مسلم لیگ کے قائدین نے سپریم کورٹ سے میڈیکل گراؤنڈ پر نواز شریف کو ملنے والے مختصر ریلیف پر خوشی و اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ یہ ضمانت نواز شریف کی طرف سے قید کے دوران کسی ہسپتال جا کر علاج کروانے سے انکار کے بعد بے حد اہمیت حاصل کرگئی تھی۔ اگر سپریم کورٹ اس اپیل کو مسترد کرتی اور نواز شریف کی طبیعت مزید بگڑتی تو اس کا سارا بوجھ ملک کے عدالتی نظام پر ڈالا جاتا۔ تاہم یہ اپیل منظور کرتے ہوئے بھی ملک کی عدالت عظمی یہ ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سب مجرموں کے ساتھ یکساں سلوک کرتی ہے۔ اگر اس معاملہ میں ملک کے سب سے بڑے صوبے کے سب سے مقبول لیڈر کی بجائے کوئی بے وسیلہ یا عام شخص ملوث ہوتا تو شاید سپریم کورٹ کو نہ ضمانت کی درخواست پر اتنی توانائی صرف کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی اور نہ ہی ملک کا میڈیا ہمہ وقت اس مقدمہ کے پیچ و خم کی تفصیلات پر مغز ماری کررہاہوتا۔ طبی بنیادوں پر نواز شریف کو چھے ہفتے کے لئے رہا کرنے کا فیصلہ نواز شریف کی فتح یا کامیابی تو نہیں ہے لیکن یہ ملک میں نظام انصاف کی ناکامی ضرور ہے۔اسی طرح ملک کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے شخص کی صحت کو سیاسی معاملہ بنانے اور اس پر بیان بازی کرنے والے سیاسی لیڈر خواہ ان کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہو یا وہ حکمران تحریک انصاف سے تعلق رکھتے ہوں، یہ واضح کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ اس ملک کا نظام فعال نہیں ہے ۔ یہاں انصاف حاصل کرنے کے لئے سیاسی دباؤ ڈالنا ضروری ہوتا ہے۔ اگرچہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث سے تند و تیز سوال کئے اور ان کی طرف سے ایک برطانوی ڈاکٹر کے خط کو مسترد کرتے ہوئے اس کی قانونی حیثیت کو مشکوک بھی قرار دیا لیکن درحقیقت سپریم کورٹ کے سہ رکنی بنچ کے پاس سابق وزیر اعظم کو یہ ریلیف دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ سپریم کورٹ کی یہ مجبوری قانونی نہیں بلکہ سراسر سیاسی تھی۔
اس وقت نواز شریف کی صحت کے حوالے سے جو ماحول بنا دیا گیا ہے اور ان کی طبی حالت کے بارے میں جو شبہات موجود ہیں، ان کی روشنی میں سپریم کورٹ کو اسی نتیجہ پر پہنچنا تھا۔ خاص طور سے چیف جسٹس کی سربراہی میں اس بنچ پر یوں بھی بوجھ تھا کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ پانامہ کیس پر فیصلہ کرنے والے بنچ کے بھی سربراہ تھے اور اپنے فیصلہ میں شریف خاندان کو مافیا کے مماثل قرار دے کر نواز شریف اور ان کے اہل خاندان کے پس منظر اور طریقہ کار کے بارے میں قانونی اصابت سے زیادہ ذاتی رائے کا اظہار کرچکے تھے۔ بہتر ہوتا کہ چیف جسٹس نواز شریف کی درخواست پر فیصلہ کرنے والے بنچ کی سربراہی سے گریز کرتے تاکہ انصاف کی شفافیت پر سوال نہ اٹھتے اور یہ شبہات پیدا نہ ہوتے کہ سپریم کورٹ کے ججوں کی ذاتی رائے ان کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔اس سال کے شروع میں سبکدوش ہونے والے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے حال ہی میں کینیڈا میں ڈیم فنڈ کے لئے منعقد ہونے والی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ملک کے وزیر اعظم عمران خان کی دیانت کی شہادت دی ہے۔ وہ چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہونے کے دوران کئے جانے والے اقدامات اور دیئے گئے ریمارکس کی وجہ سے ملک میں متنازعہ حیثیت رکھتے ہیں۔ اب عہدہ سے سبکدوش ہونے کے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد عمران خان کے ذاتی کردار کے بارے میں ان کی رائے کو ان کے حالیہ ماضی سے ملا کر دیکھا اور سنا جائے گا۔ ان کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا قافیہ تنگ کیا تھا اور سو موٹو کے ذریعے انتظامی فیصلے کرنے اور حکومت کو جزو معطل بنانے کی افسوسناک روایت قائم کی تھی۔ اب نواز شریف کی صحت کے حوالے سے دائر ایک مقدمہ میں پہلے سے ایک رائے رکھنے والے جج کا چیف جسٹس کے طور پر فیصلہ کرنے والے بنچ کی سربراہی کرنا اور چھے ہفتے کا ریلیف دینے کے لئے معنی خیز سوالات اٹھانا اور ضمانت کے فیصلہ میں ہتک آمیز شرائط شامل کرنا ، انصاف ،سیاست اور عدالت کے گنجلک رشتے کو مزید پراسرار اور مشتبہ بنائے گا۔ نواز شرہف کو چھے ہفتے کے لئے ضمانت دیتے ہوئے یہ جملہ بھی شامل کیا گیا ہے کہ ’وہ اپنی مرضی کے ڈاکٹر یا ہسپتال سے علاج کروا سکتے ہیں‘۔ گویا ضمانت ملنے کے باوجود سپریم کورٹ اگر فیصلہ میں یہ بات واضح نہ کرتی کہ نواز شریف اپنا علاج کروانے میں آزاد ہوں گے تو حکام انہیں جیل کے بعد گھر پر ’محصور‘ کرنے کا حق رکھتے تھے۔ ضمانت دینے کا بنیادی مقصد ہی نواز شریف کو جیل کی گھٹن سے آزاد کرتے ہوئے عارضہ قلب جیسی پیچیدہ بیماری کا علاج کروانے کی سہولت بہم پہنچانا ہے۔ تاہم فیصلہ میں اس کا ذکر کسی بھی شخص کی ’ذاتی دیانت‘ پر سوال اٹھانے کے مساوی ہے۔ اسی طرح اس حکم میں چھے ہفتے کے بعد گرفتاری دینے اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے ان کی اپیل مسترد ہونے کی صورت میں نواز شریف کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بات کہی گئی ہے ۔ وہ بھی نواز شریف کی علالت، طبی بنیاد پر رہائی اور زیر بحث مقدمہ کی ضرورت سے ماورا محسوس ہوتی ہے۔سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق نواز شریف کو ضمانت کی مدت میں ملک چھوڑنے کی اجازت نہیں ہوگی ۔ اس کے علاوہ انہیں پچاس پچاس لاکھ روپے کے دو مچلکے زر ضمانت کے طور پر جمع کروانے ہوں گے۔ گویا عام حیثیت کا کوئی قیدی طبی بنیاد پر ریلیف لینے کے لئے ملک کی عدالت عظمی سے رجوع بھی نہیں کرسکتا کیوں اتنی خطیر رقم جمع کروانا کسی بھی عام شہری کے لئے ممکن نہیں ہے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ ملک کے عدالتی نظام کی اصلاح کا عزم لے کر اس عہدہ جلیلہ پر فائز ہوئے ہیں ۔ وہ خود بھی یہ بات بخوبی جانتے ہوں گے کہ عدالتیں زر ضمانت کے مچلکے جمع کروانے کا حکم صرف ’خانہ پوری‘ کے لئے جاری کرتی ہیں۔ جس شخص کو ضمانت سے رہائی کے بعد عدالتوں سے بھاگنا ہو ، وہ زر ضمانت کی پرواہ نہیں کرتا۔ اس کے علاوہ نواز شریف کی حیثیت کا آدمی کیوں کر قانون اور عدالت کی آنکھ میں دھول جھونک کر ضمانت کی مدت میں ’فرار‘ ہوسکتا ہے۔ پھر ایک روائیتی قانونی خانہ پوری کے لئے اس قدر کثیر رقم کا تعین کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا۔
نواز شریف کے معاملہ پر عدالتوں کی مجبوری اور حکومت کی لاچاری کی بنیاد ی وجہ نواز شریف کا سیاسی قد کاٹھ ہے۔ ملک میں لاکھوں لوگ انہیں اب بھی اپنا لیڈر مانتے ہیں اور حکومت کو اس حوالے سے جس بیرونی سفارتی صورت حال کا سامنا ہے، وہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ جس طرح عدالتیں نواز شریف کی درخوستوں پر غور کرتے ہوئے اس کے سیاسی مضمرات کو نظر انداز نہیں کرسکتیں، اسی طرح حکومت بھی اس معاملہ کے سیاسی پہلو کو پوری طرح سمجھتی ہے۔ طبی بنیادوں پر ملک کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے لیڈر کی درخواست ضمانت پر غور کرتے ہوئے سپریم کورٹ البتہ سیاست اور عدالت کو علیحدہ کرنے کی کوشش کرسکتی تھی۔ جس طرح پاناما کیس میں ایک خاص مدت کے دوران زیریں عدالتوں کو فیصلے کرنے کا پابند کیا گیا تھا، اسی طرح سپریم کورٹ کے فاضل جج اب یہ حکم بھی جاری کرسکتے تھے کہ احتساب عدالتوں سے جاری ہونے والے فیصلوں پر کی جانے والی اپیلیں ترجیحی بنیادوں پر سنی جائیں اور حتمی فیصلے کئے جائیں۔ تاکہ یہ معاملہ ہمیشہ کے لئے طے ہوسکے کہ نواز شریف کو درست شواہد اور حقائق کی بنیاد پر سزا دی گئی ہے یا احتساب عدالت کے جج سپریم کورٹ کی نگرانی اور درپردہ دباؤ کی وجہ سے ایک خاص ڈھب کے فیصلہ دینے پر مجبور تھے ؟ اس وقت نواز شریف احتساب عدالت کے ایک فیصلہ کی وجہ سے جیل میں ہیں اور دوسرے میں ان کی ضمانت ہو چکی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کی اپیلوں کی سماعت مؤخر ہے۔ موجودہ عدالتی نظام کے تحت نواز شریف ایک ایسی سزا کاٹ رہے ہیں جس کے بارے میں حتمی عدالتی فیصلہ آنا باقی ہے۔ سپریم کورٹ عدالتوں کو فعال اور مؤثر بنانے کے عہد کو پورا کرنے کے لئے نواز شریف کیس میں مثال قائم کرنے کی پوزیشن میں تھی۔ خاص طور سے جب طبی بنیاد پر ضمانت کی درخواست بھی اس کے زیر سماعت تھی۔ لیکن اس حوالے سے غور کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا ۔ حالانکہ اس نوعیت کا کوئی فیصلہ حتمی طور سے اس بات کا تعین کرنے میں معاون ہو سکتا تھا کہ احتساب بیورو کس حد تک سیاسی ہے اور احتساب عدالتوں کی خود مختاری اور اہلیت کی نوعیت کیا ہے۔ اس طرح بدعنوانی اور سیاست دانوں کو مطعون کرنے کی ایک طویل ناگوار بحث بھی اپنے منطقی انجام تک پہنچ سکتی تھی۔ لیکن سپریم کورٹ فی الوقت یہ اقدام کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ اپیلیں چلتی رہیں گی اور درپردہ سیاسی گٹھ جوڑ کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔ سیاسی مباحث میں سب کو چور اور نظام کو ناکارہ قرار دیا جاتا رہے گا۔ اس قوم کے مقدر پر چھائی اس طویل سیاہ رات کے بعد اگر کبھی کوئی صبح طلوع ہوگی تو سارے ’چور‘ سعد کہلائیں گے کیوں کہ عدالتیں بروقت سرعت سے فیصلے کرنے اور معاملات کی پیچیدگی کو سلجھانے میں کامیاب نہیں ہو سکی تھیں۔یہ بات ریاست کے ادراروں ، منتخب حکومت اور انصاف فراہم کے منصب پر فائز ججوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دہائیوں پرانے معاملات میں قومی سیاسی لیڈروں کی کردار کشی سے اس قوم کا راستہ بدستور مسدود رہے گا ۔ جمہوریت کی حفاظت کا حلف لینے اور وعدہ کرنے والے سب اہلکار اور منصف، سیاست دانوں کو پیشیاں بھگتنے پر لگا کر ، نہ جمہوریت کی خدمت کرتے ہیں اور نہ ہی اس طرح آئین کی بالادستی کا خواب پورا ہوگا۔
ٌ( بشکریہ : ہم سب ۔۔ لاہور )