ایک طرف بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ مذاکرات انتہائی مشکل دور سے گزررہے ہیں اور ملک کے معاشی مستقبل کے بارے میں نت نئے اندیشے اور وسوسے سر اٹھا رہے ہیں تو دوسری طرف گوادر میں پرل کونٹی نینٹل ہوٹل پر دہشت گردوں کے حملہ کی اطلاع موصول ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کے حکومت سنبھالنے کے بعد سے معیشت ہی نہیں ملکی سلامتی کی صورت حال بھی دگرگوں ہوئی ہے۔ دہشت گردی کا خاتمہ کردینے کے دعوؤں کے دوران ملک کو یکے بعد دیگرے دہشت گرد حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز راولپنڈی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عوام کو مہنگائی کی نئی لہر اور مشکل معاشی حالات کے لئے تیار کرنے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ افراط زر کی وجہ سے عوام کو مشکلات کا سامنا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت نظام کی کمزوریاں دور کرکے معیشت کے معاملات ٹھیک کررہی ہے۔ اس لئے اس مشکل کے بعد سہولت کا دور بھی آئے گا۔ کسی بھی وزیر اعظم کی طرف سے مہنگائی، بے روزگاری اور کساد بازاری کے ماحول میں اس کا اعتراف کرنے سے یہ احساس ضرور پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کو عوام کی مشکلات کا اندازہ ہے اور وہ ان کی بہتری کے لئے اقدامات کررہی ہے۔ تاہم عمران خان کی حکومت کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ مسائل ضرور سر اٹھائے ہوئے ہیں اور وزیر اعظم ان کا اعتراف بھی کرتے ہیں لیکن وہ ان حالات کی ذمہ داری قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ وہ حکومت کی ناقص حکمت عملی کوتسلیم کرنے کی بجائے بدستوریہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورت حال ماضی کی حکومتوں کی غلطیوں کا نتیجہ ہے۔
حکومت سنبھالنے کے 9 ماہ بعد بھی وزیر اعظم سے لے کر حکمران جماعت کے نچلے درجے تک کے لیڈروں کی گفتگو کی تان اسی نکتہ پر ٹوٹتی ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے ابتر معیشت ان کے حوالے کی تھی جس کی وجہ سے موجودہ مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ اس بات کو کسی حد تک تسلیم کرنے کے باوجود اس سوال کا جواب دستیاب نہیں ہے کہ تحریک انصاف نے حکومت سنبھالنے کے بعد وہ کون سی منصوبہ بندی کی ہے جس کے نتیجہ میں آنے والے مہینوں یا سالوں میں ملکی معیشت پروان چڑھنے لگے گی۔ اس وقت حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں جس مشکل کا سامنا ہے وہ بھی کسی ٹھوس حکمت عملی کی عدم موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔
آئی ایم ایف ایک عالمی مالیاتی ادارہ ہے جو انتہائی مشکل حالات کا شکار ملکوں کو کم شرح سود پر قرض فراہم کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ ایسے معاشی اقدامات تجویز کرتا ہے جن کے نتیجے میں اس کا دیا ہؤا قرضہ مقررہ مدت کے اندر واپس وصول کیا جاسکے۔ اگرچہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف کے تجویز کئے گئے معاشی اقدامات کے نتیجے میں حکومت کی محاصل وصول کرنے کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے اور معیشت کسی حد تک پٹری پر واپس آجاتی ہے۔ تاہم پاکستان کی حد تک اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان نے 1958 سے 2013 کے دوران عالمی مالیاتی فنڈ سے قرضوں کے 21 معاہدے کئے جبکہ اس دوران درجن بھر بیل آؤٹ پیکیج لئے گئے۔ گویا پاکستان اور آئی ایم ایف ایک دوسرے کے ساتھ طویل المدتی تعلق میں منسلک رہے ہیں ۔ اس کے باوجود ہر چند برس کے بعد ملکی معیشت اس حد تک خراب صورت حال سے دوچار ہوجاتی ہے کہ حکومت کو از سر نو آئی ایم ایف سے ہنگامی اور فوری مدد کے لئے رجوع کرنا پڑتا ہے۔
اسی پس منظر میں عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے بعد آئی ایم ایف سے قرض نہ لینے کا اعلان کیا تھا اور تکرار کے ساتھ یہ بات دہرائی گئی تھی کہ حکومت نے دوست ملکوں سے مالی امداد لے کر ادائیگیوں کا توازن درست کرنے کا اقدام کیا ہے۔ آئی ایم ایف سے یا تو پیکیج لینے کی ضرورت نہیں ہوگی یا انتہائی تھوڑی مقدار میں مختصر مدت کے لئے قرض لیا جائے گا۔ یہ باتیں ایک ایسے وزیر خزانہ کرتے رہے تھے جو حکومت کا حصہ بننے سے پہلے ہی آئی ایم ایف سے 12 ارب ڈالر کا بیل آؤٹ پیکیج لینے کا ارادہ ظاہر کرچکے تھے۔ تاہم اسد عمر نے وزیر خزانہ بننے کے بعد مختلف مؤقف اختیارکرنا شروع کیا ۔ ایک طرف آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ چلتا رہا تو دوسری طرف یہ اعلان بھی ہوتا رہا کہ تحریک انصاف آئی ایم ایف کے سامنے جھولی نہیں پھیلائے گی اور اپنی حکمت عملی اور دوستوں کے تعاون سے کام چلا لیا جائے گا۔ تاہم اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت معاشی مسائل کو سیاسی نعروں کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ اس میں ناکامی نوشتہ دیوار تھی۔
بعض ماہرین اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ اگر آئی ایم ایف سے قرض لینا مطلوب تھا تو موجودہ حکومت کو گزشتہ برس ہی یہ اقدام کرلینا چاہئے تھا اور اس معاملہ پر سیاست نہیں کرنی چاہئے تھی۔ لیکن عالمی فنڈ سے معاملات کرنے میں مسلسل تاخیر کی جاتی رہی حتی کہ جب اسد عمر نئے پیکیج کی تفصیلات طے کرکے امریکہ سے واپس آئے تو اپریل میں انہیں اچانک وزارت سے ہٹا دیا گیا اور عالمی بنک کے حفیظ شیخ کو مشیر خزانہ کے طور پر وزارت خزانہ کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ اور جب آئی ایم ایف کا وفد مالی پیکیج کا معاہدہ فائنل کرنے کے لئے اسلام آباد میں موجود تھا تو اچانک اسٹیٹ بنک کے گورنر اور ایف بی آر کے سربراہوں کو علیحدہ کردیا گیا۔ اب آئی ایم ایف کے ساتھ دو دہائی تک کام کرنے والے رضا باقر گورنر اسٹیٹ بنک بن چکے ہیں جبکہ نجی شعبہ سے تعلق رکھنے والے شبر زیدی کو بورڈ آف ریوینو کا ’اعزازی‘ سربراہ بنایا گیا ہے۔ یہ نکتہ وزیر اعظم کے اصرار پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ سے گریز کرنےکے لئے نکالا گیا ہے۔ ہائی کورٹ یہ طے کرچکی ہے کہ ایسے عہدے پر تقرری کے لئے امید وار تلاش کرنے کے ایک خاص طریقہ پر عمل کرنا ضروری ہے۔
ملک کو اس وقت محاصل اکٹھا کرنے کا کٹھن کام درپیش ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران حکومت مقررہ ہدف کے مطابق محاصل جمع نہیں کرسکی۔ اس کی ایک وجہ معیشت میں تعطل اور انجماد کی کیفیت بتائی جاتی ہے جس کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں کم ہونے کی وجہ سے محاصل کی مقدار میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ اب ایک ایسا شخص محاصل اکٹھا کرنے والے ادارے کا سربراہ ہے جسے یہ پوزیشن ’اعزازی‘ طور سے ملی ہے۔ یہ ایک معمہ ہے کہ ایسا شخص کیوں کر اس ادارے اور اس کے اہلکاروں پر اپنی اتھارٹی نافذ کرسکے گا۔ تاہم وزیر اعظم نے صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے چونکہ یہ اعلان کردیا تھا ، اس کی لاج بہر حال رکھ لی گئی ہے۔
آئی ایم ایف کی ٹیم سے مزید مذاکرات کے لئے دو روز مانگے گئے ہیں۔ یہ سمجھاجارہا ہے کہ سوموار تک چھے سےآٹھ ارب ڈالر کے پیکیج کا معاہدہ ہو جائے گا۔ بظاہر اس تاخیر کی یہ وجہ بتائی جارہی ہے کہ وزیر اعظم معاہدہ کے بعض نکات سے مطمئن نہیں ہیں۔ لیکن آئی ایم ایف نے پاکستان کو نیا پیکیج دینے کے حوالے سے کئی ماہ سے اپنے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے۔ اس ویک اینڈ پر مزید مذاکرات میں بھی کوئی نئی بات سامنے نہیں آئے گی۔ البتہ حکومت اس تعطل کو بنیاد بنا کر یہ دعویٰ ضرور کرے گی کہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط کو عوام دوست بنوالیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کو بھی خبر ہے ملکی معیشت بدحالی کا شکار ہے اور حکومت کو اس پیکیج کی اشد ضرورت ہے۔ وہ ایسی ساری شرائط نئے معاہدے میں شامل کروائے گا جن کی وجہ سے اس کی دی ہوئی رقم کو وصول کرنا آسان ہوجائے۔ قرض دینے والے اس بات سے پریشان نہیں ہوتے کہ عوام یا ملکی معیشت پر ان کی شرائط کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ بدقسمتی سے اب تک ملک کی حکومت بھی کوئی واضح اور ٹھوس معاشی منصوبہ بندی کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
دوسری طرف سی پیک کی وجہ سے امریکہ آئی ایم ایف کے حوالے سے کوئی تعاون کرنے پر آمادہ نہیں ہے بلکہ اس میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پاکستان کو آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے کے بعد ایف اے ٹی ایف سے رعایت لینے کی طرف توجہ مبذول کرنا ہوگی جو پاکستان کو گرے فہرست سے بلیک لسٹ میں ڈال کر ملکی تجارتی صلاحیتوں اور مالی وسائل کے حصول کے لئے نئی مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔ بھارت نے اپنے اس ارادے کو چھپانے کی کوشش نہیں کی ہے کہ وہ ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو بلیک لسٹ کروانے کی کوشش کرے گا۔
ان حالات میں ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات پاکستان کی معاشی اور سفارتی حیثیت پر براہ راست وار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کے علاوہ دیگر ادارےبھی ضرور یہ سوال کریں گے کہ دہشت گردی پر یہ کیسی فتح ہے کہ مفتوح ایک نئی توانائی کے ساتھ پاکستان کو مفلوج کرنے میں کامیاب ہورہا ہے۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ