اسد عمر کے استعفیٰ کے بعد کابینہ میں تبدیلیوں اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی باری لگنے کی افواہوں کے عین بیچ وزیر اعظم عمران خان نے اورکزئی میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی کابینہ میں مزید تبدیلیاں کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کیوں کہ جو کام نہیں کرے گا اسے وزیر نہیں بنایا جاسکتا۔
وزیر اعظم عمران خان نے واضح کیا ہے کہ وہ پاکستان کے عوام کی مشکلات کے لئے خدا کو جوابدہ ہیں، اس لئے جو بھی اس مقصد کو پورا کرنے میں کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ہو گا اسے حکومت کا حصہ رہنے کا حق نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ بطور وزیر اعظم پاکستان کو جتوانا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دور کرنا ایک اچھے کپتان کے طور پر ان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
وزیر اعظم نے اس تقریر میں براہ راست اسد عمر کا نام نہیں لیا اور نہ ہی یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ آخر سبکدوش ہونے والے وزیر خزانہ سے ایسی کون سے خطا سرزد ہوگئی تھی کہ انہیں اچانک ان کے عہدے سے علیحدہ ہونا پڑا۔ یا جن وزیروں کے قلمدان تبدیلکیے گئے ہیں، اس بات کی ضمانت کون فراہم کرے گا کہ وہ نئی وزارتوں میں کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں گے۔ جیسا کہ کرکٹ کی زبان میں عمران خان نے کہا کہ انہوں نے بیٹنگ آرڈر تبدیل کیا ہے۔ لیکن اس بات کی ضمانت نہیں دی کہ اس تبدیلی سے ٹیم کی کارکردگی بہتر ہوجائے گی۔ خاص طور سے جب وہ دو اہم وزارتوں میں ایسے افراد کو سامنے لائے ہیں جن کے ماضی اور وفاداریوں پر متعدد سوالکیے جاسکتے ہیں۔
کرکٹ کی زبان میں بات کریں تو یہ سوال کرنا بھی اہم ہو جاتا ہے کہ کیا عمران خان ابھی تک نوے کی دہائی میں سانس لیتے ہیں اور ملکی سیاسی اور معاشی معاملات کو کرکٹ کی اصطلاحات استعمال کرتے ہوئے بیان کرنا ہی تمام مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔ یا پھر وہ ابھی تک سابقہ حکومتوں کو مسائل کا ذمہ دار قرار دے کر لوگوں کو مطمئن اور خوش رکھنے پر ہی یقین رکھتے ہیں۔ حکومت سنبھالنے کے آٹھ ماہ بعد ہی کابینہ سے تحریک انصاف کے سب سے ’ہونہار‘ وزیر کی رخصتی اور اب عمران خان کا یہ اعلان کہ وہ ہر نا اہل کو کابینہ سے نکال دیں گے، خود اپنے آپ میں تضادات کا مجموعہ ہے۔
کابینہ کی کارکردگی کے حوالے سے جب بھی بات کی جائے گی تو عمران خان کی خوبیوں اور خامیوں کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہوسکتا۔ بالکل اسی طرح کہ میچ جیتنے کے بعد اگر کپتان کی توصیف ہوتی ہے تو ہارنے یا اس میں مشکلات کا سامنا کرنے کی صورت میں بھی کپتان کی قوت فیصلہ پر ہی سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کی طرح اپنے ساتھیوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے خود اپنی ذمہ داری سے کیسے گریز کرسکتے ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ملک اس وقت معاشی بحران کا شکار ہے۔ گزشتہ چند روز کے دوران دہشت گردی کے یکے بعد دیگرے رونما ہونے والے سانحات اور ایک بڑے دہشت گرد گروہ کو کسی خوفناک کارروائی سے پہلے ختم کرنے جیسے واقعہ کے بعد حکومت کی معاشی بد انتظامی کے علاوہ، امن و مان قائم رکھنے کی صلاحیت پر بھی سوال اٹھتے ہیں۔ کل کابینہ میں رد و بدل کے نتیجہ میں اعجاز شاہ کو وزیر پارلیمانی امور سے وزیر داخلہ بنانے سے پہلے یہ قلمدان عمران خان کے پاس ہی تھا۔ شہر یار آفریدی محض وزیر مملکت کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ اس لئے امن و امان کی خراب ہوتی صورت حال کی براہ راست ذمہ داری وزیر اعظم پر عائد ہوتی ہے۔ وہ اس وزارت کے ذمہ دار کے طور پر اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنے یا اصلاح احوال کے لئے اپنی حکمت عملی بیان کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد ان پر یہ آئینی اور اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ ہر سانحہ کے بعد پارلیمنٹ میں وضاحت پیش کرتے اور اپنی ناکامیوں کی اصلاح کے لئے مشورہ لینے کی کوشش کرتے۔ لیکن عمران خان نے اپنی یہ اخلاقی، سیاسی اور آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ وہ بھی ماضی کے ان وزرائے اعظم سے مختلف نہیں ہیں جن کے پاس پارلیمنٹ میں آنے اور منتخب ارکان کے ساتھ رابطے رکھنے کے لئے وقت نہیں ہوتا تھا۔
اس کے برعکس عمران خان نے متفقہ امور کو سیاسی بیان بازی کے ذریعے متنازعہ بنایا ہے جن میں اٹھارویں ترمیم کے بارے ان کا بیان سب سے زیادہ غیر ذمہ دارانہ اور خطرناک تھا۔ اس کے علاوہ ان کے چہیتوں نے ملک میں صدارتی نظام کی افادیت کے بارے میں مباحث شروع کرکے اس تاثر کو تقویت بخشی ہے کہ عمران خان موجودہ آئینی انتظام کو درست نہیں سمجھتے۔ اس رویہ سے بے یقینی پیدا ہوئی ہے جس کی وجہ سے ملک کے معاشی مسائل میں اضافہ ہؤا ہے اور سیاسی و انتظامی معاملات الجھن کا شکار ہوئے ہیں۔
عمران خان اگر واقعی صدارتی نظام کو درست طریقہ حکومت سمجھتے ہیں اور اٹھارویں ترمیم کو صوبوں اور وفاق کے درمیان توازن کے لئے مہلک قرار دینے میں حق بجانب ہیں تو یہ معاملات انہیں انتخابات سے پہلے اپنی پارٹی کے منشور کا حصہ بنانے چاہیے تھے۔ تاکہ ووٹروں کو یہ خبر ہوتی کہ وہ جس پارٹی اور لیڈر کو منتخب کرنا چاہتے ہیں، وہ موجودہ آئینی انتظام کو تبدیل کرنے کا خواہاں ہے۔ اب بھی ان کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے نئے انتخاب کا اعلان کردیں اور حکمرانی کے نئے تصور کی بنیاد پر الیکشن میں کامیابی حاصل کریں۔
اس ملک کو اگر واقعی موجودہ آئین کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی سے ہی فائدہ ہوسکتا ہے تو اس کے لئے نئی دستور ساز اسمبلی کے قیام کے لئے انتخابات منعقد کروانے کی راہ ہموار کرنا ہوگی۔ کیوں کہ سپریم کورٹ موجودہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تحفظ فراہم کرچکی ہے۔ اس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ اس سے قطع نظر کہ تحریک انصاف کو آئینی ترمیم کے لئے مناسب تعداد کی حمایت حاصل ہے یا نہیں، یہ واضح ہونا چاہیے کہ موجودہ یا مستقبل کی کوئی بھی قومی اسمبلی اور سینیٹ اتفاق رائے سے بھی پارلیمانی کی بجائے صدارتی نظام نافذ کرنے کا فیصلہ نہیں کرسکتی۔ کیوں کہ پارلیمانی نظام موجودہ آئین کی بنیاد اور خصائص کا حصہ ہے۔
ایک اچھے کرکٹر اور کپتان کے طور پر اپنے ’کھلاڑیوں‘ پر نا اہلی کا الزام دھرنے سے پہلے عمران خان کو اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔ انہیں جلسہ عام میں گھسے پٹے الزامات دہرانے اور اپنی خوبیاں بیان کرنے کی بجائے، پارلیمنٹ میں جاکر کابینہ میں تبدیلی کے فیصلوں پر روشنی ڈالنی چاہیے تھی۔ اسد عمر کے بارے میں عمران خان کا تازہ بیان ان کی کم ہمتی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اور قائدانہ صلاحیت کے بارے میں نئے سوال سامنے لاتا ہے۔
اسد عمر نے وزیر خزانہ کے طور پر استعفیٰ طلب کرنے کے بعد دوسری کمتر وزارت قبول نہ کرکے سیاسی جرات کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ استعفیٰ کے بعد پریس کانفرنس میں عمران خان اور تحریک انصاف کی توصیف کرکے اپنا قد عمران خان سے اونچا کرلیا ہے۔ عمران خان نے آج نام لئے بغیر اسد عمر کو نا اہل قرار دے کر یہ واضح کیا ہے کہ وہ ایک اچھے سیاسی کپتان کا کردار ادا کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ اس جملہ معترضہ سے قطع نظر یہ کہنا ضروری ہے کہ عمران خان جتنی جلدی پاکستانی حکومت کو کرکٹ ٹیم سمجھنا چھوڑ دیں گے، اتنی ہی جلدی وہ ملکی معاملات کے سیاسی و انتظامی تقاضوں کو سمجھنا شروع کرسکتے ہیں۔
اصلاح پسند اور تبدیلی کے داعی ہونے کے ناطے عمران خان کو اپنے ساتھیوں کو نا اہل قرار دینے کی بجائے میڈیا پر عام ان اطلاعات کے بارے میں وضاحت کرنے کی ضرورت تھی کہ تحریک انصاف کی دھڑے بندی کی وجہ سے اسد عمر اور فواد چوہدری کی ’قربانی‘ دینا پڑی ہے۔ غلام سرور خان کی نا اہلی کے باوجود سیاسی مجبوری کی بنا پر نئی وزارت سونپی گئی ہے۔ یا اعجاز شاہ کی طرح غریب ہمسایہ کے ساتھ بدسلوکی کا ارتکاب کرنے والے اعظم سواتی کو کس بنیاد پر کابینہ میں واپس لینے کا فیصلہ کرنا پڑا ہے۔ اور پیپلز پارٹی کے دور میں وزیر رہنے والے عبدالحفیظ شیخ کو کیوں ’معاشی جادو گر‘ مان کر اصلاح احوال کے لئے مشیر خزانہ بنایا گیا ہے؟
راست باز اور دو ٹوک بات کرنے والے لیڈر سے تو یہ امید بھی کی جاتی ہے کہ وہ اس بات کا اعتراف کرے کہ اسدعمر اگر ملکی معیشت کو درست کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے تو اس کی وجوہات وہ سیاسی فیصلے اور مزاج تھا جسے ’عمران خان کے وژن‘ کا نام دے کر اس لفظ کی معنویت اور گہرائی کو بے وقعت کیا جارہا ہے۔ عمران خان کو سچا ہونے کا دعویٰ ہے تو انہیں بتانا چاہیے کہ وہ کب تک سابقہ حکمرانوں کو عام جلسوں میں اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار قرار دیتے رہیں گے۔ کیا ان کے نئے مالی مشیر اس بات کی گواہی دیں گے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ دو حکومتوں کے دوران ملک کے قرضوں میں جو اضافہ ہؤا ہے، وہ رقم براہ راست منی لانڈرنگ کے ذریعے ان دو خاندانوں کے اکاؤنٹس میں منتقل ہوچکی ہے؟
عمران خان کو الزام تراشی کا چلن چھوڑ کر اس بات کا جواب دینا چاہیے کہ کیا ملک پر سول مارشل لا نافذ کیا جارہا ہے؟ جس میں وزیر اعظم کی حیثیت کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں ہے۔ اسے کابینہ میں وہی تبدیلیا ں کرنا پڑی ہیں جن کا تقاضہ کیا جارہا ہے۔ تاکہ تحریک انصاف کی نا اہلی کا کچھ تدارک ہوسکے۔ معاملات اب وزیر اعظم ہاؤس سے نہیں بلکہ وہاں سے کنٹرول کرنے کی کوشش کی جائے گی جو اصلاح احوال کے لئے تحریک انصاف کو لائے تھے لیکن اس کی بے عملی کی وجہ سے اب براہ راست مداخلت کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔
جس طرح حکومت سازی میں غیر جمہوری مداخلت ناجائز تھی اسی طرح بالواسطہ ایک منتخب حکومت کے معاملات سنبھالنے کا طریقہ بھی درست نہیں ہے۔ نواز شریف کا ’ووٹ کو عزت دو‘ یا پیپلز پارٹی کا عوام کے ’حق فیصلہ‘ کا سلوگن اسی طریقہ کے خلاف احتجاج تھا۔ کیا عمران خان اس مقام تک نہیں پہنچے جہاں انہیں ادراک ہوجائے کہ وہ شریفوں اور زرداریوں کو مطعون کرنے کے کام پر کیوں لگائے گئے تھے؟ اگر وہ یہ تسلیم کرنے کا حوصلہ بھی خود میں نہیں پاتے تو وہ کون سا نیا پاکستان بنا پائیں گے۔ اس کے سارے اشاریے تو قدیمی اور آزمودہ ہیں۔
ملک کی جمہوری حکومت کی بے بسی دیدنی ہے لیکن یہ بات بھی واضح ہونی چاہیے کہ ملکی معیشت کی اصلاح کے لئے جس اطمینان اور سکون کی ضرورت ہے وہ اورکزئی جلسے جیسی تقریروں سے فراہم نہیں ہوسکتا۔
(بشکریہ:کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ