے پارٹی وفادار کو اپنے قائد کی خواہش کا احترام کرنا پڑا۔
سوچنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ جب تحریک انصاف کے نائب چئیرمین اور وزیر خارجہ کے طور پر انہوں نے ’بلاول کے والد ‘ سے قومی ایکشن پلان کے بارے میں گفتگو کی تھی تو کیا ان کا لہجہ خوشامد کی چاشنی سے ویسے ہی شیریں تھا ، جیسا وہ آصف زرداری کے زیرنگرانی وزیر خارجہ ہوتے ہوئے اختیار کیا کرتے تھے۔ یا اس بار اقتدار کی تمکنت اور شفاف دامنی کے اعزاز کی وجہ سے وہ زیادہ اعتماد اور حوصلہ سے استفسار کررہے تھے۔ اب یہ بات تو واضح ہوچکی ہے کہ آصف زرداری قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کے حوالے سے شاہ محمود قریشی کی بے چینی دور کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ اسی لئے وزیر خارجہ کو میڈیا سے گفتگو کے دوران بلاول بھٹو زرداری سے استفسار کرنا پڑا کہ وہ اپنی مشکل کو تحریری طور پر بیان کریں تاکہ حکومت ملک میں انتہا پسندی کے خاتمہ کے لئے قومی ایکشن پلان پر اسی طرح عمل کرے جس طرح اپوزیشن چاہتی ہے۔
سوال تو یہ ہے کہ دو روز پہلے اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس میں گرجتے برستے ہوئے پاکستانی وزیر خارجہ مغربی ممالک کو اپنے انتہا پسندوں پر قابو پانے کے سنہری اصول بتاتے رہے۔ لیکن ان کی اپنی حکومت قومی اتفاق رائے سے طے پانے والے قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لئے بلاول اور اپوزیشن کے مشورہ کی محتاج کیوں ہوچکی ہے۔ یوں تو تحریک انصاف کے نائب چئیرمین خود چل کر اپوزیشن کے پاس جانے حتی کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت کی پوزیشن واضح کرنے پر بھی آمادہ ہیں۔ لیکن حکومت خود اس جمہوری شعور سے محروم ہے کہ قومی اہمیت کے کسی معاملہ پر سیاسی مخالفین کی کردار کشی کرنے اور میڈیا کو اپنی سچائی کا گواہ بنانے کی بجائے براہ راست پارلیمنٹ کا اجلاس بلاکر معاملہ کے تمام پہلوؤں پر غور کرے ۔ اس طرح سرکاری ارکان کے علاوہ اپوزیشن کے مشوروں سے بھی استفادہ کرنے کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ کام وہی حکومت کرسکتی ہے جسے اپنے اقتدار سے زیادہ قومی مفاد اور سیاسی رسہ کشی سے زیادہ قومی مفاہمت کی ضرورت کا احساس ہو۔
گزشتہ دنوں امریکہ کے وزیر خاجہ مائیک پومیو نے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کو امریکہ کی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے پلوامہ حملہ کے بارے میں بھارت کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے حال ہی میں برصغیر میں تصادم کی صورت حال کی ذمہ داری پاکستان سے بھارت میں دہشت گردی کرنے والے عناصر پر عائد کی تھی۔ سینیٹ کے سابق چئیرمین اور ملک کے معتبر سیاست دان رضا ربانی نے اس اشتعال انگیز بیان پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کی تجویز دی تھی لیکن اس مشورہ پر عمل کرنے کی بجائے وزیر اعظم عمران خان نے سینئیر صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے اس معاملے پر براہ راست سوال کا جواب دینے سے بھی گریز کیا۔ اب شاہ محمود قریشی انتہا پسندوں کے خلاف اقدامات کے لئے قومی اسمبلی میں وضاحت دینے کی پیش کش کررہے ہیں تو اس پر کیوں کر اعتبار کیا جاسکتا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے انتہا پسندوں کے خلاف حکومتی اقدامات پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا تھا کہ عمران خان اگر واقعی اس معاملہ میں سنجیدہ ہیں تو پہلے اپنی کابینہ سے ان تین وزیروں کو فارغ کریں جو ماضی میں جہادی گروہوں کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ اس مطالبہ کے بعد سےحکومت کے نمائندے مسلسل بلاول بھٹو کی کردار کشی پر مامور ہیں۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف سنجیدگی سے کوشاں کسی بھی حکومت کو بلاول جیسے نوجوان اور روشن خیال رہنما کو قومی منظر نامہ میں خوش آمدید کہتے ہوئے ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنا چاہئے تھا۔ قوم بھارت کے ساتھ تصادم کے علاوہ عالمی سطح پر مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔ اس صورت حال کا تقاضہ تھا کہ ملک کی سب سیاسی قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جاتا تاکہ بیرونی دنیا پر یہ واضح ہوتا کہ پاکستانی قوم اندرونی طور پر بنیادی قومی معاملات پر متفق ہے۔ اس کی بجائے قومی سلامتی اور انتہا پسندی کے خلاف کام جیسے معاملات کو متنازع بنا کر سیاسی میدان کو گرم رکھنے کی موجودہ کوششیں افسوسناک ہیں۔
ملک میں انتشار اور سیاسی جبر کا ماحول پیدا کیا گیا ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے کسی اصولی معاملہ پر گفتگو کو بھی کرپشن سے بچنے کا ہتھکنڈا قرار دے کر پرجوش پروپیگنڈے کے ذریعے معاملات کو الجھایا جا رہا ہے۔ جن وزیروں کا امور داخلہ یا قومی سلامتی کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں، وہ بھی دن رات قومی وقار کا نام لے کر اپوزیشن لیڈروں پر ذاتی حملے کرنے میں مصروف ہیں۔ اس وقت ملک میں ایسی جمہوری حکومت برسراقتدار ہے جس کا وزیر اطلاعات میڈیا پر پابندیوں کو قومی کاز قرار دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ صحافیوں اور میڈیا کو جس دباؤ کا سامنا ہے، اس میں کسی آزادانہ رائے کا منظر عام پر آنا محال ہو چکا ہے۔ یہ ساری علامتیں حکومت کی نیک نیتی کو مشکوک بناتی ہیں۔ حکومت اور اس کے وزرا کی جو صلاحیت انتہا پسندوں کے خلاف کام کرنے پر صرف ہونی چاہئے، اسے باہمی سیاسی چپقلش کی نذر کیا جا رہا ہے۔ ایسی صورت میں شاہ محمود قریشی کی خوش کلامی، بے مقصد زبانی ورزش سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔
ملک میں پھیلتی ہوئی انتہا پسندی صرف کشمیر کی آزادی کا نعرہ لگانے والے جہادی گروہوں ہی کو مضبوط نہیں کرتی بلکہ اس کی وجہ سے سماجی امن و امان اور احترام بھی خطرے کا شکار ہے۔ اس کے مظاہر تعلیمی ادارے میں استاد کے قتل، علما پر حملوں اور اقلیتوں کے خلاف زورآوری کے واقعات سے نمایاں ہو رہے ہیں۔ ایسے میں وزیر خارجہ کو بلاول بھٹو زرداری سے تحریری درخواست گزاری کا مطالبہ کرنے کی بجائے اپنے وزیراعظم عمران خان سے فوری طور پر مل کر یہ مشورہ دینا چاہئے کہ انتہاپسندی سے نمٹنے کے لئے سیاسی اور سماجی تصادم کو ختم کرنا ہی اولین قومی ضرورت ہے۔
اس وقت پاکستانی قوم کو موجودہ بحران سے نکلنے کے لئے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور جمہوری و آئینی حقوق کا راستہ مسدود کرنے سے ملک کی مشکلات میں اضافہ ہی ہو گا۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ