لاہور کی سڑکوں پر ’جانے دو میاں صاحب جانے دو ، شہباز شریف کو آنے دو‘ کے بینر آویزاں ہونے ، انہیں ہٹانے اور ملک میں جمہوریت کے تسلسل کا راگ الاپ کر میاں شہباز شریف کو اگلا وزیر اعظم بنانے کا مشورہ دینے والے مبصرین کی تمام تر کوششوں کے باوجود وزیر اعظم نواز شریف اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ یوں تو یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے سہ رکنی بنچ کو ہی کرنا ہے جس نے جے آئی ٹی بنانے اور پھر اپنی خاص نگرانی میں اس سے ساٹھ دن کے اندر رپورٹ تیار کروانے کا اہم کام سرانجام دیا ہے ۔ یہ رپورٹ ایسی ہے کہ اسے نواز شریف کے دشمن غیر جانبدار اور حقائق پر مبنی قرار دے رہے ہیں جبکہ نواز شریف اور ان کے حامیوں کے منہ یہ کہتے ہوئے سوکھ رہے ہیں کہ یہ رپورٹ دراصل ایک سازش ہے۔ سپریم کورٹ پانچ روز تک جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مندرجات پر دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرچکی ہے لیکن ملک میں افواہوں اور قیاس آرائیوں کا طوفان برپا ہے جن میں شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کی صدا سب سے بلند ہے۔
نواز شریف سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کرنے والے اور ان سے استعفیٰ نہ دینے کی درخواست کرنے والے شروع دن سے یہ جانتے ہیں کہ وہ جتنا بھی شور مچائیں اور کیسا ہی مشورہ دیں ، نواز شریف اس وقت تک اپنے عہدہ سے استعفیٰ نہیں دیں گے جب تک عدالت انہیں باقاعدہ برطرف کرنے کا حکم جاری نہ کردے یا خدا نخواستہ کوئی ایسا سانحہ رونما نہ ہوجائے ، جو ماضی میں کئی وزرائے اعظم کو عبرت کا نشان بنا چکے ہیں۔ کیوں کہ نواز شریف کچھ اور کرسکیں یا نہ کر سکیں لیکن وہ اپنی ہٹ کے پکے ہیں۔ وزیر اعظم کے عہدے پر قائم رہنے کا فیصلہ بھی ان کی یہی ’دل نواز سی ضد ‘ ہے ، جس پر وہ بہر صورت قائم رہیں گے۔ فیصلہ محفوظ ہونے اور اس کے بعد سامنے آنے والی متفرق خبر نما افواہوں کی روشنی میں وہ اس بات کی امید کرسکتے ہیں کہ وہ بمشکل ہی سہی ، اپنے عہدے پر فائز رہیں گے اور کرپشن کا معاملہ بھی لشٹم پشٹم ویسے ہی چلتا رہے گا جیسا کہ وہ گزشتہ تیس پینتیس برس کے دوران چلتا آیا ہے کہ کوئی کچھ نہیں جانتا کہ اس بارے میں کیا طے کیا جائے۔
نواز شریف کی جگہ شہباز شریف یا اس قسم کے کسی ’شریف‘ کو وزیر اعظم دیکھنے کے خواہشمندگان کی امیدیں اس وقت جاگ اٹھیں جب متنازعہ جے آئی ٹی ۔۔۔ یعنی بیک وقت پاکستان کی تاریخ کی سب سے دیانتدار اور سازشی و بے ایمان کمیٹی ۔۔۔ نے اپنی رپورٹ کے ایک حصہ میں جانشینی کے لئے تیار کی جانے والی مریم نواز پر سپریم کورٹ سے جھوٹ بولنے اور جعل سازی کا الزام لگاتے ہوئے نواز شریف کی مشکلات میں اضافہ کیا۔ کہ اگر انہیں معزول یا ناہل قرار دیا جاتا ہے تو ان کی صاحبزادی بھی وزیر اعظم بننے کے لئے میدان میں نہیں آسکیں گی کیوں کہ وہ خود جعل سازی اور دھوکہ دہی جیسے زیادہ سنگین جرم کی مرتکب بتائی جا رہی ہیں۔ ایسے موقع پر ہی اصول پرست چوہدری نثار علی خان کو کمر درد نے آن لیا اور وہ وزیر اعظم کے خوشامدی ٹولے کے خلاف ایک بار متنبہ کرنے کے بعد ایک ایسی پریس کانفرنس کی تیاری کرنے لگے جس کے بارے میں یہ قیاس کیا جانے لگا تھا کہ چوہدری نثار اس کھیل کو پلٹ کر رکھ دیں گے۔ تاہم یوں لگتا ہے کہ کھیل چوہدری نثار کے چال چلنے سے پہلے ہی پلٹا جا چکا تھا کہ پہلے کمر درد نے اتوار کو پریس کانفرنس سے روک لیا اور اب لاہور کے دھماکہ کے بعد وہ دہشت گردوں کو پکڑیں یا سیاسی بیان بازی کریں۔ کون ہے جو چوہدری صاحب کے اس دانشمندانہ فیصلہ کو غلط قرار دے۔
اس دوران مریم نواز کے گھیرے میں آنے کے بعد شہباز شریف جمہوریت کے واحد کھیون ہارے کے طور پر سامنے آئے تھے اور امید تھی کہ چوہدری نثار کی پریس کانفرنس سے معاملات مزید واضح ہو جائیں گے۔ کیوں کہ چوہدری صاحب شہباز شریف کے پکے دوست ہونے کے علاوہ ان قوتوں کے بھی گہرے دوست ہیں جو بہت سے لوگوں کے خیال میں اب بھی اصل سیاست کرتی اور سیاسی بساط پر مہرے چلتی ہیں۔ اسی لئے چوہدری صاحب کی ناراضگی کے اعلان اور تردید کے بعد ان کی پریس کانفرنس سے بہت امیدیں وابستہ کی جا رہی تھیں۔ لیکن اب یہ پریس کانفرنس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی ہو چکی ہے تو جمہوریت کی حفاظت اور تسلسل کے لئے شہباز شریف کو وزیر اعظم بنا دیکھنے والوں کو پھر سے غیر یقینی کا شکار ہونا پڑا ہے۔
بات چونکہ اب بھی وہیں موجود ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ سے ہی پتہ چلے گا کہ نواز شریف کا کیا بنے گا، اس لئے ابھی اس سوال کا جواب بھی کسی کے پاس نہیں ہے کہ کون بنے گا وزیر اعظم ۔۔۔
فیس بک کمینٹ