سابق وزیر اعظم خاقان عباسی کو نیب نے گرفتار کرلیا ہے۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے وارنٹ جاری ہو چکے ہیں اور ان کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جارہے ہیں۔ گویا اپوزیشن کے خلاف گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) خاص طور سے نشانے پر ہے۔ اسے اینڈ گیم کا نقطہ آغاز بھی کہہ سکتے ہیں۔ تاہم یہ سوال سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اینڈ گیم کیا ہے اور کیا اسے کھیلنے والوں کو حالات پر کنٹرول بھی حاصل ہے۔
مریم نواز نے آج وائس آف امریکہ کوایک تفصیلی انٹرویو میں جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے لئے اپنے عزم کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ جمہوری اقدار، میڈیا کی آزادی اور اداروں کو ان کی حدود میں رکھنے کے لئے جد و جہد جاری رکھیں گی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ’میں اداروں کے ساتھ تصادم نہیں چاہتی۔ میرا مقصد پاکستان میں قانون کی بالادستی اور جمہوری اصولوں کو مضبوط کرنا ہے‘۔ مریم نواز کے انٹرویو کو مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں کی گرفتاریوں اور سیاسی قائدین کے خلاف نیب کی مستعدی کے تناظر میں دیکھا جائے تو بعض باتیں واضح ہوتی ہیں۔
اس طرح موجودہ سیاسی چپقلش کو سمجھنے اور ان مقاصد کی تفہیم میں مدد مل سکتی ہے جن کی وجہ سے اس وقت ملک میں الزام تراشی اور پکڑ دھکڑ کے ذریعے بحران کی صورت حال پیدا کی گئی ہے۔ اس وقت یہ سوال قبل از وقت اور کسی حد تک غیر ضروری ہے کہ یہ جنگ کون جیتے گا کیوں کہ افراتفری اور بے یقینی کا ماحول تقاضہ کرتا ہے کہ یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ اس وقت میں ملک میں اقتدار کے کون سے منصوبے پر عمل ہورہا ہے اور کیا یہ سیج سجانے والے معاملات کا مکمل ادراک رکھتے ہیں۔ اور اس کھیل کے بگڑنے کی صورت میں ملک اور اس کے عوام کو کیا قیمت ادا کرنا پڑے گی۔
سابق حکمرانوں کی گرفتاریاں ہوں یا مریم نواز کے انٹرویو میں جمہوریت و آئین کے احترام اور آزادی رائے کا بیان، بظاہر یہ دونوں ہی معاملات قانون اور کسی بھی مہذب ریاست کے بنیادی اصولوں کے عین مطابق دکھائی دیتے ہیں۔ ملک کا قانون اور اسے نافذ کرنے والے ادارے جب کسی بھی شخص کے خلاف شبہ کا شکار ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ قانون شکنی کا مرتکب ہؤا ہے تو انہیں حرکت میں آنا چاہئے۔ قانون کی نگاہ میں چھوٹا بڑا، عام و خاص، حکمران یا مخالف برابر ہیں اور انہیں اپنے کئے کا جواب دینا چاہئے۔ البتہ قانون کی عملداری اس وقت مشتبہ و مشکوک ہوجاتی ہے جب ایک ہی قانون کا اطلاق مختلف لوگوں کے لئے مختلف طریقے سے ہورہا ہو۔ یا قانون و آئین کے تحت قائم ہونے والے ادارے اور ان کے سربراہان و نمائندے ان حدود سے درگزر کرنے لگیں جو ملک کا آئین ان کے لئے مقرر کرتا ہے۔
اسی طرح مریم نواز کے بیان میں کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کسی قانون کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ لیکن جب معمول کی ان سیاسی باتوں کو ملک کے ٹیلی ویژن پر نشر کرنے سے روکا جاتا ہے اور اخباروں میں شائع کرنے پر رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں تو ان باتوں کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے۔ کیوں کہ حالات کو بوجوہ غیر معمولی بنا یا گیا ہے۔ ان حالات میں جب یکے بعد دیگرے اپوزیشن لیڈروں کو گرفتار کیا جائے گا، نیب کی کارروائی کے علاوہ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان روزانہ کی بنیاد پر الزام تراشی کو اپنا شعار بنائیں گے اور اداروں کی خود مختاری کے بارے میں مسلسل سوال اٹھائے جائیں گے اور ان کا کوئی ٹھوس اور قابل اعتبار جواب میسر نہیں ہوگا تو بے چینی بھی پیدا ہوگی اور یہ پریشانی بھی لاحق ہوگی کہ بے شمار قربانیوں اور مشکل حالات دیکھنے کے بعد جو جمہوری نظام ملک میں کامیاب کرنے کی خواہش کی جا رہی ہے، کیا اس کی ناکامی ہی نوشتہ دیوار ہے۔ اور کیا اس ناکامی میں طریقہ کار کا قصور ہے یا آئینی طریقہ کو روکنے اور غیر ضروری طور سے اختیارا چکنے کی وجہ سے معاملات دگرگوں ہوتے ہیں۔
مسلم لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے اپنے تازہ انٹرویو میں اس طرف بھی اشارہ کیا ہے اور تحریک انصاف کی حکومت کو ’سویلین مارشل لا‘ سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ طریقہ براہ راست فوجی حکمرانی سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اگر یہ صورت حال واقعی موجود ہے تو مریم نواز کی یہ دلیل قابل فہم ہے۔ جب کوئی فوجی جرنیل ملک میں آئین کو معطل یا منسوخ کرکے بنیادی آزادیوں کو سلب کرتا ہے اور سول انتظام کی نمائندگی کرنے والے اداروں جن میں عدلیہ اور میڈیا شامل ہیں، پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے ریاست کی طاقت کو استعمال کرتا ہے تو سب پر یہ عیاں ہوتا ہے کہ اب قانون کی بجائے جبر کا راج ہے۔ اور رائے کی بجائے طاقت کے ذریعے فیصلے مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس طریقہ کے خلاف فوری طور پر کوئی رد عمل نہ بھی دیکھنے میں آئے تو بھی عوام میں سویلین اختیا رکو مفلوج کرنے والی طاقت کے خلاف رائے بننا شروع ہوجاتی ہے۔
اس کے برعکس اگر ملک میں بظاہر ایک آئینی جمہوری حکومت کام کر رہی ہو لیکن خود مختار آئینی ادارے کمزور پڑ رہے ہوں یا اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے لفظوں میں ’حکمرانوں کے آلہ کار‘ بنے ہوئے ہوں تو یہ صورت حال زیادہ تشویشناک اور خطرناک ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ اس میں عام لوگ یہ جاننے میں مشکل کا شکار ہوتے ہیں کہ وہ کس کی بات کا اعتبار کریں۔ جب تک فضا صاف ہوتی ہے جمہوری روایت اور بنیادی آزادیوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جاچکا ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت پر اس وقت یہی الزام عائد ہوتا ہے۔ اسی لئے عمران خان کو ’نامزد وزیر اعظم‘ کہا جاتا ہے اور اسی لئے قومی اسمبلی کے اسپیکر کسی رکن اسمبلی کو نامزد کہنے کو غیر پارلیمانی لفظ قرار دے کر اس کے استعمال پر پابندی لگاتے ہیں۔ اور وزیر اعظم کی مرضی کے آگے سر جھکاتے ہوئے زیر حراست ارکان اسمبلی کا پروڈکشن آرڈر جاری کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
حالات اگر معمول کے مطابق ہوں اور ملک کی جمہوری حکومت اپنے مینڈیٹ کے مطابق کام کررہی ہو تو وہ اس کی تصدیق پارلیمنٹ سے حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔ اپنی طاقت کے مظاہرے کے لئے ان آزادیوں کو محدود کرنے کی کوشش نہیں کرے گی جو جمہوریت کے لئے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ نہ ہی ایسی حکومت پارلیمانی اکثریت پر بھروسہ کرنے کی بجائے عسکری اداروں کے ساتھ اشتراک پر فخر کرتے ہوئے ’ایک پیج پر ہونے ‘ کو سیاسی لغت میں لازمہ بنانے کی کوشش کرے گی۔ ایسی صورت میں کرتار پور راہداری، افغان امن معاہدہ، ایران کے ساتھ سرحدوں پر دیوار بنانے کا فیصلہ یا بھارت کو افغانستان کا لینڈ روٹ دینے کی پیشکش فوج کے سربراہ نہیں کریں گے بلکہ ملک کی پارلیمنٹ میں مناسب غور و خوض کے بعد یہ فیصلے کئے جائیں گے۔
عمران خان کے برسر اقتدار آنے پر صرف ان کے پرستار اور تحریک انصاف کے حامی ہی خوش نہیں تھے بلکہ ملک کے ایسے لوگ بھی مطمئن و پر امید تھے جو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی باہمی چپقلش کے علاوہ دیگر سیاسی کرداروں کی ابن الوقتی سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ امید کی جارہی تھی کہ عمران خان سیاست کو نیا انداز دیں گے اور عوام کو درپیش مسائل حل کرنے کے لئے ٹھوس پیش رفت کریں گے۔ لیکن تحریک انصاف کی حکومت کو ابھی ایک سال بھی پورا نہیں ہؤا کہ عمران خان جمہوریت کے استحکام، بنیادی حقوق کے تحفظ، میڈیا کی آزادی اور معاشی بحالی کے کسی بھی منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ وہ اس پارلیمنٹ کو اہمیت دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں، جہاں سے اعتماد کا ووٹ لے کر وہ وزارت عظمی کی کرسی پر فائز ہوئے ہیں۔ اوّل تو وہ قومی اسمبلی میں جانا کسرشان سمجھتے ہیں اور اگر جائیں بھی تو اپنے مخالف ارکان کو عوام کے نمائندوں کی بجائے مجرم اور چور اچکے قرار دیتے ہیں۔ دنیا کی کوئی جمہوریت اپوزیشن کو مسترد کرکے کامیاب نہیں ہوسکتی۔
اس صورت حال میں ملک کا جمہوری نظام یرغمال بنا ہؤا ہے کیوں کہ پارلیمنٹ کو مؤثر بنانے کی بجائے اسے فرد واحد کی مرضی کا تابع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ موجودہ حالات میں عمران خان خود ہی وہ فرد واحد ہیں۔ وہ اپنے آپ کو اور اپنی کابینہ کو جوابدہ بنانے کی بجائے دوسروں کو قید کروانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ بجٹ کے موقع پر آرمی چیف کی تائید حاصل کر کے وہ اپنی طاقت اور اعتماد کی حقیقت بتا چکے ہیں۔ اس حقیقت کو ملک کا میڈیا اور سیاسی لیڈر بھی بخوبی جانتے ہیں۔
ملک کو اگر جمہوری طریقہ اور آئینی انتظام کے تحت چلانا ہے تو یہی سچائی اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ لیکن براہ راست اس سچائی کا سامنا کرنے اور اس سے نمٹنے کی منظم کوشش نہ کی جا رہی ہے اور نہ ہی اس کی کامیابی کی کوئی امید دکھائی دیتی ہے۔ اسی لئے آئینی انتظام کے تحت اداروں کی خود مختاری اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کا تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ کیوں کہ یہ باور کروا دیا گیا ہے کہ اقتدار تک پہنچنے کا وہی راستہ کامیابی کا زینہ ہے جو عمران خان نے اختیار کیا ہے۔ فی الوقت دوسری پارٹیوں کے لئے یہ راستہ بند ہے۔ یہ تاثر بھی عام کیا گیا ہے کہ جمہوریت اور آزادی کی بات کرنے والے سب لوگ دراصل اسی گزرگاہ تک اپنی رسائی کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔
ملک میں چند تصورات کو چند آزمودہ طریقوں سے مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس اینڈ گیم کا ایک متوقع نتیجہ شریف، بھٹو اور زرداری خاندان کا سیاست سے خاتمہ ہے۔ اندیشہ یہ ہے کہ یہ مقصد حاصل نہ کیا جا سکا یا اگر ان خاندانوں کو سیاسی طور سے ختم کرنے کے بعد حکمرانی کا راستہ ہموار نہ ہؤا تو متبادل گیم پلان کیا ہو گا؟
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)