ملک کو اندرونی اور بیرونی محاذ پر درپیش خطرات کے باوجود جس طرح غیر اہم معاملات پر مباحث اور سیاسی بیان بازی کو شعار بنایا گیا ہے، اس کی روشنی میں یہ کہنا ضروری ہے کہ ملک کے سیاستدانوں کو اس بھنور سے نکلنے کےلئے کوئی مناسب اور قابل قبول راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ فی الوقت وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کو بنیاد بنا کر سیاسی فضا کو مکدر بنایا گیا ہے اور قومی مفادات کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے۔ 2008 سے 2013 کے درمیان اسی قسم کی گولہ باری کا نشانہ آصف زرداری اور ان کے نائبین تھے۔ آج جب نواز شریف کو قوم کا مجرم قرار دینے کےلئے آوازیں بلند ہوتی ہیں، جن میں آصف زرداری سمیت پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی آواز بھی شامل ہے ۔۔۔۔۔۔ تو ایسا کرتے ہوئے کسی کو بھی یاد نہیں رہتا کہ پانچ سال پہلے تک پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کے دو وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف اسی قسم کے الزامات کی زد میں تھے۔ اب کسی کو یاد بھی نہیں کہ اس وقت سپریم کورٹ سوئزر لینڈ کے اکاؤنٹس میں موجود جن 60 ملین ڈالرز کو ’’لوٹی ہوئی قومی دولت‘‘ قرار دے کر واپس لانے کے دعوے کرتی تھی، ان دعوؤں یا ڈالرز کے ساتھ کیا بیتی۔
یہ سوال بہرحال جواب طلب ہے کہ جب کوئی پارٹی یا لیڈر اقتدار سنبھالتا ہے، تب ہی اس کے خلاف الزامات اتنی شدت کیوں اختیار کر لیتے ہیں کہ ملک میں ان کے علاوہ کوئی آواز سنائی نہیں دیتی کہ وزیراعظم اور ان کے حواریوں یا اہل خاندان نے ملک کو لوٹ لیا ہے اور جب تک ان کا احتساب نہیں ہوگا، اس وقت تک نہ تو ملک کا نظام درست ہو سکتا ہے اور نہ عام آدمی کو انصاف مل سکتا ہے۔ آخر کوئی وجہ تو ہوگی کہ صرف برسر اقتدار لوگ ان الزامات کی زد میں ہوتے ہیں اور وہ لوگ بھی اس ہنگامے میں اضافہ کرنے کا سبب بنتے ہوئے عار محسوس نہیں کرتے جو کچھ روز قبل تک خود ایسے ہی الزامات کا سامنا کرتے رہے تھے۔ اسی حوالے سے یہ پہلو بھی قابل غور ہونا چاہئے کہ عدالتیں برسر اقتدار سیاسی لیڈروں کے احتساب کا نعرہ مستانہ بلند کرتے ہوئے ’’کسی بھی حد تک جانے‘‘ کا اعلان تو کرتی ہیں لیکن ان مقدمات کا فیصلہ کرنے یا انہیں کسی انجام تک پہنچانے میں کسی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کرتیں جو ان سیاسی لیڈروں کے خلاف قائم ہیں اور جن میں ان پر بھی اربوں روپوں کی بدعنوانی کا الزام عائد ہے، جو اب اقتدار میں نہیں ہیں۔ نہ ہی ہماری فرض شناس عدالتوں کو اپنے ان رفقا کی یاد ستاتی ہے جن پر اپنے عہدے کے دوران خود اپنے لئے یا اپنے اہل خاندان کےلئے ناجائز مراعات حاصل کرنے یا مالی مفادات اٹھانے کا الزام عائد ہوتا رہا ہے۔ وہ سارے فوجی جرنیل اور اعلیٰ سابق افسر تو دائمی استثنیٰ کے ساتھ اپنے سرکاری عہدوں سے رخصت ہوتے ہیں جو نہ صرف ملک و قوم کی دولت کو لوٹتے رہے ہیں بلکہ اس کے آئین سے کھلواڑ کرکے ملک میں جمہوریت ، شائستگی اور مہذب مواصلت کی راہ کو پامال کرنے کا سبب بنے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ پرویز مشرف آئین شکن تھا اور اس الزام کا سامنا کرنے سے بچنے کےلئے سپریم کورٹ کا ہی سہارا لے کر اس ملک سے فرار ہوا ہے۔ کوئی چیف جسٹس کبھی اس معاملہ پر سوموٹو نوٹس لے کر اپنے موجودہ یا سابقہ ساتھیوں، حکومت کے اہلکاروں یا فوجی و سیاسی لیڈروں سے جواب طلب کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
کچھ ایسا ہی معاملہ اس ملک کی تاریخ کے بدترین فوجی آمر ضیا الحق کا بھی ہے۔ بارہ برس تک ملک پر حکمرانی کے بعد عبرتناک انجام کا شکار ہونے والے اس فوجی آمر نے نہ صرف یہ کہ آئین شکنی کی، قانون کو نوک پاپوش پر رکھا، عدالتوں کی توہین کی بلکہ اپنے اقتدار کو طول دینے کےلئے ایسی مذہبی انتہا پسندی کو اس معاشرے میں راسخ کیا جس نے قوت برداشت اور ایک دوسرے کے احترام کی صدیوں پرانی روایت کو تباہ و برباد کر دیا۔ اب یہ صورتحال ہے کہ مذہب کا نعرہ بلند کرکے ہر ادنیٰ و اعلیٰ ملک میں کسی بھی قسم کی لاقانونیت کا ارتکاب کرتا ہے لیکن سیاسی و فوجی لیڈروں سے لے کر عدالتوں کے ججوں اور انتظامی عہدیداروں تک میں سے کسی کو یہ توفیق یا حوصلہ نہیں ہوتا کہ وہ ان حرکتوں میں ملوث عناصر سے باز پرس کر سکیں۔ آج دہشت گردی کی صورت میں جو کڑوا پھل اس ملک کے لوگوں کی جھولیوں میں گرتا رہتا ہے اس کا بیج ضیا الحق کی پالیسیوں نے ہی بویا تھا۔ کوئی پارلیمنٹ ، کوئی سیاستدان یا کوئی عدالت اس ملک دشمن اور قوم کے بدترین غدار کا اصل چہرہ سامنے لانے اور اسے آنے والی نسلوں کےلئے عبرت کا سامان بنانے کا حوصلہ نہیں کر سکتی۔ سوچنے اور پوچھنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ ملک کے سارے ہی آئین شکن کیوں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ آسودہ خاک ہوئے ہیں اور ان کے کالے کرتوتوں کو ریکارڈ پر لا کر کیوں اس قوم کی تاریخ کا ریکارڈ درست کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ کہنا پڑے گا کہ سیاستدانوں اور فوجی لیڈروں سے زیادہ ان ججوں کو اس سوال کا جواب دینا پڑے گا جنہوں نے ہر دور میں سیاسی معاملات کو قانون شکنی کا روپ دے کر اس وقت تک تماشہ لگایا ہے جب تک وہ شخص یا پارٹی برسر اقتدار رہی ہے۔ اس کے بعد ان سارے معاملات کو فراموش کرکے، نئے لوگوں کے خلاف نئے محاذ کھول لئے گئے۔
یہ تماشہ جاری رہنے میں کوئی ہرج نہیں ہے لیکن بدنصیبی سے نہ تو اس طرح قانون کا احترام عام ہو رہا ہے، نہ قصور واروں کو سزا ملتی ہے اور نہ ہی قومی مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔ بلکہ مسائل و مصائب کے ستائے ہوئے لوگوں کو احتساب اور جوابدہی کے نعرے لگا کر ہر دور میں ایک لولی پوپ پکڑا دیا جاتا ہے۔ آج کل اس کھلونے کا نام پاناما کیس ہے۔ اب چونکہ اس کا ڈراپ سین ہونے کا امکان ہے ، اس لئے ریمنڈ ڈیوس کی کتاب سے مباحث کے ایک نئے باب کا آغاز کر دیا گیا ہے تا کہ کھیل جاری رہے۔ نہ عوام کے مسائل پر بات ہو اور نہ ان کے حل کےلئے اقدامات کی صورت دکھائی دے۔ اب تو بات عوام کےلئے روٹی ، کپڑا ، مکان اور زندگی کی سہولت سے بڑھ کر اس قوم کے وجود اور خود مختاری کی حفاظت تک پہنچ چکی ہے۔ دن بدن مضبوط ہوتا بھارت مسلسل پاکستان کو سبق سکھانے کی بات کرتا ہے۔ ازلی سرپرست امریکہ کے دارالحکومت میں پاکستان کے خلاف الزامات کی برسات روز کا معمول ہے۔ برادر اسلامی ملک جس کی حفاظت کا اعلان وزیراعظم اور آرمی چیف تسلسل سے کرتے ہیں، اب یہ تقاضہ کرتا ہے کہ یہ فیصلہ کر لیا جائے کہ پاکستان اس کے ساتھ ہے یا اس کے دشمنوں کا دوست ہے۔ اور تو اور افغانستان جیسا ملک کہ جس کے 25 لاکھ سے زائد شہری آج بھی پاکستان کی سرزمین پر پناہ لئے ہوئے ہیں اور جس کی حفاظت کے نام پر پاکستان کو غیر محفوظ کر دیا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ اعلان کرتا ہے کہ اس کے سب مصائب کی جڑ پاکستان ہے اور وہ اس کے معاملات درست کرنے میں کوئی رول ادا نہیں کر سکتا۔
کہنے کو تو ملک کی تاریخ صرف 70 برس پرانی ہے لیکن اس ملک کی زندگی کے پہلے عشرے میں ہی جس طرح عوامی حکمرانی پر نقب لگائی گئی تھی، اسی کی بنا پر ملک میں جمہوریت کو آگے بڑھنے کا راستہ قرار دینے والے سب عناصر کے خلاف الزامات اور بداعمالیوں کی فائلیں اس ملک کے تاریک کونوں میں ذخیرہ کی گئی ہیں۔ آمریت کے ہر دور میں ان فائلوں کو جھاڑ پونچھ کر باہر نکالا جاتا ہے اور متعلقہ لوگوں کو ہمنوا بنانے کے بعد پھر سے کال کوٹھری کی نذر کر دیا جاتا ہے۔ دیانت ، امانت اور صداقت کبھی بھی پاکستانی سیاست کے رہنما اصول نہیں رہے۔ اس لئے ہر دور میں کرپشن کا پتلی تماشہ لگاتے دیر نہیں لگتی۔ یہی سیاہ ماضی سیاستدانوں کو کمزور اور فوجی جرنیلوں کو توانا رکھتا ہے۔ اس لئے اب وقت آ گیا ہے کہ ان کال کوٹھریوں میں بند فائلوں کو جلانے اور بطور قوم آگے بڑھنے کےلئے خلوص نیت سے اقدام کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ اب ضروری ہے کہ ملک کی پارلیمنٹ کوئی ایسا قانون منظور کرے اور ایسی گنجائش پیدا کی جائے کہ سیاسی خانوادوں اور شریک اقتدار رہنے والے لوگوں کو اپنا دامن صاف کرنے کا ایک موقع مل سکے۔ اس ملک میں کالا دھن سفید کرنے، ٹیکس چوری کو معاف کرنے، بینکوں سے لئے گئے اربوں کے قرضوں کو حرف غلط کی طرح مٹانے جیسے درجنوں فیصلے کئے جا چکے ہیں۔ اگر ہم اس ملک میں واقعی جمہوریت کا احیا چاہتے ہیں اور یہ مقصد ہی سب سیاسی لیڈروں کا مطلوب و منشا ہے کہ عوام کے ووٹوں سے معاملات طے ہوں، ادارے خود مختار ہوں، کوئی ایک ادارہ خواہ وہ عدالت ہو یا فوج ۔۔۔۔۔۔۔ سیاسی عمل کو متاثر کرنے کی کوشش نہ کرے تو ملک کے سیاستدانوں کےلئے عام معافی یا ایمنسٹی اسکیم کی اشد ضرورت ہے۔ اس کا کوئی طریقہ اختیار کیا جائے لیکن اس کے بعد ماضی کے داغ دھبوں کو ایجنسیوں کی کال کوٹھریوں میں محفوظ کرنے کی بجائے ہمیشہ کےلئے حافظوں سے مٹا دیا جائے۔ اس کے بعد نئے عزم سے مستقبل کی تعمیر کےلئے کام کا آغاز کیا جائے۔
ملک کے سیاستدان اور عوام کے منتخب نمائندے اگر کوئی طریقہ تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے تو وہ بدستور کال کوٹھری والے داروغہ کے سحر کا شکار رہیں گے اور کبھی احتساب کے نام پر، کبھی سب سے پہلے پاکستان کےلئے اور کبھی نیا پاکستان تعمیر کرنے کا خواب دکھاتے ہوئے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور طاقتور عناصر کے ہاتھوں بلیک میل ہونے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس عمل میں سیاستدان تو شہید یا غازی بن کر سرخرو ہوتے رہیں گے لیکن یہ ملک پاکستان جستہ جستہ دیمک لگے درخت کی طرح زوال پذیر رہے گا۔ اور کوئی نہ کوئی حسن نواز کسی نہ کسی پیشی کے بعد یہ اعلان کرتا رہے گا کہ ’’ہمارا دامن تو صاف ہے۔ بس یہ ہماری سیاست کو ختم کرنے کےلئے ڈھونگ رچایا جا رہا ہے‘‘۔
(بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے)