بھارتی حکومت نے گزشتہ چند روز کے دوران مقبوضہ کشمیر میں 10 ہزا ر اضافی فوج تعینات کرنے کے علاوہ متعدد اعلانات کے ذریعے مقبوضہ ریاست میں ہیجان اور بے چینی کی کیفیت پیدا کی ہے۔ ان میں سب سے تشویشناک اقدام ریاستی حکومت کی طرف سے سیاحوں اور امرناتھ غار کے یاتریوں کو کشمیر سے فوری طور سے نکل جانے کا حکم دیا ہے۔ ریاستی حکومت نے یہ ہدایت ’دہشت گردی کے اندیشے اور امن و امان کی سنگین صورت حال ‘ کی وجہ سے جاری کی ہے۔
دوسری طرف وادی نیلم میں لائن آف کنٹرول کے پار پاکستانی زیر انتظام علاقے میں کلسٹر بموں سے حملوں اور جنگ بندی کی سنگین خلاف ورزیوں کے ذریعے پاکستان کے ساتھ تصادم میں اضافہ کیا گیا ہے۔ کلسٹر بموں کا استعمال جینوا کنونشن اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے کیوں کہ ان سے ہونے والی آتشزدگی سے انسانی جانوں خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ آئی ایس پی آر کی اطلاع کے مطابق ہفتہ کے روز آزاد کشمیر کے سرحدی علاقوں میں شہری آبادی پر کلسٹر بم حملوں میں دو شہری شہید اور گیارہ زخمی ہوئے ہیں۔ پاکستان نے اس اشتعال انگیزی کی شدید مذمت کرنے کے علاوہ واضح کیا ہے کہ ہر قسم کی بھارتی مہم جوئی کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
صورت حال پر غور کرنے کے لئے آج اسلام آباد میں وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت نیشنل سیکورٹی کمیٹی (این ایس سی ) کا اجلاس منعقد ہؤا۔ اجلاس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے علاوہ اعلیٰ فوجی اور سویلین قیادت نے شرکت کی اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے پیدا کی گئی بے چینی او ر وہاں کسی سنگین فوجی کارروائی کے اندیشوں پر غور کیا گیا۔ سرکاری طور سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق ’اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں عوام کے خلاف جارحیت، زمینی حقائق کے برعکس صورتحال کا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال، پاکستان کو اکسانے کے لیے سویلین آبادی پر کلسٹر بم پھینکنے اور اصل صورتحال سے توجہ ہٹانے کے لیے غلط خبریں پھیلانے کے علاوہ کشمیر کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ حیثیت کو تبدیل کرنے کے منصوبوں پر غور کیا گیا‘۔
پاکستان کی نیشنل سیکورٹی کمیٹی نے بھارت کی جانب سے خطے کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ایک ایسے وقت میں’انڈیا کی جارحانہ حکمت عملی‘ قابل مذمت ہے، جب پاکستان اور عالمی برادری افغان تنازعہ کے حل پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ ’ بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب ہونے کی صورت میں وہ خطرناک طریقے اپنانے کی کوشش کرتا ہےجن میں جعلی آپریشن کے دعوےبھی شامل ہیں‘۔ تاہم پاکستان کسی بھی قسم کی جارحیت کا جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کے بہادر لوگوں کی ہر ممکن سفارتی، سیاسی اور اخلاقی مدد کرتا رہے گا تاکہ وہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے تحت اپنا حق خود ارادیت استعمال کر سکیں۔ اجلاس میں بھارت کے ایسے اقدامات کی مذمت گئی جن کی وجہ سے خطے اور بین الاقوامی امن پر برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ پاکستان نے واضح کیا ہے کہ کشمیر کا معاملہ ایک طویل المدتی بین الاقوامی مسئلہ ہے جسں کا پرامن حل نکالنا ضروری ہے۔ اس لیے بھارت یہ مسئلہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرے۔
پاکستان کی طرف سے انتباہ اور مقبوضہ کشمیر میں پیدا کی گئی سنسنی خیز صورت حال کی روشنی میں اس وقت بر صغیر کے دونوں ممالک ایک بار پھر تصادم کی طرف بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق لائن آف کنٹرول کے قریب بھارتی فضائیہ کی غیر معمولی سرگرمیاں نوٹ کی گئی ہیں جس کے نتیجے میں پاک ائیر فورس کو چوکنا رہنے اور صورت حال پر نگاہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ادھر مقبوضہ کشمیر سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق وادی میں اہم تنصیبات پر حفاظتی انتظامات سخت کردیے گئے ہیں۔ کشمیر سے نکلنے کی کوشش کرنے والے لوگوں کی کثیر تعداد کے پیش نظر انڈین ریلوے نے جموں سے روانہ ہونے والی گاڑیوں پر ٹکٹوں کی پڑتال نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مقبوضہ ریاست کے شہری شدید بے یقینی اور بے چینی کا شکار ہیں ۔ دکانوں سے بنیادی ضرورت کی چیزیں خرید کر اسٹور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ پٹرولیم مصنوعات کی مانگ بڑھ جانے پر ریاستی حکومت نے علاقہ مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر پیٹرول پمپوں کو یہ مصنوعات فروخت کرنے سے منع کردیا ہے۔
بھارتی اور عالمی میڈیا میں مسلسل چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ بھارتی حکومت کے ان اقدامت کا کیا مقصد ہوسکتا ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت اپنے انتخابی وعدے کے مطابق کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے لئے اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ بھارتی آئین کے تحت کشمیری عوام کو خصوصی حقوق دیے گئے ہیں۔ ان میں غیر کشمیری باشندوں کے لئے مقبوضہ کشمیر میں املاک خریدنے پر بھی پابندی ہے۔ کشمیریوں کے حقوق ختم کرنے کا کوئی فیصلہ ریاست میں بے چینی پیدا کرے گا۔ کشمیری لیڈر اس قسم کے کسی انتہائی اقدام کے بارے میں متنبہ کرتے رہے ہیں۔ سیکورٹی بڑھانے کا مقصد ایسے کسی اعلان کے بعد پیدا ہونے والی امن و امان کی صورت حال کو کنٹرول کرنا بھی ہوسکتا ہے۔ اگرچہ بی جے پی کے بعض لیڈر اس امکان کو یہ کہہ کر مسترد کرتے ہیں کہ ’حکومت عوام کے مفاد کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کرے گی‘۔ لیکن وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے انتہا پسند وزیر داخلہ امیت شاہ عوامی مفاد کی من پسند تشریح و توضیح کرتے ہیں۔
اس حوالے سے یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ بھارتی حکومت نے جس طرح 1984 میں امرتسر کے گولڈن ٹیمپل کے خلاف مسلح کارروائی کرکے سکھوں کی علیحدگی تحریک کو کچلا تھا، اب بی جے پی حکومت، مقبوضہ کشمیر میں اسی قسم کا کوئی فوجی آپریشن کرنا چاہتی ہے تاکہ کشمیری عوام کی تحریک آزادی کو ہمیشہ کے لئے ختم کیا جاسکے۔ لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیزی کا مقصد بھی پاکستان کو دفاعی پوزیشن میں رکھنا ہے۔ تاکہ سرحد پر جھڑپوں کی آڑ میں کشمیر کی سویلین آبادی کے خلاف مجرمانہ جنگی کارروائی کو پایہ تکیل تک پہنچایا جائے۔ تاہم سری نگر یا نئی دہلی سے سرکاری طور پر اس غیر معمولی صورت حال کے بارے میں معلومات فراہم کرنے سے انکار کیا جارہا ہے۔ نچلے درجے کے عہدیداروں نے صحافیوں او رپورٹروں کے اصرار پر بتایا ہے کہ انہیں کسی بھی قسم کی معلومات فراہم کرنے یا اس موضوع پر بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ واضح طور سے حکومت کی پالیسی پراسرار فضا میں خوف اور بے چینی پیدا کرنا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی گزشتہ ماہ کے دوران امریکی صدر ٹرمپ کے اس انکشاف کے بعد شدید سیاسی دباؤ کا شکار رہے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ نریندر مودی ان سے خود کشمیر میں ثالثی کی درخواست کرچکے ہیں۔ بھارتی حکومت کے ترجمانوں نے اگرچہ لوک سبھا اور میڈیا بیانات میں صدر ٹرمپ کے دعوے کو غلط اور گمراہ کن قرار دیتےہوئے کہا تھا کہ کشمیر کے مسئلہ پر کسی ثالثی کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ معاملہ پاکستان کے ساتھ براہ راست بات چیت کے ذریعے ہی طے ہو سکتا ہے۔ اس وضاحت میں البتہ یہ قباحت موجود رہی ہے کہ مودی حکومت کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیتی ہے لیکن ٹرمپ کے بیان کے بعد اسے یہ ماننا پڑا کہ کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس معاملہ کا یہ پہلو بھی اہم ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپوزیشن کے سیاسی دباؤ کے باوجود ٹرمپ کے بیان کو مسترد کرنے کے لئے خود کوئی بیان نہیں دیا ۔ اس طرح اس تاثر کو تقویت ملی ہے کہ مودی نے کسی نہ کسی طریقہ سے صدر ٹرمپ کو کشمیر میں مصالحت کی درخواست ضرور کی تھی۔
صدر ٹرمپ نے شاید بھارتی وزیر اعظم کوسیاسی بدحواسی سے نجات دلانے کے لئے ہی دو روزقبل کشمیر کے مسئلہ پر بات کرتے ہوئے یہ وضاحت کی تھی کہ وہ ثالثی کے لئے تو تیار ہیں لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب پاکستان اور بھارت دونوں ان کو ثالث ماننے پر تیار ہوں۔ رپورٹر کے سوال پر اس بار ٹرمپ نے یہ اصرار نہیں کیا کہ مودی ان سے ثالث بننے کی درخواست کرچکے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کی طرف سے پیدا کی گئی موجودہ سنسنی خیزی کو عمران ۔ٹرمپ ملاقات کے دوران میڈیا سے کہی گئی ثالثی کی بات کے تناظر میں بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ بھارتی وزیر اعظم ، صدر ٹرمپ کے بیان کے بعد سامنے آنے والے سیاسی دباؤ کا تاثرختم کرنے اور کشمیر کے معاملہ پر خود کو ’مرد آہن‘ ثابت کرنے کے لئے وہاں فوج میں اضافہ اور غیر معمولی حالت پیدا کررہے ہوں۔
موجودہ حالات کی کوئی بھی وجہ ہو لیکن بھارتی حکومت نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ اسے کشمیری عوام کی رائے کے علاوہ ان کی بہبود اور جان و مال کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ کشمیر کو سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ایک بار پھر پاکستان کے ساتھ تصادم کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ بھارتی حکام جانتے ہیں کہ اس خطہ میں جنگ طویل المدت معاشی اور سماجی تباہی کا سبب ہوگی۔ اس کے باوجود معمولی سیاسی فائدے کے لئے جنگ کا ماحول پیدا کیا گیا ہے۔ ایسے ماحول میں کوئی معمولی غلطی بھی کسی بڑے تصادم کا باعث بن سکتی ہے۔ بھارت کو فوری طور سے اشتعال انگیزی کی پالیسی ختم کرکے امن و مصالحت کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان نے بجا طور سے اپنا دفاع کرنے اور جارحیت کا فوری جواب دینے کا اعلان کیا ہے لیکن حکومت کو تصادم کی بجائے سفارتی اور سیاسی آپشنز کی بات کرنی چاہئے۔ افغٖانستان میں امن ، امریکی حکومت کی اولین ضرورت ہے۔ پاکستان کو واشنگٹن پر واضح کرنا چاہئے کہ دوحہ مذاکرات کو بامقصد بنانے کے لئے بھارت کو اشتعال انگیزی سے باز رکھنے پر آمادہ کیاجائے۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ