پاکستان کے شہروں اور دیہات کے ہر چوک اور گلی میں ایک آدھ ایسا شخص ضرور مل جاتا ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کے پاس ملک کو درپیش مسائل کا حل موجود ہے۔ اگر اسے ایک بار اقتدار میں آنے کا موقع مل جائے تو وہ سارے معاملات کو ٹھیک کر سکتا ہے، بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ سکتا ہے، ملک کے غریبوں کے گھروں میں گھی کے چراغ جلا سکتا ہے اور چاروں طرف انصاف و مساوات کا بول بالا کر سکتا ہے۔ بس جو وہ نہیں کر سکتا وہ یہ ہے کہ اس کے پاس اللہ دین کا ایسا کوئی چراغ نہیں ہے جسے رگڑ کر وہ ملک کا بادشاہ نہیں تو وزیراعظم بن سکے۔ اس بے بسی کی وجہ سے وہ خستہ حالی میں دکانداری یا کلرکی کرتا ہے، ہل چلاتا ہے یا مزدوری پر جاتا ہے اور حسب مقدور رشوت بھی لیتا ہے، بے ایمانی بھی کرتا ہے، کام چوری کا مرتکب بھی ہوتا ہے۔ اور اپنے سوا ہر دوسرے شخص کو ملک کی ابتری کا ذمہ دار قرار دے کر اپنے دل کا غبار نکالتا رہتا ہے۔ اب یہ رویہ قومی مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔ گزشتہ چند برس کے دوران ملک کے سیاستدانوں نے تواتر سے اس طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہے تاہم ان کی باتوں اور دعوﺅں کو اقتدار کے حصول کے لئے سیاست چمکانے کے ہتھکنڈے قرار دیا جا سکتا ہے۔ البتہ جب ملک کے ادارے اور ان سے وابستہ افراد جن سے پیشہ ورانہ مہارت کی توقع کی جاتی ہے، بھی اسی قسم کے رویہ کا مظاہرہ شروع کر دیں تو افق پر روشنی نہیں تاریکی دیکھنا مشکل نہیں ہونا چاہئے۔
سپریم کورٹ نے پانامہ کیس میں 6 رکنی جے آئی ٹی بناتے ہوئے اس کے سامنے چند سوال رکھے تھے۔ سپریم کورٹ نے دعویٰ بھی کیا تھا اور یہ توقع بھی کی جا رہی تھی کہ ملک کے مختلف اداروں سے لئے گئے بہترین صلاحیت اور کردار کے افسران پر مشتمل یہ تحقیقاتی کمیٹی نہایت پروفیشنل طریقہ سے وہ کام کرنے کی کوشش کرے گی جو اسے سونپا گیا ہے۔ لیکن کل جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا کی طرف سے وزیراعظم ہاﺅس اور ریاست کے مختلف اداروں پر جو الزامات عائد کئے گئے ہیں، انہیں پڑھتے ہوئے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ 20 کروڑ ملک کے اس نظام میں صرف وہ چھ افسر ہی دیانت دار اور صاحب کردار ہیں جن کو اس جے آئی ٹی کے لئے منتخب کر لیا گیا ہے۔ باقی سارا نظام اور اس میں کام کرنے والے لوگ خواہ وہ وزیراعظم ہاﺅس سے وابستہ ہوں یا ملک کے دیگر اداروں سے تعلق رکھتے ہوں، اس ملک کو تباہی کی طرف لے جانے پر کمربستہ ہیں اور نواز شریف اور ان کے خاندان کو جے آئی ٹی کے ”چنگل“ سے بچانے اور سپریم کورٹ سے بری کروانے کی تگ و دو کرر ہے ہیں۔ جے آئی ٹی کے الزامات کی فہرست دیکھ کر ہر چوک اور گلی کی نکڑ پر کھڑے اس شخص کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جس کے پاس اس ملک کے سارے مسائل کا حل ہے لیکن نہ وہ اپنی زندگی کے مسائل حل کرسکتا ہے اور نہ ہی ان روشن اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حوصلہ کرتا ہے جو وہ پورے ملک پر منطبق کرنے کا خواہشمند ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے گلیوں محلوں میں بھٹکتے اور ٹھوکریں کھاتے ان ”مصلحین قوم“ کی روح جے آئی ٹی کے ارکان میں حلول کر گئی ہے اور وہ اب اس بات کا تہیہ کئے ہوئے ہیں کہ وزیراعظم کے ساتھ ساتھ اس ملک کے نظام کی بھی اصلاح کر دیں تاکہ مجبور و بے بس عوام کا بھلا ہو سکے۔
یہ رویہ نیک نیتی پر مبنی ضرور ہو سکتا ہے لیکن جب ایک خاص معاملہ پر چند سوالوں کے جواب تلاش کرنے والی جے آئی ٹی اپنا دائرہ کار بڑھانے کے لئے ایک طویل درخواست سپریم کورٹ کے سامنے دائر کرتی ہے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے دیئے ہوئے مینڈیٹ سے تجاوز کر رہی ہے۔ ملک کے ہر ادارے کو دوسرے اداروں کے بارے میں اعتراضات اور گلے شکوے ہو سکتے ہیں لیکن ہر ادارے کو جمع خاطر رکھنی چاہئے کہ وہ تن تنہا ان مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا جو اس قوم کو بوجوہ درپیش ہیں۔ اس لئے یہ گزارش کی جاتی ہے کہ ہر ادارہ اپنی حدود کے اندر رہتے ہوئے کام کرے اور اسی طرح دوسروں کے طریقہ کار پر انگلیاں اٹھانے اور انہیں مطعون کرنے کی بجائے ان کا احترام کرے اور اپنے طریقہ کار کے مطابق انہیں بھی کام کرنے کا موقع دے۔ یہی گزارش سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی سے بھی کی جا سکتی ہے۔ لیکن جے آئی ٹی نے اپنی تازہ حکمت عملی کے ذریعے جو قضیہ کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے ، اس کی روشنی میں یہ کہنا مشکل نہیں ہے کہ اس طرح ایک نیا پنڈورابکس کھولا جائے گا۔ ان الزامات کے جواب میں مطعون کئے گئے ادارے اور افراد کے پاس اپنے دلائل اور شواہد ہوں گے۔ اگر ایک دوسرے کے خلاف ثبوت جمع کرنے کا یہ سلسلہ جاری رہا تو نواز شریف اور پانامہ کیس کا معاملہ بھلا کر ایک دوسرے کی کارکردگی اور کردار کی چھان پھٹک کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔ جے آئی ٹی کے اعتراضات پر مبنی درخواست کا واضح مقصد یہ ہے وہ 60 دن کی مقررہ مدت میں اپنا کام مکمل کرنے سے قاصر ہے اور حتمی نتیجہ مرتب کرتے ہوئے وہ اپنی ناکامیوں کا الزام دوسرے اداروں اور حکومت پر عائد کرکے خود کو پاک دامن اور عیوب سے مبرا ثابت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
یوں تو سپریم کورٹ نے پانامہ کیس کی صورت میں ایک سیاسی معاملہ پراپنا اور قوم کا وقت اور وسائل ضائع کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے پہلی ٹھوکر کھائی تھی۔ پھر طویل سماعت کے بعد عدالتی کمیشن کی بجائے جے آئی ٹی بنا کر خود اس کی نگرانی کا فیصلہ کر کے دوسری غلطی کا ارتکاب کیا گیا تھا۔ اب اس جے آئی ٹی کے کام کی نگرانی کرنے والا سہ رکنی بینچ بہرصورت جے آئی ٹی کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس دوران جے آئی ٹی کے طریقہ کار، اس کے ارکان کی وابستگیوں اور کوتاہیوں کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ ملک کے وزیراعظم کو بے ایمان اور بدنیت ثابت کرنے کے لئے کئے گئے اس انتظام میں کم از کم شفافیت، پروفیشنل ازم اور اخفائے راز کا اہتمام کرنا ضروری تھا۔ لیکن اسے بھی اہمیت نہیں دی گئی۔ آج ہی جے آئی ٹی میں پیشی کے دوران حسین نواز کی تصویر جاری ہونے کے معاملہ کی سماعت کے دوران بینچ کے ایک فاضل رکن نے یہ تبصرہ کیا ہے کہ ”وہ آرام سے ایک کرسی پر بیٹھے ہیں۔ آخر اس میں اعتراض کی کیا بات ہے۔“ کیا سپریم کورٹ کے فاضل جج اس قسم کے تبصروں سے یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ انہیں واقعی اس معاملہ کی حساسیت اور اہمیت کا علم نہیں ہے۔ اس تصویر کے افشا ہونے پر یہ اعتراض نہیں ہے کہ حسین نواز آرام سے بیٹھے ہیں یا تکلیف میں ہیں بلکہ اصل مدعا یہ ہے کہ جے آئی ٹی کے سیکریٹریٹ سے تصویر ہو یا خبر، باہر نہیں آنی چاہئے۔ اگر جے آئی ٹی اس قسم کی حرکتوں میں ملوث ہوتی ہے تو وہ خود ہی یہ واضح کر رہی ہے کہ سپریم کورٹ نے اسے جو ذمہ داری سونپی ہے، وہ اسے پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔
جے آئی ٹی کو اگر حکومتی اداروں کی طرف سے عدم تعاون کی صورت حال کا سامنا تھا تو اسے یہ معلومات خفیہ طور سے سپریم کورٹ میں پیش کرنی چاہئے تھیں۔ اور عدالت کے جج اس حوالے سے ضروری احکامات جاری کر سکتے تھے۔ لیکن جے آئی ٹی اگر ملک کے موجودہ سیاسی ماحول میں اپنے اعتراضات کو پبلک ریلیشننگ کا ذریعہ بنائے گی تو اس سے تنازعہ مزید پیچیدہ ہوگا اور جے آئی ٹی کی غیر جانبداری بھی مشکوک ہوتی چلی جائے گی۔ اس درخواست میں درج کئے گئے اگر سارے اعتراضات کو سو فیصد درست بھی مان لیا جائے تو بھی جے آئی کے طریقہ کار کو پروفیشنل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ سپریم کورٹ کو اب سنجیدگی سے معاملہ کے اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ایک مقدمہ کے بعض جواب طلب پہلوﺅں کی وضاحت حاصل کرنا چاہتی ہے یا وہ کسی ایسے سپر ”ادارے“ کی بنیاد رکھ رہی ہے جو گلی کی نکڑ پر کھڑے کسی خود ساختہ مصلح کی طرح اس ملک کے سارے نظام اور ہر برائی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گا۔
اب بھی وقت ہے کہ معاملہ کو چند غیر واضح سوالوں تک محدود کرکے ان کا جواب تلاش کیا جائے اور مقدمہ کا فیصلہ سامنے لایا جائے۔ سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اس معاملہ کو روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے ٹاک شوز اور مباحث کا موضوع بنائے اور قوم و ملک کے لئے مزید بے چینی، پریشانی اور ہیجان کا سبب بنتی رہے۔
(بشکریہ:کاروان ۔۔ ناروے)
فیس بک کمینٹ