بھارت کے کرکٹ کنٹرول بورڈ نے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل سے درخواست کی ہے کہ اس کی ٹیم کے وکٹ کیپر اور سابق کپتان مہندر سنگھ دھونی کو اپنے دستانوں پر بھارتی فوج کا ’بلیدان بیج‘ استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔ یہ بیج بدھ کے روز ورلڈ کپ میں جنوبی افریقہ کے درمیان پہلے میچ کے دوران یہ بیج دھونی کے دستانوں پر ثبت تھا۔
اس معاملہ کی رپورٹ کے بعد آئی سی سی کی اسٹریٹیجک کمیونی کیشن جنرل منیجر کلیئر فورلانگ نے بتایا تھا کہ بھارت کے کرکٹ کنٹرول بورڈ سے کہا گیا ہے کہ دھونی اپنے دستانوں پر فوجی بیج استعمال نہ کرے۔ اس خبرکے سامنے آنے کے بعد بھارت میں لوگوں نے احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا۔ ٹوئٹر پر ’دھونی کیپ دی گلو‘ #Dhonikeepthegloves کا ہیش ٹیگ ٹاپ پر ٹرینڈ کر رہا ہے۔ فینز کے علاوہ، کرکٹ کے کھلاڑیوں، عام شہریوں اور حکومتی اور اپوزیشن کے سیاست دانوں نے مطالبہ شروع کیا ہؤا ہے کہ انٹر نیشنل کرکٹ کونسل اپنی وارننگ کو واپس لے اور مہندر دھونی کو آئیندہ میچوں میں بھی فوجی بیج والے دستانے پہننے کی اجازت دی جائے۔
یہ ہنگامہ برپا کرنے والے بھارت کے سب لوگ حالیہ انتخابات کے نتیجہ میں سامنے آنے والی قوم پرستی اور ’مہان بھارت‘ کے جذبہ سے سرشار ہیں۔ اس کے علاوہ وہ فوج کو پاکستان سے دشمنی نبھانے کی طاقت ور علامت بھی سمجھتے ہیں۔ انتخابات میں وزیر اعظم نریندر مودی کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ ہندوستان میں بڑھتی ہوئی ہندو انتہاپسندی کے علاوہ پاکستان کے خلاف نفرت کی مہم کو بتایا جاتا ہے۔ جسے بی جے پی نے اپنے بے پناہ مالی وسائل کے ساتھ کامیاب پروپیگنڈا کے لئے استعمال کیا اور عام شہریوں کو یہ باور کروایا کہ مودی اور اس کی پارٹی کی قیادت میں ہی بھارت ہندو اکثریت کے خوابوں کی تکمیل کر سکتا ہے۔
بھارت میں ہندو قوم پرستی کو اس قدر قوت دی گئی ہے اور عام لوگوں کو اس منفی احساس میں یوں مبتلا کر دیا گیا ہے کہ اب کرکٹ جیسے کھیل کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کو بھی جائز اور درست رویہ سمجھا جا رہا ہے۔ بھارتی حکومت اور دیگر سیاست دان کسی غور و فکر کے بغیر بڑی ڈھٹائی سے یہ مطالبہ سامنے لائے ہیں کہ آئی سی سی اپنے ضابطہ اخلاق اور کھیلوں کے مسلمہ عالمی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر اس کے کھلاڑیوں کو جنگ جوئی پر مبنی بیج استعمال کرنے کی اجازت دے۔
اگر بھارتی بورڈ کی مالی حیثیت اور انٹرنیشنل کرکٹ کونسل میں اس کے اثر و رسوخ کی وجہ سے آئی سی سی کے کارپرداز اور فیصلہ کرنے والے ادارے اس بھارتی دباؤ کو قبول کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں تو یہ کرکٹ کے علاوہ کھیلوں کی بنیادی اقدار کو دفن کرنے کے مترادف ہوگا۔ اس کے بعد کھیل کو خیر سگالی کے فروغ، باہمی دوستی اور افہام و تفہیم عام کرنے کے لئے استعمال نہیں کیا جائے گا بلکہ کھیل کا میدان بھی میدان کارزار میں تبدیل ہو جائے گا۔ جہاں کھلاڑی میچ جیتنے یا ہارنے کے بعد ایک دوسرے پر حملہ آور ہو سکیں گے۔
بھارتی کرکٹ کنٹرول بورڈ بڑے ملک کا نمائندہ ہونے کے علاوہ اور انڈین کرکٹ لیگ کی فقید المثال کمرشل کامیابی کی وجہ سے دنیا کا مالدار ترین بورڈ سمجھا جاتا ہے۔ اس نے اپنی اس حیثیت کو آئی سی سی کی فیصلہ سازی پر اثر انداز ہونے کے لئے بھرپور انداز میں استعمال کیا ہے۔ بھارتی نمائندے اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ بھارتی بورڈ نے کرکٹ کو متعدد نئے ممالک تک فروغ دینے کے منصوبوں اور آئی سی سی کے ارکان کی تعداد میں اضافہ روکنے کے لئے ہر طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔ تاکہ نئے ممالک کرکٹ کونسل کا حصہ بن کر بھارتی بورڈ کے اثر و رسوخ کو محدود نہ کرسکیں۔
یہ معاملات اگر صرف کھیل کی سیاست اور بھارتی کرکٹ کنٹرول بورڈ کی انٹرنیشنل کرکٹ کو جائز یا ناجائز طور سے کنٹرول کرنے کی خواہش تک ہی محدود رہتے تو بھی اسے قبول کیا جا سکتا تھا اور یہ توقع کی جا سکتی تھی کہ دوسرے ممالک دھیرے دھیرے بھارتی بورڈ کو عقل کے ناخن لینے اور کرکٹ کے فروغ و بہتری کے لئے اپنی ہٹ دھرمی کو ترک کرنے پر آمادہ کرلیں گے۔ لیکن اس معاملہ کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ بھارتی حکومت کرکٹ اور دیگر کھیلوں کو قومی سیاسی مقاصد اور خاص طور سے پاکستان دشمنی کے لئے استعمال کررہی ہے۔
کرکٹ کنٹرول بورڈ کو آئی سی سی کے قواعد کے مطابق خود مختار اور سیاست سے علیحدہ ادارہ ہونا چاہیے۔ حکومت کو اس کے معاملات پر اثر انداز ہونے کا حق نہیں ہے۔ لیکن بھارتی حکومت کا رویہ ان اصولوں کے برعکس ہے۔ کرکٹ بورڈ کے علاوہ کھیلوں کے دیگر اداروں کو بھی سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
مہندر دھونی نے 5 جون کے میچ میں فوج کا جو ’بلیدان بیج‘ استعمال کیا ہے، وہ بھارتی فوج کی اسپیشل فورسز کے پیرا شوٹ رجمنٹ کا خصوصی نشان ہے۔ اس میں ہندی زبان میں ’بلیدان‘ یا قربانی کا لفظ کندہ ہونے کے علاوہ خنجر کی علامت بھی بنی ہوئی ہے۔ اب بھارت اس جنگجویانہ قسم کے بیج کو ٹیم کی یونی فارم کا حصہ بنانے کی خواہش کر رہا ہے۔ دھونی کو 2011 میں مذکورہ رجمنٹ کا اعزازی لیفٹیننٹ کرنل بنایا گیا تھا۔ بعد میں 2015 میں انہوں نے اس رجمنٹ کے ساتھ تربیتی کورس بھی کیا تھا۔ اصولی طور پر کسی عام شہری کو یہ فوجی بیج استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے لیکن اعزازی عہدہ کی وجہ سے مہندر دھونی کو خاص طور سے یہ استحقاق دیا گیا ہے۔ اب بھارتی حکومت بہکے ہوئے عوامی جذبات کا سہارا لے کر اور کرکٹ پر اپنے ملک کے اثر و رسوخ کے گمان میں کھیل کے میدان کو جنگ کا محاذ بنانا چاہتی ہے۔
اس افسوسناک بھارتی رویہ کی جزوی ذمہ داری انٹرنیشنل کرکٹ کونسل پر بھی عائد ہوتی ہے۔ بھارتی ٹیم نے اس سال مارچ میں آسٹریلیا کے دورہ کے دوران ایک ون ڈے میچ میں فوجی یونیفارم کی کیپ استعمال کی تھی۔ اس پر پاکستان کی طرف سے شدید احتجاج کیا گیا تھا۔ لیکن آئی سی سی نے بھارت کی سرزنش کرنے کی بجائے یہ وضاحت کی کہ بھارتی بورڈ نے ٹیم کے لئے فوجی کیپ پہننے کی پیشگی اجازت لے لی تھی۔ کیوں کہ اس کا مقصد پلوامہ سانحہ کے متاثرین کے لئے فنڈ اکٹھا کرنا تھا۔
حالانکہ آئی سی سی کو اندازہ ہونا چاہیے تھا کہ پلوامہ سانحہ کے المناک پہلو اور انسانی جانوں کے ضیاع کے باوجود اس واقعہ کو بھارتی حکومت نے پاکستان کے خلاف جارحیت کا مظاہرہ کرنے کے لئے استعمال کیا تھا۔ اور انتخابی مہم کے دوران اس سانحہ کی بنیاد پر بی جے پی سیاست کرتی رہی تھی۔ بھارتی ٹیم کو پلوامہ واقعہ کی بنیاد پر فوجی ٹوپیاں پہنا کر مقابلے لئے بھیجنا انسانی خدمت کا جذبہ نہیں بلکہ بھارتی حکومت کی جارحانہ پالیسی کی نمائندگی کرنا تھا۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل اس سے پہلے ضابطہ اخلاق کی معمولی خلاف ورزی پر کھلاڑیوں کو وارننگ دینے یا پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کرتی رہی ہے۔ لیکن بھارتی ٹیم کو خالصتاً سیاسی مقاصد کے لئے فوجی یونیفارم کی کیپ استعمال کرنے کی ’اجازت‘ دے کر نہایت بھیانک مثال قائم کی جا چکی ہے۔ اسی حوصلہ پر اب بھارتی ٹیم کا ایک کھلاڑی ورلڈ کپ جیسے ایونٹ کے دوران ’خنجر بردار بیج‘ استعمال کرنے کی اجازت چاہتا ہے۔ آئی سی سی اگر اس وقت بھارتی بورڈ کے سامنے سرنگوں ہوگئی تو یہ کرکٹ کا جنازہ نکالنے اور کھیل کی سپرٹ کو دفن کرنے کے مترادف ہوگا۔
کرکٹ کھیلنے والے سب ممالک کے علاوہ کھیلوں کو انسانوں کے درمیان خیرسگالی اور امن و آشتی کا ذریعہ سمجھنے والے سب لوگوں کو بھی بھارتی بورڈ کی اس کوشش کو ناکام بنانے کے لئے متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ