کوئٹہ کے نواحی علاقے ہزارگنجی کی سبزی منڈی میں ایک دھماکہ میں 20 افراد جاں بحق اور پچاس کے لگ بھگ زخمی ہوئے ہیں۔ پولیس کے مطابق اس حملہ کا ٹارگٹ بلوچستان کی ہزارہ اقلیت تھی۔ دھماکہ میں جاں بحق ہونے والے نصف لوگوں کا تعلق بھی اسی نسلی و مسلکی اقلیت سے تھا۔ کوئٹہ اور اس کے گرد و نواح میں ہزارہ کے خلاف دہشت گرد حملوں کا سلسلہ کئی برس سے جاری ہے، اس کے باوجود آج بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیا اللہ لانگو نے سانحہ کے بعد اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے اس بات پر اصرار ضروری سمجھا کہ یہ حملہ کسی ایک خاص گروہ یا اقلیت پر نہیں کیا گیا تھا۔ پولیس کے مؤقف اور وقوعہ سے ملنے والے شواہد کے برعکس سیکورٹی معاملات پر حکومت کے ترجمان یہ بیان دے کر نہ جانے آخر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟
پاکستان میں یہ روایت کبھی استوار نہیں کی جاسکی کہ کسی سانحہ یا حادثہ کی صورت میں اس محکمہ کا سربراہ یا نگران اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے عہدہ سے استعفی دے دے۔ اس قسم کے اقدام کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہوتا کہ متعلقہ شخص پر کوتاہی یا نا اہلی کا الزام عائد کیا جارہا ہے لیکن اس اقدام سے یہ پیغام ضرور سامنے آتا ہے کہ ملک و صوبے کے سیاسی ذمہ داران عوام کی جان و مال کی حفاظت کے معاملے میں حساس ہیں اور اگر اس سلسلہ میں کوتاہی ہوجائے تو اس کو ذاتی ذمہ داری سمجھتے ہوئے وہ اپنا عہدہ کسی دوسرے کے لئے خالی کرکے نظام اور قیادت پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
وزیر اعظم سے لے کر ان کے نائبین روزانہ کی بنیاد پر عوام کو یاد دلاتے رہتے ہیں کہ اب نیا پاکستان تعمیر ہورہا ہے اور چیزیں بالکل مختلف انداز میں طے پاررہی ہیں۔ اسی حوالے سے عمران خان نے آج ہی ایک ٹویٹ میں سی ڈی اے کی طرف سے 11 ارب روپے کے پلاٹوں کی نیلامی کو بھی نئے پاکستان کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔ لیکن بلوچستان میں ان کی پارٹی کی شراکت سے بننے والی حکومت کے وزیر داخلہ پولیس بیانات سے متضاد بیان دے کر حکومت کی نا اہلی اور کم آگہی کا پول کھول رہے ہیں۔
صوبائی وزیر داخلہ ضیا اللہ لانگو کا کہنا ہے کہ یہ دھماکہ کسی ایک گروہ کو ٹارگٹ کرنے کے لئے نہیں کیا گیا لیکن وہ اپنے اس دعوے کے لئے کوئی شواہد بیان کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ خودکش حملہ تھا جب کہ پولیس کا کہنا ہے کہ بم آلوؤں کی پیٹی میں چھپایا گیا تھا۔ تاہم یہ معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ اسے رموٹ کنٹرول ڈیوائس سے چلایا گیا یا یہ ٹائم بم تھا جو عین اس وقت ہلاکت خیز دھماکہ سے پھٹ گیا جب ہزارہ سے تعلق رکھنے والے تاجر اور مزدور آلوؤں کے گودام سے مال ٹرکوں پر لاد رہے تھے۔
موقع پر پہنچنے والے پولیس افسروں نے بتایا ہے کہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے لوگ روزانہ سیکورٹی فورسز کی نگرانی اور حفاظت میں سبزی منڈی آتے ہیں۔ آج بھی سیکورٹی فورسز کے دستے ان کے ہمراہ تھے تاہم منڈی میں لین دین کے دوران یہ دستے مارکیٹ کے دروازوں پر تعینات تھے کہ منڈی کے اندر ایک گودام میں چھپائے گئے بم سے دھماکہ ہوگیا۔ اس حادثہ میں بلاشبہ ہزارہ کے علاوہ بھی کچھ لوگ جان سے گئے جن میں ایک سیکورٹی اہل کار بھی شامل تھا لیکن شواہد اور واقعات کی ترتیب سے واضح ہوتا ہے کہ اصل نشانہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے ہزارہ ہی تھی۔ سوال صرف اتنا ہے کی صوبائی وزیر داخلہ اس سانحہ کے فوری بعد اس حقیقت سے انکار کی ضرورت کیوں محسوس کررہے تھے؟
سانحہ کے فوری بعد تحقیقات کی تکمیل اور شواہد جمع کرنے کا عمل پورا ہونے سے بھی پہلے وزیر داخلہ نہ صرف یہ بتارہے تھے کہ اس دھماکہ کی وجوہات کیا ہو سکتی ہیں بلکہ انہیں یہ معلومات بھی حاصل تھیں کہ یہ خود کش حملہ تھا۔ وزیر اعلیٰ جام کمال خان اور وزیر اعظم عمران خان کو ضیا اللہ لانگو سے استفسار کرنا چاہیے کہ وہ اس قدر یقین سے یہ معلومات کیسے بہم پہنچا سکتے تھے۔ اگر ان کے اپنے ذرائع قابل بھروسہ تھے تو انہوں نے یہ معلومات میڈیا کو بتانے کی بجائے پولیس کو بتانے اور ان خطوط پر تحقیقات یقینی بنانے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی؟ اگر وہ پروفیشنل انداز میں اپنے زیر اختیار افسروں سے بات کرتے اور انہیں اس سانحہ کے بارے میں کام کرنے کا موقع دیتے تو حادثہ کے ذمہ داروں کا تعین کرنا اور مجرموں تک پہنچنا آسان ہو سکتا تھا۔
وزیر اعظم عمران خان نے پرانے پاکستان ہی کے کسی لیڈر کی طرح وہی گھسا پٹا بیان دیا ہے جو اس سے پہلے متعدد وزرائے اعظم جاری کرچکے ہیں۔ انہوں نے بھی سانحہ کی فوری اور تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ہے جو اس سے پہلے کتنے ہی مہلک سانحات کے بارے میں طلب کی جاچکی ہے۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ رپورٹ اسی وزیر داخلہ کے ذریعے وزیر اعظم تک پہنچے گی جسے اس بات کا سلیقہ بھی نہیں کہ کسی سانحہ میں انسانی جانوں کا نقصان ہونے کی صورت میں یہ طے کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ کس کو ٹارگٹ کیا گیا تھا اور پولیس کو یہ کام کرنے کا موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اس بات کا سراغ لگائے کہ حملہ کس طرح کیا گیا اور اس کے درپردہ کون سے عناصر کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ سیاست اور سیکورٹی معاملات کو ملانے کے کبھی خوشگوار نتائج سامنے نہیں آتے۔ بلوچستان میں ہونے والا سانحہ اس سچائی کی تصویر ہمارے سامنے لایا ہے۔
گزشتہ روز کراچی میں سنی دہشت گرد گروہ جنداللہ کا ایک لیڈر اسحاق گل سیکورٹی فورسز کی اچانک کارروائی میں گرفتار ہؤا تھا۔ آج کوئٹہ میں شیعہ اقلیت کے لوگوں پر حملہ کیا گیا ہے۔ یہ محض اتفاق بھی ہوسکتا ہے لیکن ان دونوں معاملات کے ڈانڈے ایک دوسرے سے ملے ہوئے بھی ہوسکتے ہیں۔ شیعہ اقلیت پر حملہ کرنے والے صرف ہزارہ کو ہی نشانہ نہیں بناتے بلکہ یہ ایرانی سرحدی محافظین پر بھی حملہ آور ہوتے رہتے ہیں۔ فروری میں 27 ایرانی فوجیوں کو ہلاک کردیاگیا تھا جس کے بعد ایران نے پاکستان کو دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ اگر پاکستان نے ان گروہوں کا قلع قمع نہ کیا تو ایرانی فوج خود پاکستان کے اندر ان لوگوں کے خلاف کارروائی کرے گی۔
یہ ویسی ہی دھمکی تھی جو بھارت کی طرف سے بھی پاکستان کو دی جاتی رہی ہے۔ اس لئے یہ حقیقت بلوچستان حکومت، اسلام آباد یا ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں سے پوشیدہ نہیں ہونی چاہیے کہ فرقہ وارانہ بنیاد پر حملے کرنے والے گروہ پاکستانی علاقوں میں منظم اور محفوظ ہیں۔ وہ کبھی اپنے لوگوں کو مارتے ہیں اور کبھی ایرانی محافظوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ لیکن دونوں صورتوں میں پاکستان کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
پاکستان کی سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے آج انتہا پسند گروہوں پر پابندیوں سے متعلق سلامتی کونسل کی قرارداد 1267 پر عملدرآمد کے لئے رہنما اصول جاری کر نے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان کو دو دہائیوں سے دہشت گردی کا سامنا ہے اور اقوام متحدہ کی یہ قرارداد بھی بیس برس پرانی ہے۔ آج کوئٹہ میں ہونے والے سانحہ اور اسلام آباد سے سامنے آنے والے اعلان کو ملا کر پڑھا جائے تو وہ تصویر بنائی جاسکتی ہے جو دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی جدوجہد کے راستے میں حائل مشکلات کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس تصویر کے سارے خد و خال سمجھے بغیر حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مکمل کامیابی حاصل نہیں کرسکتی۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کوئٹہ دھماکے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ’یہ واقعہ دہشت گردی کا گھناؤنا فعل ہے جو ہمارے لئے بحیثیت قوم اس بات کی یاددہانی ہے کہ اس لعنت کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے کام اب بھی باقی ہے‘ ۔ صدر عارف علوی کی اس بات سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کا ادراک سب سے پہلے حکومت کو کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ وہ یہ جان سکے کہ اس کی کون سی کمزوریاں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مکمل کامیابی سے ہمکنار نہیں ہونے دیتیں۔
کوئٹہ کا سانحہ اس بات کی یاددہانی کرواتا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ صرف بیان دینے اور تحقیقات کا وعدہ کرنے سے نہیں ہوسکتا۔ نہ ہی کوئی ریاست اپنے ملک کی کل آبادی کو ہمہ وقت مسلح محافظ فراہم کرسکتی ہے۔ دہشت گردی ختم کرنے کے لئے ریاستی انتظام اور حکمت عملی میں بنیادی تبدیلی ضروری ہے۔ ریاست کو ہر قسم کے تشدد کے خلاف یکساں قوت اور عزم کے ساتھ سرگرم عمل ہونا ہوگا۔ تب ہی اس ملک کے لوگ خود کو محفوظ سمجھیں گے اور عالمی ادارے پاکستان کی نیت میں کھوٹ نکالنے کی کوشش نہیں کریں گے۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ