پاکستان میں ایک طرف پانامہ کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے حوالے سے تنازعہ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری طرف ’’باخبر اور معتبر‘‘ صحافی اور کالم نگار ملک میں ناگزیر تبدیلی کی خبریں سامنے لا رہے ہیں۔ ان تجزیوں کے مطابق نواز شریف کو ’’فارغ‘‘ کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے اور جولائی و اگست کے درمیان یہ فیصلہ سامنے آئے گا۔ اس موقف کو ٹھوس اور درست ثابت کرنے کےلئے ایک تو یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ ماضی میں تبدیلی ہمیشہ جولائی اور اکتوبر کے درمیان ہی آئی ہے۔ گویا یہ طے ہو چکا ہے کہ آئندہ بھی جب کسی وزیراعظم کو فارغ کیا جائے گا تو وہ اقدام لازمی انہی چار ماہ میں کیا جائے گا۔ اس دلیل کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ نواز شریف کےلئے پاناما تحقیقات میں خود کو بے گناہ ثابت کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔ اس لئے اس کا منطقی انجام صرف یہی ہو سکتا ہے کہ وہ اقتدار سے محروم کر دیئے جائیں۔ لیکن جس لب و لہجہ اور طریقہ سے ملک کے سیاسی مستقبل کے بارے میں تجزیئے سامنے لائے جا رہے ہیں، اس سے یہ تاثر تقویت پکڑتا ہے کہ ملک کے وزیراعظم کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کا فیصلہ طاقت کے کسی خاص مرکز میں ہو چکا ہے۔ یعنی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کیا رپورٹ سامنے لاتی ہے اور اس مقدمہ کی سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا بینچ اس پر کیا فیصلہ صادر کرتا ہے۔ عوام کو یہ بتانے اور یقین دلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ نواز شریف کا زوال نوشتہ دیوار ہے کیونکہ کسی ’’مقتدر اعلیٰ‘‘ نے یہ فیصلہ کر لیا ہے۔
اس قسم کا رویہ اور تجزیئے نہ صرف ملک کے مسلمہ سیاسی و عدالتی نظام پر بداعتمادی کا اظہار ہیں بلکہ ان سے ان قیاس آرائیوں کو بھی تقویت ملتی ہے کہ ملک کا قانون، آئین ، پارلیمنٹ یا عدالتیں محض کٹھ پتلیاں ہیں۔ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں، عدالتیں بس انہیں نافذ کرنے کےلئے عذر خواہی کا سبب بنتی ہیں۔ اس طرح ملک میں جمہوری روایت کے برعکس لوگوں کو یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ وہ ووٹ سے لوگوں کو منتخب کرنے اور پھر انتخابات کے موقع پر ان کی جواب دہی کرنے کے خواب دیکھنا چھوڑ دیں کیونکہ ’’خفیہ طاقتیں‘‘ جنہیں عام آدمی کی تفہیم کےلئے پاک فوج بھی سمجھا اور کہا جا سکتا ہے، بدستور ملک کے سیاسی فیصلے کرنے کا اختیار اور شوق رکھتی ہے۔ اور ملک کی اعلیٰ ترین عدالت جو بظاہر آئین کی پاسداری اور سربلندی کے نام پر ملک کے وزیراعظم کے خلاف کرپشن کے الزام میں تحقیقات کروا رہی ہے ، دراصل محض ایک تماشہ گاہ ہے جہاں لوگوں کا دل بہلانے کےلئے پانامہ نام کا کھیل رچایا جا رہا ہے۔ اصل فیصلہ کہیں اور ہو چکا ہے۔ اب بس کسی طریقے سے اسے نافذ کرنے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ بلکہ ماضی کے فوجی آمروں نے چونکہ جولائی اور اکتوبر کے دوران تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا تھا، اس لئے نئی مگر فوجی روایت کی وفادار قیادت، اسی روایت کے مطابق اب جولائی اگست کی آمد کا انتظار کر رہی ہے۔
یہ کہنا تو مشکل ہے کہ ان معتبر صحافیوں کو کون یہ خبریں فراہم کرتا ہے لیکن یہ سوال تو بہرحال پوچھنا چاہئے کہ ان افواہوں کو یقین میں تبدیل کرنے کےلئے کالموں میں زور دلیل کیوں صرف کیا جا رہا ہے۔ عدالتی کارروائی کے مطابق اگر جے آئی ٹی نواز شریف اور ان کے بیٹوں کو ناقابل اعتبار بھی قرار دیتی ہے تو بھی عدالت کےلئے وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔ یہ فیصلہ بظاہر آئین کی شق 62 اور 63 کے تحت کیا جائے گا جنہیں سیاسی مباحث میں متنازعہ قرار دیا جاتا ہے۔ ان شقات کے تحت کوئی ایسا شخص جو صادق اور امین نہ ہو، وہ ملک کی اسمبلیوں کا رکن منتخب نہیں ہو سکتا۔ اس لئے نواز شریف کے مخالفین سپریم کورٹ پر ان شقات کو استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کو نااہل قرار دینے کےلئے دباؤ ڈالتے رہے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ دلیل بھی سامنے لائی جاتی ہے کہ ان شقات کے مطابق کسی کے ’’کردار‘‘ کا فیصلہ کرنے کا اختیار انتخابی عمل کے دوران الیکشن کمیشن کے زیر نگرانی کام کرنے والے افسروں کو حاصل ہوتا ہے۔ منتخب ہونے کے بعد کوئی عدالت از سر نو کسی رکن کے کردار کے چھان پھٹک کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ اس کے باوجود اگر سپریم کورٹ یہ انتہائی اقدام کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو معمول کے طریقہ کے مطابق نواز شریف کو اس فیصلہ کے خلاف اپیل کا حق حاصل ہوگا۔ یہ اپیل جے آئی ٹی کے ارکان کے تعصب اور بدنیتی کے معاملات سے لے کر ججوں کے فیصلہ اور جواز تک کے خلاف کی جا سکے گی۔ نواز شریف نے بوجوہ ابھی تک اس عدالتی عمل کے دوران اپیل یا ریویو کا حق استعمال نہیں کیا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ آئندہ بھی ایسا اقدام کرنے سے گریز کریں گے۔
یہ صورتحال سامنے آنے اور ہر سطح پر نواز شریف کی درخواست مسترد ہونے کے بعد اگر سپریم کورٹ بہرحال یہ طے کر دیتی ہے کہ نواز شریف وزیراعظم نہیں رہ سکتے تو بھی یہ کیسے طے کیا جا سکتا ہے کہ ان کے علیحدہ ہونے کی صورت میں قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی اکثریت بھی بے اثر ہو جائے گی۔ مروجہ پارلیمانی طریقہ کے مطابق پارٹی کا کوئی بھی رکن اسمبلی نیا وزیراعظم بن سکے گا۔ ایسے میں سپریم کورٹ بہرحال یہ تو نہیں کہہ سکتی کہ نواز شریف کے نااہل ہونے کی صورت میں قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی اکثریت بھی غیر موثر ہو گئی ہے۔ اور نہ ہی ایک وزیراعظم کے نااہل ہونے کو جواز بنا کر فوج کو مارشل لا لگانے اور 90 دن کے اندر انتخاب کروانے کا حق حاصل ہو جائے گا۔ اگر وہ ایسا اقدام کرتی ہے تو یہ آئین شکنی ہوگی۔ ایک سابق آرمی چیف اسی جرم میں ملوث ہونے اور اس کی پاداش میں عدالتوں کا سامنا کرنے سے بچنے کےلئے ملک سے فرار ہو چکا ہے۔ اگر موجودہ یا آئندہ فوجی سربراہ اس انجام سے عبرت حاصل نہیں کریں گے تو اس پر افسوس ہی ظاہر کیا جا سکتا ہے۔
تاہم مروجہ عدالتی، پارلیمانی اور سیاسی طریقہ کے برعکس نواز شریف کی رخصتی اور اس کے بعد 90 دن کے اندر انتخاب کی خبریں سامنے لانے والے ’’معتبر صحافیوں‘‘ سے یہ پوچھا جانا تو ضروری ہے کہ وہ کس کے اشارے پر یہ پیش گوئیاں اور تجزیئے عوام کو ہضم کروانے پر اصرار کر رہے ہیں۔ کیا نواز شریف کے حامی خود ہی میڈیا کو اس قسم کے جھوٹے پروپیگنڈا کے ذریعے استعمال کرتے ہوئے ایک ایسی صورتحال پیدا کرنا چاہتے ہیں جس میں فوج اور عدالت سے لے کر ملک کا ہر ادارہ بے توقیر اور بے اعتبار ہو جائے۔ یا یہ معتبر صحافی بھی ڈان لیکس کی طرح کسی ’’افسانے‘‘ کو حقیقت بنا کر بیچنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اخبار کی اشاعت اور ٹیلی ویژن کی ریٹنگ میں اضافہ کےلئے یہ چورن فروشی کام آ سکے۔ اگر یہ دعوے درست ہو گئے تو ان صحافیوں کو صحیح تجزیئے کرنے اور پیش از وقت خبر سامنے لانے کے نام پر اعزاز اور اعتبار کی سند بھی عطا ہوگی۔ یا پھر یہ عناصر واقعی فوج کے خفیہ مگر قدرے غیر ذمہ دار (کیوں کہ وہ ایسے خفیہ فیصلے اور حساس معلومات ان صحافیوں کے ذریعے عام کر رہے ہیں) لوگوں کی فراہم کردہ معلومات پر ان خبروں اور تبصروں کی تدوین کر رہے ہیں۔ ایسے میں تو یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ بااثر حلقوں کی ان خفیہ خبروں کو تجزیہ بنانے کی بجائے ان محب وطن اور بزعم خویش جمہوریت دوست صحافیوں کو تو عدالت عظمیٰ میں جا کر دہائی دینی چاہئے کہ کیسے کچھ خفیہ ہاتھ عدالتوں اور جمہوریت کا جنازہ نکالنے کی سازش کر رہے ہیں۔
ان تجزیہ نما خبروں کو پڑھتے ہوئے اگر ملک میں سامنے آنے والے سیاسی بیانات پر بھی نظر ڈال لی جائے تو صورتحال زیادہ واضح ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر مسلم لیگ (ن) سے تحریک انصاف کا سفر کرنے اور پھر عمران خان پر ایجنسیوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کا الزام لگاتے ہوئے پارٹی اور اسمبلی سے علیحدہ ہونے والے ممتاز لیڈر جاوید ہاشمی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پانامہ کیس وزیراعظم کے خلاف بدعنوانی کی تحقیقات کا معاملہ نہیں ہے بلکہ کسی کے اشارے پر انہیں اقتدار سے علیحدہ کرنے کی سازش ہو سکتی ہے۔ اس قسم کے بیانات کی روشنی میں اگر پیش گوئیوں سے بھرپور تبصروں اور تجزیوں کو پڑھ لیا جائے تو شاید دھندلی تصویر کچھ واضح ہو سکے۔
(بشکریہ:کاروان ۔۔ ناروے)
فیس بک کمینٹ