عرفان صدیقی رہا ہوگئے۔ آصف زرداری اور فریال تالپور کے ریمانڈ میں توسیع کردی گئی۔ کوٹ لکھپت جیل میں نواز شریف کی کوٹھری سے ائیر کنڈیشنڈ اور ٹیلی ویژن ہٹانے یا نہ ہٹانے کا معاملہ ہوا میں معلق ہے۔ کوئٹہ میں ملین مارچ سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے متنبہ کیا ہے کہ اگر اگلے ماہ کے دوران حکومت نے استعفیٰ نہ دیا تو اکتوبر میں خلق خدا اسلام آباد کی طرف مارچ کرے گی۔
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے جوڈیشل کمپلیکس میں رانا ثنا اللہ سے ملاقات کے لئے پیدل جانا پڑتا ہے کیوں کہ نہ حکومت انہیں اپنے دیرینہ ساتھی سے ملنے کی اجازت دیتی ہے اور نہ ہی ان کی گاڑی کو عدالت کے احاطے میں جانے دیا جاتا ہے کیوں کہ انتہائی خطرناک ’اسمگلر‘ کے مقدمہ کی سماعت کے دوران سیکورٹی کے ایسے انتظامات ضروری ہوتے ہیں کہ پرندہ پر نہ مار سکے۔ نئے پاکستان میں قانون کی بالا دستی کا اس سے بہتر مظاہرہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ ملک کی دوسری بڑی پارٹی کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کو بھی عام لوگوں کی طرح پیدل چلنے پر مجبور کیا جائے۔
نئے پاکستان کے حکمرانوں نے قانون کو سب کے لئے مساوی کرنے کے جس ایجنڈے پر عمل شروع کیا ہے اس کے تحت استثنیٰ صرف چنیدہ مصاحبین کو حاصل ہے۔ عدالت عظمیٰ کا حکم بھی جہانگیر ترین کو وزیر اعظم ہاؤس میں امور حکومت کی نگرانی سے نہیں روک سکتا لیکن اختلاف کی سیاست کرنے والا عوام کا نمائندہ نہیں قوم کا مجرم قرار پاتا ہے۔
یوں تو نئے پاکستان میں مساوات کا بول بالا ہے لیکن اس مساوات کا دائرہ کار سیاسی اپوزیشن کا قافیہ تنگ کرنے تک محدود ہے۔ اسی طرح ملک میں جمہوریت ہے اور عوام کے انتخاب کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ایسے منتخب ارکان حکومت کا حصہ ہوں۔ ہر آنے والے دن کے ساتھ واضح کیا جارہا ہے کہ نئے پاکستان میں اپوزیشن کا ساتھ دینے والوں کو عوام کی نمائیندگی کا دعویٰ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان واشنگٹن میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف اور زرداری سے ائیر کنڈیشنڈ اور ٹی وی واپس لینے کا وعدہ کرتے ہیں کیوں کہ 80 فیصد عوام کو یہ سہولت حاصل نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ وہائٹ ہاؤس میں میڈیا ٹاک کے علاوہ، ایک تھنک ٹینک میں سوالوں کا جواب دیتے ہوئے پورے اعتماد سے دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان میں میڈیا برطانیہ اور امریکہ سے بھی زیادہ آزاد ہے بس ’اسے ذرا لگام دینے‘ کی ضرورت ہے۔
جمہوریت کا یہ سبق نہ اہل پاکستان کے لئے نیا ہے اور نہ ہی عمران خان پہلے لیڈر ہیں جو جمہوریت کو شخصی حکمرانی کا ذریعہ بنانے اور سمجھنے کی حتی الامکان کوشش کررہے ہیں۔ ایوب خان کا بنیادی جمہوریتوں کا نظام بھی ایسے ہی ارفع اصولوں سے مزین تھا اور ضیا الحق کی اسلامی جمہوریت کے بال و پر بھی کچھ اسی نوعیت کے تھے۔ یحی ٰ خان نے جب اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی اور لیڈر کے مینڈیٹ کو قبول کرنے سے انکار کیا تھا تو ان کے پیش نظر بھی ایسے ہی نیک مقاصد تھے کہ اہل پاکستان جمہوریت کی اس قسم سے متعارف رہیں اور استفادہ کریں جس میں اختلاف کی آلائش نہ ہو اور حق کی بات نہ کی جائے۔ جو دے دیا جائے اسی پر خوش رہا جائے اور کورنش بجا لاکر حکمران وقت کو تعظیم پیش کی جائے۔ اس تعظیم میں کوتاہی کی وجہ سے ہی عمران خان دنیا کے طاقت ور ترین جمہوری ملک کے ایک فورم پر میڈیا کو لگام دینے کی بات کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود میڈیا کی ’آزادی‘ پر آنچ تک نہیں آتی۔
جمہوریت اور آزادی اظہار کے اسی اصول اور ایسی ہی تفہیم کی وجہ سے علی وزیر اور محسن داوڑ فوج کے خلاف جنگ کرنے کے مجرم قرار دیے جاتے ہیں خواہ ان کا معاملہ ابھی عدالتی نظام میں زیر غور ہی کیوں نہ ہو۔ جو کوئی بھی وزیر اعظم یا ان کے پشت پناہوں کی ایسی گوہر افشانی سے اختلاف کرنے کی کوشش کرے گا، اس کی آواز بند کرنا اور اس پر تین حرف بھیجنے کا اہتمام کرنا ہی میڈیا کا بنیادی قومی فریضہ قرار پائے گا۔ اس سے انکار کرنے والے کسی بھی صحافی کی نیک نیتی، صحافیانہ قدر و قیمت اور قوم و ملک سے وفاداری پر شبہ کیا جاسکتا ہے۔ شبہ کی بنا پر اگر کسی انٹرویو کو نشر ہونے سے روکا جاتا ہے یا کسی خاص شخصیت کی رائے لینے سے منع کیا جاتا ہے تو اس سے میڈیا کی آزادی پر ضرب نہیں پڑتی بلکہ اس کی قومی شناخت مضبوط ہوتی ہے۔
پھر حیرت کی کیا بات ہے کہ مریم نواز یہ انتباہ دے رہی ہیں کہ اگر ان کی آواز روکنے کی کوشش کی گئی تو بیرون ملک محفوظ دستا ویزات اور ویڈیوز عام کردی جائیں گی۔ سوچنا چاہیے کہ مریم نواز کی یہ دھمکی عمران خان کے لئے تو نہیں ہو سکتی۔ مریم ہوں یا بلاول یا پھر مولانا فضل الرحمان، وزیر اعظم کی باتوں کا تمسخر اڑاتے ہوئے نہ تو انہیں کوئی خوف لاحق ہوتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کا لحاظ کیا جاتا ہے۔ پھر ریشمی لفظوں میں مستور اس دھمکی کا مخاطب کون ہے؟
این آر او نہ دینے کے دعویدار وزیر اعظم کی حکمت عملی کا یہ عالم ہے کہ سینیٹ میں ان کے نمائندے اور قائد ایوان شبلی فراز انہیں مولانا فضل الرحمان کے پاس چئیر مین سینیٹ صادق سنجرانی کو عدم اعتماد سے بچانے کی استدعا لے کر پہنچے جنہیں عمران خان ’ڈیزل چور‘ کا طعنہ دیتے ہیں۔ کہا گیا کہ سوال صادق سنجرانی کا نہیں بلکہ سینیٹ کی عزت کا ہے۔ کیا پوچھا جاسکتا ہے کہ قومی اسمبلی کی دھول اڑانے والی حکومت کو کیا سینیٹ کی عزت کا خیال صرف اس لئے آرہا ہے کیوں کہ وہاں اسے اکثریت حاصل نہیں ہے اور صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد دراصل موجودہ حکومتی نظام کی بنیاد سے ایک اینٹ سرکانے کے مترادف ہوگا۔ اسی لئے مولانا فضل الرحمان کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ وہ ’عمران خان یا حکومت کو کوئی این آر او نہیں دیں گے‘ ۔ سوچنا چاہیے کہ این آار او ڈاکٹرائن کو واشنگٹن کے کیپیٹل ون ایرینا میں قومی سے عالمی پلیٹ فارم پر لے جانے والے عمران خان کو بد ترین سیاسی دشمن مولانا فضل الرحمان سے صادق سنجرانی کے سوال پر ’این آار او‘ مانگنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
تحریک انصاف کی حکومت شاید پاکستان کی پہلی منتخب حکومت ہے جو بجٹ منظور کروانے کے لئے اپوزیشن کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی بجائے ایک سیمینار میں آرمی چیف کی تقریر پر تکیہ کرنا بہتر سمجھتی ہے۔ اس کے نزدیک فوج کی حمایت سیاسی بحران سے نکلنے کا بہترین راستہ ہے۔ کیوں کہ اسی وجہ سے عرب ممالک سے لے کر چین تک سے مالی بحران میں غیر معمولی اعانت حاصل کرنے میں کامیابی ملتی ہے اور اسی تھپکی کی وجہ سے ڈونلڈ ٹرمپ جیسا بددماغ اور منہ پھٹ صدر عمران خان کی دلکش شخصیت کا اسیر اور قائدانہ صلاحیتوں کا معترف ہوجاتا ہے۔
اپوزیشن نے گزشتہ برس کے انتخابات کو دھاندلی زدہ کہہ کر مسترد کرنے کے باوجود نہ اسمبلیوں کو ناکام بنانے کی کوشش کی اور نہ ہی حکومت کے ساتھ تصادم کی طرف قدم آگے بڑھایا لیکن نو دس ماہ تک تعاون اور سیاسی مفاہمت کی خواہش کو جب چوری چھپانے کی کوشش اور این آار او کی بھیک مانگنے کا طریقہ قرار دیا گیا، تب ہی اپوزیشن کی رہبر کمیٹی قائم ہوئی، صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد لائی گئی اور 25 جولائی کو یوم سیاہ قرار دیا گیا۔
تصادم کا یہ راستہ عمران خان نے خود چنا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ وہ سابقہ حکمرانوں کی شہرت، حیثیت اور مقبولیت ختم کیے بغیر نئے پاکستان کی بنیاد نہیں رکھ سکتے۔ یہ نیا پاکستان عام لوگوں کی خوشحالی، ضروریات یا ان کی آزادی سے عبارت نہیں ہے بلکہ یہ فرد واحد کی مطلق العنانیت کا اعلان نامہ ہے۔ عمران خان نے اپنے طرز عمل سے واضح کیا ہے کہ وہ اختیارات کی تقسیم اور سیاسی مفاہمت پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ ہر معاملہ میں عقل کل ہیں اور تمام مسائل کا حل ان کی زنبیل میں موجود ہے۔ تاہم یہ حل اس وقت تک کارگر نہیں ہو سکتے جب تک وہ سیاسی دشمنوں کو کیفر کردار تک نہ پہنچا دیں۔
اسی تگ و دو میں احتساب کا ترانہ انتقام کا عنوان بن چکا ہے لیکن عمران خان کو کوئی پریشانی لاحق نہیں ہے۔ انہیں منتخب سے نامزد کے نام سے پکارا جانے لگا لیکن وہ ایک پیج کی قوت کو کارگر اور ان گیڈر بھبکیوں کو چوری چھپانے کا ہتھکنڈا سمجھتے رہے ہیں۔ ان کے خیال میں وہ خود سعد اور ریاست مدینہ کے اصل وارث ہیں لیکن باقی سب گمراہ اور عوام دشمن ہیں۔ ایک پیج کو مضبوط کرنے کے لئے ہی وہ باقاعدگی سے عسکری قیادت سے ملتے ہیں اور ہمہ وقت انہیں اپنی مصاحبت میں رکھ کر خود کو ’محفوظ‘ محسوس کرتے ہیں۔ اسی لئے اب فوج کے علاوہ عمران خان نے اپنے ایک پیج پر امریکہ کو بھی شامل کرلیا ہے۔
تحریک انصاف اگر برسر اقتدار آنے کے بعد معیشت کا پہیہ جام کرنے کا سبب نہ بنتی۔ ملک میں تجارت و صنعت بے یقینی کا شکار نہ ہوتی اور اس کے پاس مشکل مالی حالات سے نکلنے کا کوئی مبسوط منصوبہ ہوتا تو شاید اپوزیشن کو بھی حکومت مخالف تحریک چلانے اور اداروں سے ’غیر جانبدار‘ رہنے کا مطالبہ کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ اب معاملات ایک ایسی بند گلی میں داخل ہوچکے ہیں جہاں سیاسی قوتوں کے درمیان حتمی شو ڈاؤن کا امکان بڑھتا جارہا ہے۔
ایسے میں گزشتہ دو اڑھائی برس کے دوران رونما ہونے والے واقعات کا سبب بننے والے ان سب اداروں اور کرداروں کو یہ سوچنے اور اس کا جواب دینے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ نوشتہ دیوار پڑھ لیا گیا تھا یا ایک بار پھر اندازوں کی غلطی اور خوش گمانیوں کی وجہ سے قوم کو اندھیرے کنویں کی طرف دھکیلا جارہا ہے؟
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ