پشتون تحفظ موومنٹ کے خلاف پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور کے بیان کی شدت ملک کی سیاست اور سماج میں محسوس کی جارہی ہے لیکن بلاول بھٹو زرداری کے ایک کمزور بیان اور مولانا فضل الرحمان کے مدرسوں کے سوال پر احتجاج کے علاوہ اس حوالے سے کوئی متبادل رائے سامنے نہیں آئی ہے۔
اس صورت حال میں سب سے اہم سوال تویہی ہے کہ اگر ملک میں پارلیمنٹ کا وجود ہے اور ایک منتخب حکومت برسر اقتدار ہے تو اہم قومی امور پر بیان دینے کے لئے پاک فوج کے ترجمان کو کیوں سامنے آنا پڑا؟ کوئی یہ سوال اٹھانے اور اس کا جواب تلاش کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ قومی شعور کو ’پاک فوج زندہ باد‘ کے نعرے کی نکیل پہنا دی گئی ہے۔ اس پابندی سے انکار کرنے والے یا اس طریقہ کا ر کو جمہوریت کے برعکس سمجھنے والے کو غدار اور ملک دشمن قرار دینا، نئے پاکستان میں جمہوریت کی نئی کتاب کا اہم ترین باب ہے۔ بدعنوان سیاست دانوں کو چور کہنا اور تسلیم کروانا اسی باب کا ذیلی سبق ہے۔
اسی تصویر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ میجر جنرل آصف غفور نے پرجوش انداز میں ملکی میڈیا کی توصیف کی اور بھارت کو متنبہ کرتے ہوئے جدید پاکستانی میڈیا کو ایک مؤثر ’ہتھیار‘ قرار دیا ہے۔ لیکن اسی بے باک اور خود مختار میڈیا نے پشتون تحفظ موومنٹ کا مؤقف اور اس کے لیڈروں کے رد عمل کو سامنے لانا اپنی صحافتی یا قومی ذمہ داری نہیں سمجھا۔ اسی لئے وائس آف امریکہ سے ایک انٹرویو میں آئی ایس پی آر کے سربراہ کے بیان اور الزامات پر تبصرہ کرتے ہوئے منظور پشتین نے کہا ہے کہ ’ایک بلیّ مرجائے تو اس کی خبر دی جائے گی لیکن ہمیں کوریج نہیں ملے گی‘ ۔ انہوں نے کہا کہ ’پاکستانی میڈیا نے ہمیشہ اسٹبلشمنٹ ہی کاکہنا مانا ہے۔ یہ وہ میڈیا ہے جس نے پہاڑوں کے اندر جا کر بڑے بڑے دہشت گروں کے انٹرویو ریکارڈ کر کے نشرکیے ہیں۔ یہ وہ میڈیا نہیں جو امن کی بات کرے۔ یہ جنگ اور دہشت گردی کو فروغ دینے کو ترجیح دیتا ہے‘ ۔
قومی میڈیا کے بارے میں منظور پشتین کے اس بیان میں غیر ضروری جارحیت اور مایوسی محسوس کی جاسکتی ہے لیکن اس بات کا جواب تو پاکستان کے میڈیا ہی کو دینا ہے کہ وہ الزام تراشی کی قومی مہم کے بعد متاثرہ تنظیم اور اس کے لیڈروں کا مؤقف سامنے لانے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کرتا۔ افسوس کی بات ہے کہ جس طرح میجر جنرل آصف غفور نے جمہوریت کی حمایت کرتے ہوئے جمہوری حکومت کا سارا کام خود کرنے کا عزم کیا ہؤا ہے، اسی طرح ملکی میڈیا بھی ایک غیر سیاسی اور ملک و قوم کی مشترکہ اثاث سمجھے جانے والے ادارے کے نمائیندے کی باتوں کو حرف آخر سمجھ کر وہی راستہ اختیار کرنا ضروری سمجھتا ہے جس کی طرف اشارہ کردیا گیا ہو۔
یہ دونوں افعال ایک ہی بات واضح کرتے ہیں کہ ملک میں نہ تو جمہوریت ہے اور نہ ہی میڈیا آزاد ہے۔ میڈیا اسی نظام میں آزاد ہوگا جہاں ووٹوں سے منتخب ہونے والے لوگوں کو وقار و احترام حاصل ہو گا اور فیصلے کرنے کا اختیار منتخب حکومت کے پاس ہی ہوگا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ فوج صرف سیاسی فیصلوں پر اثر انداز ہی نہیں ہوتی بلکہ اب فیصلے کرتی بھی ہے اور اس کے بعد ان کا اعلان کرنا بھی اپنے فرائض منصبی کا حصہ سمجھتی ہے۔ کیوں کہ یہ باور کرلیا گیا ہے کہ حکومت کو اگر اطمینان سے کام کرنا ہے تو اسے ’ایک پیج کے بھرم‘ کے ساتھ ہی آگے بڑھنا ہوگا۔ اور اس مقصد کے لئے ادا کی جانے والی قیمت کا اندازہ کرنے اور اس پر سوال اٹھانے کا حوصلہ کرنے کی غلطی سے بچنا ہوگا۔
حکومت پر ہی کیا موقوف اس ملک میں جس جمہوریت کا تجربہ کیا جارہا ہے، اس میں تو اپوزیشن کرنے کے لئے بھی ہاتھ کھڑے کرکے تلاشی دینا پڑتی ہے اور زبان و بیان کا توشہ خانہ کھول کر دکھانا پڑتا ہے کہ اس میں کوئی ایسا تاثر شامل نہ ہوجائے جس سے اداروں کا ’تقدس‘ مجروح ہوتا ہو اور طے شدہ قومی مفاد پر آنچ آنے کا اندیشہ ہو۔ آئی ایس پی آر کے حالیہ بیان پر بیشتر اپوزیشن لیڈروں اور جماعتوں کی خاموشی اوربلاول بھٹو زرداری کے علاوہ مولانا فضل الرحمان کے تبصرے اس سچائی کی حقیقی تصویر دکھانے کے لئے کافی ہونے چاہئیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے میجر جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس کے چند گھنٹے بعد میڈیا سے گفتگو کی اور ایک سوال کے جواب میں صرف اتنا ہی کہہ پائے کہ ’خان صاحب کو آئی ایس پی آر کے ذریعے سیاسی بیان نہیں دینا چاہئیں‘۔ گویا وہ اعلان کررہے ہیں کہ آئی ایس پی آر بھی پاک فوج کی طرح ملک کے منتخب وزیر اعظم کے حکم کا محتاج ہے۔ اگر وہ اسی بات کو سچ مانتے ہیں تو وہ عمران خان کو ’سیلیکٹڈ وزیر اعظم‘ کس منہ سے قرار دیتے ہیں؟
بلاول ابھی نوجوان ہیں۔ ملک و قوم کی نئی نسل کو ان سے بہت توقعات وابستہ ہیں لیکن انہیں طے کرلینا چاہیے کہ کیا وہ جمہوریت کی لڑائی لڑنے کے لئے تیار ہیں یا نہیں۔ یہ لڑائی سیاسی معاملات میں فوج کی عدم مداخلت کے اصول اور اظہار رائے کے غیر مشروط حق سے عبارت ہے۔ یہ صرف کسی حکومت کو اقتدار سے ہٹانے یا خود حکمرانی تک پہنچنے کے لئے کسی زینے کا نام نہیں ہے۔ بلاول اگر جمہوریت کی لڑائی لڑنا چاہتے ہیں تو انہیں یہ ماننا ہوگا کہ کل آئی ایس پی آر نے جو ’شو‘ منعقد کیا تھا، اس میں عمران خان مظلوم تھے اور جمہوری روایت نشانے پر تھی۔
اس تماشے میں جمہوریت کی بات کرتے ہوئے بلاول یا کسی دوسرے سیاسی لیڈر کو عمران خان کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے یہ ماننا پڑے گا کہ وہ بھی مجبوری کے اسی سفر پر روانہ ہیں جس کا مزہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) گزشتہ دس برس کے دوران چکھ چکی ہیں۔ پی ٹی ایم کی حرکات و سکنات اور بیانات سے اسی لئے ’بغاوت‘ کی بو آتی ہے کیوں کہ وہ اس غیر تحریر شدہ معاہدے کو تسلیم نہیں کرتے جس میں جمہوری اصولوں کو ذاتی مفادات کے عنوان کا پابند کردیا گیا ہے۔
مولانا فضل الرحمان کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ انہیں پی ٹی ایم کی صورت میں قبائیلی علاقوں میں اپنی سیاست داؤ پر لگی دکھائی دیتی ہے۔ مدرسے ان کی قوت ہیں اور وہ اس قوت پر سودا کرنا قبول نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ یہ مان لینے کے بعد وہ کریں گے کیا؟ اسی لئے پی ٹی ایم کے بارے میں آئی ایس پی آر کی وارننگ تو انہیں سہانا پیغام لگتی ہے کیوں کہ یہ ان کے سیاسی دشمن کو نشانے پر لے رہی ہے۔ تاہم میجر جنرل آصف غفور کی طرف سے مدرسوں کے سلیبس میں تبدیلی اور ملک کے 30 ہزار مدرسوں کو محکمہ تعلیم کے تحت کرنے کی بات کو وہ امریکی ایجنڈا قرار دینے میں دیر نہیں کرتے۔ قادر الکلام مولانا البتہ اس بات کی پوری احتیاط کرتے ہیں کہ امریکی ایجنڈا نافذ کرنے کا الزام اس حکومت پر ہی آئے جس کے ہوتے انہیں اقتدار میں حصہ ملنے کا امکان نہیں۔
منظور پشتین نے بھارت اور افغانستان کی ایجنسیوں سے امداد لینے کے الزامات کو مسترد کیا ہے اور اس بات سے بھی انکار کیا ہے کہ انہوں نے کسی غیر ملکی لیڈر سے ملاقات کی ہے۔ وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے بتایا ہے کہ انہوں نے سینیٹ کی کمیٹی کے علاوہ وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی ہے۔ وہ اور کسی سے نہیں ملے۔ یہ بیان ایک ایسی ویب سائٹ پر شائع ہؤا ہے جسے پاکستان میں کھولنے کی اجازت نہیں ہے کیوں کہ اس طرح ملک میں امریکی اثر و نفوذ بڑھنے کا خطرہ ہے۔ ہر ’دشمن‘ سے پاکستانیوں کو محفوظ رکھنے والے ادارے یہ بات برداشت نہیں کرتے کہ امریکہ اپنے نشریاتی ادارے کے ذریعے قوم کے نوجوانوں کا اخلاق خراب کرتا پھرے۔ اس لئے اس سائٹ پر پابندی کو ’آزادی رائے پر حملہ‘ نہیں کہا جاسکتا بلکہ اسے حب الوطنی کی شاندار روایت کہا جائے گا۔
میجر جنرل آصف غفور کی پرجوش اور تفصیلی باتوں کے جواب میں منظور پشتین نے البتہ سادگی سے الزامات کی تردید کی ہے، ملکی قانون کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے اور اپنے مطالبوں کو دہرایا ہے جو ان کے بقول ابھی تک پورے نہیں کیے گئے۔ منظور پشتین کے بقول ان کے تین مطالبوں میں : الف) نقیب اللہ محسود کیس میں راؤ انوار کی گرفتاری، ب) ماورائے عدالت ہلاکتوں کا خاتمہ، ج) لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے عدالتی کمیشن کا قیام شامل ہیں۔
اس کا جواب حکومت یا آئی ایس پی آر ہی دے سکتا ہے کہ ان میں سے کون سا مطالبہ ملک کے آئین و قانون یا مفادات کے خلاف ہے۔ کیا راؤ انوار ایسا نایاب ہیرا ہے کہ اسے جیل میں نہیں رکھا جاسکتا، یا معاملات کی تحقیق کے لئے کبھی عدالتی کمیشن نہیں بنائے گئے؟ اور ماورائے عدالت قتل کا سد باب تو اس قومی ایکشن پلان کا حصہ ہے جس پر عمل کرنے کا اعلان گزشتہ روز پاک فوج کے نمائیندے نے بھی کیا ہے۔
یہ سوال جواب طلب رہے گا کہ آئی ایس پی آر ایک پریس کانفرنس میں کس استحقاق کے تحت انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک تنظیم کو دشمن کا ایجنٹ اور ملک دشمن قرار دے سکتا ہے۔ ورنہ منظور پشتین کی اس بات کو درست مان لینا ہو گا کہ ’فوج اپنے علاوہ ہ ہر کسی کو پاکستان مخالف سمجھتی ہے‘ ۔
(بشکریہ:کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ