وزیر اعظم عمران خان نے اسلامی تعاون تنظیم کے 14 ویں سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ مسلم ممالک کو مغرب میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کے خلاف کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے توہین رسالت کے سوال پر مسلم امہ کے کمزور ردعمل پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں مغربی ممالک کو بتانے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے رسول ﷺ سے کتنی محبت کرتے ہیں تاکہ آزادی اظہار کے نام پر مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کا سلسلہ بند ہو سکے‘۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں کشمیریوں اور فلسطینیوں کی تحریک آزادی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مغرب نے جس طرح دہشت گردی کو اسلام سے جوڑا ہے اس کی وجہ سے نائن الیون کے بعد ان تحریکوں کو اسلامی انتہا پسندی قرار دے کر دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے اسلامی دنیا میں تعلیم پر توجہ دینے اور سائنسی ترقی پر وسائل صرف کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا اور کہا کہ او آئی اسی ان مقاصد کو حل کرنے کے لئے بہترین پلیٹ فارم ہو سکتا ہے۔
سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اسلامی تعاون تنظیم کے سربراہوں اور عرب لیڈروں کا اجلاس ایران کے خلاف دیگر ملکوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے بلایا تھا۔ اجلاس میں شاہ سلمان نے اپنی تقریر کا فوکس بھی سعودی عرب میں پمپنگ اسٹیشنوں پر حملوں کے علاوہ گزشتہ ماہ کے شروع میں متحدہ عرب امارات کی بندرگاہ کے قریب چار آئل ٹینکرز پر تخریبی کارروائی پر ہی رکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان حملوں سے صرف سعودی عرب ہی نہیں بلکہ پورے خطے کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوا ہے۔
اس سے بحری راستوں سے تیل کی سپلائی متاثر ہوگی اور عالمی امن کے لئے خطرات بڑھیں گے۔ ایک روز پہلے خلیج تعاون کانفرنس میں شامل ممالک کے اجلاس میں ایک قرارداد میں ان حملوں کی مذمت بھی کی گئی تھی۔ اسلامی تعاون تنظیم کے حالیہ اجلاس کے ایران مخالف ایجنڈے ہی کی وجہ سے ایران اور ترکی نے اس اجلاس میں شرکت سے گریز کیا تھا۔
اس پس منظر اور ماحول میں وزیر اعظم عمران خان نے مسلمانوں کے اتحاد، مشترکہ ضرورتوں اور عالمی سطح پر اسلام کی سربلندی کے لئے جو باتیں اس فورم پر کی ہیں، ان کا اس کانفرنس کے اصل مقصد سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ او آئی سی ایک غیر مؤثر اور ناکام ادارہ ہے جسے سعودی عرب اپنی سفارتی ضرورتوں کے لئے استعمال کرتا ہے۔ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ دولت مند عرب ممالک عمران خان کی طرف سے حرمت رسولﷺ، مسلمانوں کو اسلاموفوبیا سے بچانے اور سائنس و تعلیم کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے بارے میں کی جانے والی باتوں پر کان دھریں گے۔
اسی لئے اس اجلاس کے اعلامیہ میں خلیج فارس میں سیکورٹی کے علاوہ فلسطین اور روہنگیا مسسلمانوں کا ذکر تو موجود ہے لیکن عمران خان کی پرزور تقریر کے باوجود کشمیر کے معاملہ کو مشترکہ اعلامیہ میں جگہ نہیں مل سکی۔ حالانکہ بھارت میں حال ہی میں نریندر مودی کی جیت اور کشمیر کے بارے میں ان کی پارٹی کے سخت گیر ایجنڈے کی وجہ سے اگر مسلمان ممالک کشمیر ی عوام سے اظہار یک جہتی کرتے تو بھارتی حکومت کو یہ پیغام دیا جا سکتا تھا کہ صرف پاکستان ہی کشمیری عوام کی آزادی اور ان پر ہونے والے مظالم پر تشویش میں مبتلا نہیں ہے بلکہ دیگر مسلمان ممالک بھی اس سوال پر اس کے ہمنوا ہیں۔
اسلامی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے اعلامیہ میں البتہ فلسطین کے مسئلہ پر تفصیل سے بات کی گئی ہے اور بیت المقدس اور گولان کی پہاڑیوں کے بارے میں واضح مؤقف اختیار کیا گیا ہے۔ اجلاس نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کرنے والے ملکوں کا بائیکاٹ کرنے کی بات بھی کی ہے اور گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل کا حصہ ماننے پر امریکی فیصلہ کو مسترد کیا گیا ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان سمیت بیشتر اسلامی ممالک اپنے معاملات اور پالیسیوں کے حوالے سے امریکہ کے دست نگر ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہی دیرینہ امریکی روایت توڑ کر امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن سعودی عرب اس کے باوجود اپنے ’دفاع‘ کے لئے امریکہ کی طرف دیکھتا ہے اور امریکی اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ اس صورت میں او آئی سی کے اعلامیہ میں درج کیے گئے الفاظ کی وقعت و اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
اجلاس کے دوران اس کے مقصد اور ایجنڈے سے برعکس عمران خان کی تقریر کے دو مقاصد ہو سکتے ہیں اور شاید وہ دونوں ہی کسی حد تک حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہوں۔ اس کا ایک مقصد پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اس اصول کو واضح کرنا ہو سکتا ہے کہ وہ سعودی عرب اور ایران کے تنازعہ میں فریق بننے سے گریز کرنا چاہتا ہے۔ اس لئے عمران خان نے اسلامی دنیا کو درپیش عمومی مسائل پر گفتگو کے ذریعے بات کو سمیٹنے کی کوشش کی۔ اس کا دوسرا مقصد کانفرنس کے شرکا کی بجائے پاکستانی عوام کو مخاطب کرنا بھی ہو سکتا ہے۔ تاکہ وہ ملک میں اپنی حکومت کے خلاف بڑھتی ہوئی ناپسندیدگی کا مداوا کرسکیں۔
تحریک انصاف کی حکومت معاشی پالیسیوں کے حوالے سے شدید دباؤ میں ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ایک روز پہلے ہی تیل کی مصنوعات میں مزید ہوشربا اضافہ عام لوگوں کی مالی مشکلات کو دو چند کر رہا ہے۔ ایسے میں عمران خان نے حرمت رسول ﷺ، اسلامو فوبیا اور مسلمانوں میں تعلیم اور سائنسی تحقیق کی کمی کا مقدمہ پیش کر کے پاکستان میں اپنے حامیوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ تمام مسلمانوں کے لیڈر ہیں اور پاکستان کے وزیر اعظم کے طور پر اہم ملی مسائل کو اجاگر کرکے اسلامی دنیا کی قیادت کرنے کا حق ادا کررہے ہیں۔
اسی طرح مسلمانوں کے خلاف مغرب میں پھیلنے والی نفرت کا ذکر، اسلام اور دہشت گردی کی بحث میں دہشت گردی کا کوئی عقیدہ نہیں ہوتا جیسا گھسا پٹا نعرہ اور حرمت رسول ﷺ کے لئے کام کرنے کی ضرورت پر زوردے کر انہوں نے ضرور پاکستانی سامعین کے دل موہ لئے ہوں گے۔ تاہم ان کی یہ تقریر میزبان شاہ سلمان کے ایجنڈے کی تکمیل نہیں تھی۔ جس کی وجہ سے سعودی عرب اس سے بہت زیادہ مسرور نہیں ہؤا ہوگا۔
پاکستان عالمی سفارتی منظرنامہ میں حمایت اور معاشی امداد کے لئے سعودی عرب کے تعاون کا محتاج رہتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے کئی لاکھ شہری سعودی عرب میں کام کرتے ہیں۔ پاکستان خارجہ پالیسی کے حوالے سے خواہ غیر جانبداری کا اعلان کرتے ہوئے یہ کہتا رہے کہ وہ ایران اور سعودی عرب کے تنازعہ میں فریق نہیں ہے لیکن عملی طور سے پاکستان سعودی مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے او آئی سی کے اجلاس میں اپنی پہلی تقریر میں درد مندانہ اور جذباتی اندز میں مسلمانوں کی بے بسی کی تصویر کھینچنے کی ضرور کوشش کی ہے اور او آئی سی سے اسلامو فوبیا اور حرمت رسول ﷺ کے حوالے سے زیادہ مؤثر حکمت عملی اختیار کرنے کی اپیل کی ہے۔ لیکن وہ یمن کے خلاف سعودی عرب کی مجرمانہ جنگ جوئی پر ایک لفظ بھی زبان پر نہیں لاسکے اور نہ ہی ایران کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے اس کے ساتھ بات چیت کے ذریعے تنازعات کا حل تلاش کرنے کی بات کرنے کا حوصلہ کر سکے ہیں۔
پاکستان اپنی سفارتی، معاشی اور سیاسی مجبوریوں کے ساتھ ’غیر جانبدار‘ خارجہ پالیسی اختیار کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا لیکن غیر جانبداری کے گمان میں وہ قریب ترین حلیف ملکوں کے ساتھ فاصلہ اور بد اعتمادی ضرور پیدا کرتا رہتا ہے۔ امریکہ اور سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں پاکستان کی یہی حکمت عملی اس کی موجودہ مشکلات میں اضافہ کا سبب بنتی رہی ہے۔ امریکہ کے ساتھ حقانی نیٹ ورک اور پراکسی جنگ کرنے والے عسکری گروہوں کے خلاف کارروائی کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی غیر واضح رہی ہے۔
نہ ان گروہوں کی ضرورت کو تسلیم کرنے کا حوصلہ کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان سے مکمل قطع تعلق کے ذریعے اپنی حکمت عملی واضح کی جاتی ہے۔ اسی طرح پاکستان نہ پوری طرح سعودی کیمپ میں شامل ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی کوتاہیوں کی نشاندہی کرسکتا ہے۔ اس لئے کوئی ملک پاکستان کو اگر دشمن نہیں تو دوست بھی نہیں سمجھتا۔
وزیر اعظم عمران خان کی تقریر مسلمان امہ کے ناقابل عمل اور فرسودہ تصور پر استوار تھی۔ یہ تصور جدید سفارت کاری اور بین الملکی تعلقات میں غیر متعلق ہوچکا ہے۔ اب تمام ممالک اپنی قومی اور علاقائی ضروریات کی بنیاد پر تعلقات استوار کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے اپنے طور پر سخت گیر اسلامی نظام پر عمل کرنے والے سعودی عرب اور ایران جیسے ممالک بھی بھارت سے قریبی تعلقات میں فروغ کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ کیوں کہ اس بڑے ملک کے ساتھ ان کے اقتصادی مفادات وابستہ ہیں۔
ان حالات میں اسلامی شناخت کی بنیاد پر پاکستان کو دنیا میں ممتاز کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اب یہ تسلیم کرنے کا وقت ہے کہ قومی سیاست اور سفارت کا عقیدہ یا مذہب سے تعلق استوار کرنا قومی سلامتی اور مفادات پر مفاہمت کے مترادف ہوگا۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ