وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے متنبہ کیا ہے کہ بھارت اس ماہ کے دوران پاکستان کے خلاف جارحیت کا مظاہرہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے اس مبینہ حملہ کے بارے میں شبہ ظاہر کیا ہے کہ یہ 16 سے 20 اپریل کے دوران ہوسکتا ہے۔ شاہ محمود کا دعوی ہے کہ بھارتی مسلح افواج کے سربراہوں نے حال ہی میں وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات میں متعین ٹارگٹس کے بارے میں معلومات فراہم کیں اور وزیر اعظم سے اس منصوبہ پر عمل درآمد کی اجازت طلب کی۔ نریندر مودی نے انہیں جواب دیا کہ وہ پہلے ہی پاکستان کے خلاف ہر قسم کی ضروری کارروائی کرنے کی اجازت دے چکے ہیں۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ نئی بھارتی کارروائی بھارتیہ جنتا پارٹی کی اپنے ملک میں ہونے والے انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوششوں کا حصہ ہوگی۔ انہیں یہ اندیشہ بھی ہے کہ اس مقصد کے لئے پہلے مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ طرز کا واقعہ ہونے کی اطلاع دی جائے گی پھر اسے بہانہ بنا کر پاکستان پر حملہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایسی کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے لیکن انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ بھارت کو ان عزائم سے باز رکھیں کیوں ایٹمی صلاحیت کے حامل دو ملکوں کے درمیان مسلح تصادم کسی کے مفاد میں نہیں ہوسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے سلامتی کونسل کی پانچ مستقل رکن ممالک سے اس بارے میں رابطہ کیا ہے۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان ملکوں کے نمائیندوں نے پاکستان کی پریشانی کا کیا جواب دیا۔ اور کیا ان ملکوں نے بھی پاکستانی معلومات کی تصدیق کی ہے۔ کیوں کہ بھارت کے مذموم ارادوں کے بارے میں جو انٹیلی جنس اطلاعات پاکستان کو حاصل ہوئی ہیں، دوسرے بڑے ممالک کو بھی اس بارے میں سن گن ہونی چاہئے۔
شاہ محمود قریشی کے اس پریشان کن بیان کے دو پہلو قابل غور ہیں۔ ایک یہ کہ ملکی سلامتی کو لاحق یہ ہیجان خیز بیان انہوں نے اپنے آبائی شہر ملتان سے جاری کیا ہے۔ گویا ملک کو دشمن کے حملہ کا اندیشہ ہے لیکن وزیر خارجہ بدستور اپنے شہر کے دورے پر ہیں۔ وہ پہلے بھی اہم پالیسی بیان ملتان سے ہی جاری کرتے ہیں۔ اس بیان کا دورسرا پہلو یہ ہے کہ شاہ محمود نے اس بات پر اصرار کیا ہے کہ وہ پوری ذمہ داری سے یہ معلومات فراہم کر رہے ہیں۔ اور یہ کہ انہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ ان کی بیان کو دنیا میں سنجیدگی سے سنا اور پڑھا جائے گا۔ سوال ہے کہ کیا وزیر خارجہ کے منصب پر فائز کوئی شخص بیان جاری کرتا ہے تو کیا اسے درست اور حقیقی نہیں ہونا چاہئے؟ پاکستانی وزیر خارجہ کو اس بار اپنی صداقت پر اصرار کرنے کے ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے بھارتی جارحیت کے خطرہ سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ معلومات اقوام عالم کے علاوہ عوام کو پہنچانے کا فیصلہ کیا گیا ہے لیکن یہ نہیں کہا کہ یہ فیصلہ کس نے کب اور کیوں کیا؟ کیا امریکہ اور دوسرے اہم ملکوں نے اس بار پاکستان کی پریشانی پر کوئی عملی اقدام کرنے کا وعدہ کیا ہے تاکہ بھارت اپنے جارحانہ عزائم سے باز رہے یا اس بار بھی عالمی برادری کی بے حسی کی وجہ سے انہیں پبلک بیان دینا پڑا تاکہ بھارت کو اپنے ارادوں سے باز رکھنے کا کوئی اہتمام کیا جا سکے؟
اسی بیان میں شاہ محمود قریشی نے پلوامہ کے بعد بھارت کے بارے میں عالمی برادری کی سرد مہری کا ان لفظوں میں ذکر کیا ہے کہ “26 فروری کو پاکستان کے خلاف انڈین جارحیت پر دنیا خاموش رہی۔ تمام ذمہ دار ممالک یہ جانتے ہوئے کہ یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی تھی، خاموش رہے اور اس کی وجہ جیو پالیٹکس ہے۔ خطے کے استحکام کے لیے ان کو کردار ادا کرنا چاہیے”۔ ایک وقوعہ کے بعد بھارتی الزام تراشی اور جارحیت پر دنیا کی جس خاموشی پر شاہ محمود قریشی چیں بجبیں ہیں، اس کے بارے میں یہ جاننا چاہئے کہ جب دنیا بھارت کے پاکستان دشمن اقدام پر چپ سادھ لیتی ہے تو وہ اس کے ارادوں کے بارے میں پاکستانی وارننگ پر کیوں توجہ دے گی؟ کیا پاکستان کے ہونہار وزیر خارجہ اپنی اس خارجہ پالیسی کی ناکامی کا اعتراف کر رہے ہیں جس کا کریڈٹ لیتے ہوئے وہ پاکستان کو سفارتی تنہائی سے باہر نکالنے کے دعوے کرتے نہیں تھکتے؟
حقیقت یہ ہے پاکستان کو اس وقت بھارت کی جارحیت کے علاوہ دوسرے ملکوں کی شدید سرد مہری کا بھی سامنا ہے کیوںکہ عام طور سے پاکستان کی تردید اور مذمت کے باوجود دنیا بھارتی دعوؤں کو قابل یقین مانتی ہے۔ اسی لئے کسی قریب ترین دوست ملک نے بھی پلوامہ سانحہ کے بعد بھارت کے مقابلے میں پاکستانی مؤقف کی تائید نہیں کی تھی۔ البتہ فروری میں فضائی جھڑپ کے بعد ضرور امریکہ اور چین وغیرہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے خطرے کو روکنے کے لئے متحرک ہوئے تھے کیوں کہ ایسی جنگ عالمی امن و ماحولیات کے لئے بھی چیلنج ثابت ہوسکتی ہے۔
پاکستان کی پریشانی قابل فہم ہونے کے باوجود یہ بات سمجھی نہیں جا سکتی کہ پاکستان انتہا پسند گروہوں اور دہشت گردی کے خلاف ایسے اقدامات کرنے میں کیوں ناکام ہو رہا جن کی روشنی میں عالمی ادارے اور ممالک کے شبہات اور اندیشے کم ہو سکیں۔ اسی صورت میں بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی بات کو وزن دیا جا سکے گا۔ یا بھارت کے ارادوں کے بارے میں پاکستان کا انتباہ قابل غور سمجھا جائے۔
اسی طرح وزیر خارجہ کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ اس بھارتی حملہ کا شور مچا کر وہ قومی تحفظ کا کون سا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ عام طور سے ایسی باتوں کو عام سماعت سے دور رکھتے ہوئے معاملات طے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ ملکی معیشت اور صلاحیتوں کے بارے میں دنیا اور خاص طور سے دشمن ملک غلط اندازے قائم نہ کرے اور معاشی شعبہ بھی جنگ کے خوف میں مبتلا ہوکر جمود کا شکار نہ ہو۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وزیر خارجہ اور حکومت نے اس بیان سے ہونے والے معاشی و مالی نقصان کا تخمینہ لگا کر بات کی ہے یا یہ طے کر لیا گیا ہے کہ عوام کی ںفسیاتی، جذباتی اور اقتصادی صورت حال اور قومی پیداوار و سرمایہ کاری پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لینا وزیر خارجہ کا کام نہیں ہے۔
ریاستوں کے پاس دشمن ملکوں کے ارادوں کو تبدیل کرنے کے لئے پیغام پہنچانے کے متعدد راستے ہوتے ہیں۔ فوجی ذرائع سے یہ پیغام زیادہ مؤثر اور طاقت ور طریقے سے پہنچایا جا سکتا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اس بار بھارتی حملے کا خوف پیدا کرنے کے لئے وزیر خارجہ کو میدان میں اترنا پڑا ہے۔ کیا یہ خالصتا عسکری معاملہ ہے یا اس کی سیاسی پہلو بھی ہیں۔ شاہ محمود کا بیان سوالوں کا جواب دینے کی بجائے کئی سنگین سوالوں کو جنم دیتا ہے۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے )
فیس بک کمینٹ