یورپین یونین اور نیٹو نے امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں ایک نئی جنگ کی تباہ کاری سے متنبہ کیا ہے اور مشورہ دیا ہے کہ ایران کے خلاف کارروائی میں تحمل سے کام لیا جائے۔ دوسری طرف امریکہ نے ایران کی طرف سے امریکی فوجوں اور مفادات کو لاحق خطرہ کے پیش نظر خلیج فارس میں اپنا بحری بڑا اور بی۔ 52 بمبار طیارے بھجوائے ہیں۔ اس کے علاوہ ایران کی طرف سے کسی بھی قسم کے حملہ کا مقابلہ کرنے کے لئے پیٹرائٹ اینٹی میزائل سسٹم بھی مشرق وسطیٰ میں متعین کیا جارہا ہے۔
گزشتہ روز متحدہ عرب امارات کی بندرگاہ فجیرہ کے قریب 4 آئل ٹینکرز کو تخریبی کارروائی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان میں سے دو سعودی عرب کے ٹینکر تھے جبکہ ایک ناروے اور ایک امارات میں رجسٹرڈ ہے۔ آج سعودی عرب کے وزیر تیل خالد الفلیح نے بتایا ہے کہ مشرقی صوبہ میں ملک کی آئل ریفائنری اور تیل کی تنصیبات پر ڈرون سے حملہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح دارالحکومت ریاض کے قریب تیل کی دو تنصیبات پر بھی حملہ کی اطلاع دی گئی ہے۔
یمن کی حوثی افواج نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ سعودی عرب میں تیل کی تنصیبات اور آئل ٹینکرز پر ہونے والے حملوں کی نوعیت کا تعین نہیں ہو سکا اور نہ ہی کسی بھی ملک نے ایران یا کسی دوسری طاقت پر اس کا الزام عائد کیا ہے۔ تاہم یہ واقعات ایرانی وزیر خارجہ محمد جاوید ظریف کے اس انتباہ کے فوری بعد رونما ہوئے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ علاقے میں کوئی بڑا واقع رونما ہو سکتا ہے تاکہ کشیدگی میں اضافہ کا جواز تلاش کیا جاسکے۔ جاوید ظریف کا یہ بیان خلیج فارس میں امریکی بحری بیڑے کی نقل و حرکت کے تناظر میں سامنے آیا تھا۔ ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت کے کچھ انتہا پسند عناصر ایسی صورت حال پیدا کرسکتے ہیں جس کی بنیاد پر اشتعال انگیزی میں اضافہ کیا جاسکے۔
اس دوران نیویارک ٹائمز نے امریکی جنگی تیاریوں کے حوالے سے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ وہائٹ ہاؤس کے ایک خصوصی اجلاس میں صدر ٹرمپ کو ایران کے خلاف جنگی کارروائی کے حوالے سے متعدد آپشن پیشکیے گئے ہیں۔ ان میں فوری طور سے ایک لاکھ 20 ہزار فوج مشرق وسطیٰ بھیجنے کی تجویز بھی شامل ہے۔ اگرچہ وہائٹ ہاؤس کے ذرائع نے اس کی تصدیق نہیں کی ہے لیکن صدر ٹرمپ اور ان کے نمائندے یہ واضح کرتے رہے ہیں کہ وہ ایران کی طرف سے کسی قسم کی اشتعال انگیزی کو برداشت نہیں کریں گے۔ وزیر خارجہ مائیک پومیو نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ علاقے میں اگر کوئی تخریبی کارروائی ہوتی ہے تو ایران اس میں براہ راست ملوث ہو یا اس کی پشت پناہی میں سرگرم کوئی گروہ یہ کام کرتا ہے لیکن امریکہ تہران کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھہرائے گا۔
صدر ٹرمپ اور مائک پومیو کے سخت بیانات اور خلیج میں فوجی طاقت کے مظاہرے کے بعد یورپی یونین اور نیٹو ممالک کی طرف سے امریکہ کو تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ مائیک پومیو سوموار کو روس کے دورہ پر ماسکو پہنچنے والے تھے تاہم مشرق وسطیٰ میں تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے حالات کے پیش نظر انہوں نے روس کا دورہ مؤخر رکرتے ہوئے پہلے برسلز جا کر اپنے یورپی حلیفوں سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ اطلاعات کے مطابق ان ملاقاتوں میں مائیک پومیو نے یورپی لیڈروں کو وہ انٹیلی جنس معلومات فراہم کیں جن کے مطابق ایران امریکی افواج اور تنصیبات کو نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ تاہم یورپی یونین اور نیٹو کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ نے امریکی وزیر خارجہ کو مشرق وسطیٰ میں کسی نئی جنگ کے سنگین نتائج کے بارے میں متنبہ کیا۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ فیڈریکا موغیرینی اور نیٹو کے جنرل سیکرٹری ینس ستولتن برگ نے بھی گزشتہ روز امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات کی۔ برسلز میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے فیڈریکا موغیرینی نے بتایا کہ انہوں نے امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو سے حالیہ کشیدگی پر بات کی ہے۔ اور انہیں تحمل سے کام لینے اور کشیدگی کو کم کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ یورپی حلیفوں کے مشورہ کے باوجود اس بات کا امکان نہیں کہ صدر ٹرمپ ایران کے خلاف طاقت کے مظاہرے سے باز رہیں گے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ سال مئی میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کو یک طرفہ طور سے ختم کرنے کا اعلان کیا تھا کیوں کہ ان کے خیال میں یہ بدترین معاہدہ تھا اور ایران کو علاقے میں اپنے پراکسی عسکری گروہوں کی مدد نہ کرنے کا پابند نہیں کیا گیا تھا۔ اس معاہدہ میں شامل دیگر ملکوں برطانیہ، فرانس، روس، چین اور جرمنی نے امریکی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ وہ اس معاہدے کو جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے خلاف ایک مؤثر دستاویز سمجھتے ہیں۔
تاہم امریکہ نہ صرف اس معاہدہ سے باہر نکل گیا بلکہ اس نے یک طرفہ طور سے ایران کے خلاف پابندیاں لگانے کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔ شروع میں چند ملکوں کو ایران سے تیل درآمد کرنے کا استثنی دیا گیا تھا لیکن گزشتہ ماہ صدر ٹرمپ نے یہ استثنیٰ ختم کرتے ہوئے ایران سے ہر قسم کی برآمد کو بند کروانے کے عزم کا اظہار کیا۔ اس کے ساتھ ہی طیارہ بردار بحری بیڑا ابراہم لنکن کو خلیج میں بھیجنے کے علاوہ قطر کے امریکی فوجی اڈے پر بی۔ 52 بمبار طیارے روانہکیے تھے۔ اس دوران یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ امریکہ نے میزائل شکن سسٹم پیٹرائٹ بھی مشرق وسطیٰ میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان فوجی تیاریوں کے باوجود امریکہ کی طرف سے یہی اعلان کیا جاتا رہا ہے کہ وہ ایران پر حملہ نہیں کرنا چاہتا لیکن اگر اس کے مفادات یا حلیفوں پر آنچ آئی تو وہ کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہے۔ گزشتہ روز امارات کی بندرگاہ فجیرہ میں چار آئل ٹینکرز کے خلاف تخریبی کارروائی کے بعد امریکی وزیر خارجہ مائک پومیو نے کہا تھا کہ اس علاقے میں اگر کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ ہوتا ہے تو وہ براہ راست ایران کو اس کا ذمہ دار سمجھیں گے۔
اس قسم کے بیانات ایران پر حملہ کرنے کی براہ راست دھمکی کے مترادف ہیں۔ فجیرہ کی کارروائی کے بعد آج سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملوں کے بعد صورت حال تشویشناک کہی جا سکتی ہے۔ اس حملہ کی ذمہ داری حوثی مسلح افواج نے قبول کی ہے۔ تاہم سعودی عرب نے یمن کے صدر منصور ہادی کی حکومت کی حمایت میں 2015 سے یمن کے خلاف یک طرفہ جنگی کارروائی کا آغاز کیا ہؤا ہے۔ اس جنگ میں اسے خلیجی ممالک کی حمایت بھی حاصل ہے۔
یمن جنگ میں اب تک جنگی کارروائیوں اور سعودی اتحاد کے حملوں کے باعث 30 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ جنگ کی وجہ سے ہونے والی بربادی کی وجہ سے ملک میں قحط کی صورت حال ہے۔ قحط، علاج معالجہ کی سہولتیں فراہم نہ ہونے اور وبائی امراض کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زیادہ بتائی جاتی ہے۔ ان میں بچوں کی اکثریت ہے۔ اقوام متحدہ نے گزشتہ برس ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ ایک کروڑ 30 لاکھ یمنی باشندے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اس رپورٹ میں سعودی حملوں کی مذمت بھی کی گئی تھی۔ لیکن صدر ٹرمپ کی حکومت کانگرس کی مخالفت کے باوجود یمن میں سعودی اتحاد کی جنگ جوئی کی حمایت کرتی رہی ہے۔ یہی اس خطے میں موجودہ تنازع کی بنیاد بھی ہے۔
امریکہ میں صدر ٹرمپ نے حکومت سنبھالنے کے بعد سعودی عرب اور اسرائیل کے ساتھ تعاون مستحکم کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ میں ایران کے خلاف حصار بندی کا فیصلہ کیا تھا۔ اسی تعاون کے نتیجہ میں امریکہ نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ یک طرفہ طور سے ختم کرنے کا فیصلہ کیا، پھر اس کے خلاف اقتصادی پابندیوں کا آغاز کیا گیا اور اب فوجی طاقت کے مظاہرے کے ذریعے ایران پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس حکمت عملی کا مقصد شام اور یمن میں ایران کے تعاون سے امریکہ نواز قوتوں کا مقابلہ کرنے والے عسکری گروہوں کو کمزور کرنا ہے۔ ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکہ کی طرف سے خلیج میں بحری بیڑا بھیجنے اور دیگر جنگی تیاریوں کو نفسیاتی ہتھکنڈے قرار دیا تھا۔ لیکن ایران کے خلاف امریکی کارروائیوں کی وجہ سے ایران شدید مالی مشکلات کا شکار بھی ہؤا ہے۔
اگرچہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ امریکہ نے جنگ کرنے کی نیت سے خلیج میں اپنی فوجی قوت میں اضافہ کیا ہے لیکن یورپی لیڈروں کے اس اندیشے کو نظر اندز نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی معمولی سا واقعہ کسی بڑی جنگ اور تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ اس لئے طرفین کو تحمل اور ہوشمندی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف اسرائیل اور سعودی عرب اس تنازعہ کو کسی حتمی نتیجہ تک پہنچانے کے خواہشمند ہوں گے تاکہ ایران کی قوت کو شدید نقصان پہنچایا جا سکے اور مشرق وسطیٰ میں ان دونوں ملکوں کی بالادستی مسلم ہو سکے۔ آئل ٹینکرز اور سعودی تیل کی تنصیبات پر حملوں جیسے واقعات اچانک کسی بڑے تصادم کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔
ایران پر مسلط کی گئی جنگ صرف مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر ہی اثر انداز نہیں ہوگی بلکہ جنوبی ایشیا بھی اس سے متاثر ہوگا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر پاکستان، بھارت یا کسی دوسرے ایشیائی ملک نے اس حوالے سے امریکہ کو اپنی تشویش سے آگاہ نہیں کیا۔ ایران پر حملہ تیل کی قیمتوں میں طویل المدت اضافہ کا سبب ہی نہیں بنے گا بلکہ اس کے نتیجہ میں ایسے عسکری گروہوں کی قوت میں بھی اضافہ ہو گا جو تشدد اور دہشت گردی کے ذریعے مختلف ملکوں کے امن اور معیشت کو تباہ کرنے کا سبب بنتے رہے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک جو کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں، ایران پر حملہ کی صورت میں وہ نہ صرف ضائع ہو جائیں گی بلکہ ان کی شدت میں اضافہ کے امکان کو مسترد کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ