ٹیلی ویژن اسٹوڈیو میں فوجی بوٹ لانے کا واقعہ پرانا ہو چلا۔ اس ملک و قوم پر بلاؤں کا سیلاب کچھ یوں وارد ہو ا ہے کہ اگلے طوفان کی تیاری میں، جانے والے سانحہ کو یاد کرنا یا اس کی خبر رکھنا ممکن ہی نہیں رہتا۔ اسے قومی بے حسی کا نام بھی دیا جاسکتا ہے لیکن حقیقت مگر یہ ہے کہ بے حس ہوئے بغیر سانس لینا دشوار ہوجائے۔ اور سب جانتے ہیں کہ اصول، غیرت یا بیانیہ سے بڑھ کر زندگی کی گاڑی کو کھینچنا ضروری ہوتا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی لندن پدھاری قیادت نے جب غیرمشروط طور سے اپنوں اور پرایوں سے کوئی حجت یا صلاح کئے بغیر سروسز ایکٹ یا افواج پاکستان کے سربراہان کی تقرری و توسیع کے قانون کو منظور کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو ساری ہاہا کار کے باوجود اس کا مقصد دراصل زندگی کی ڈور کو کھینچتے رہنا تھا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ نہ کیاجائے کہ اس قانون کی حمایت نہ کرنے کی صورت میں نواز شریف یا مریم نواز کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوجاتا لیکن وہ سیاست کے اس پودے کو پروان نہ چڑھا سکتے جس کے لئے انہوں نے ساری زندگی بسر کردی۔ سیاست ان لیڈروں کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ وہ سیاست نہ کریں تو شاید انہیں سانس لینے میں بھی دشواری محسوس ہو۔ جب یہ دکھائی دینے لگے کہ زندگی بھر کے اس مشغلے کو جاری رکھنے کا معاوضہ صرف ایک چٹکی سیندھور ۔۔۔ معاف کیجئے ایک خامشی یا خاموشی سے تائید ہے تو کون ظالم ہے جو اسے بھاری قیمت کہہ کر زندگی بھر کی کمائی کو ضائع کرنے پر آمادہ ہوجائے گا۔
سابق صدر، سابق آرمی چیف، حال آئین شکنی کے الزام میں سزا یافتہ پرویز مشرف سے ایک قول منسوب ہے کہ فوجی کے طور پر ان کی وردی ان کی کھال بن چکی ہے۔ وہ اس سے علیحدہ نہیں ہوسکتے۔ سیاست ہمارے لیڈروں کے لئے کھال سے بھی زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ وہ تو ان کے زندہ رہنے کی وجہ ہے۔ وہ سیاست نہ کریں تو انہیں سانس نصیب نہیں ہوتا۔ نواز شریف شدید بیماریوں کے حملوں سے تو شاید جاں بر ہوجائیں لیکن سیاست سے دوری برداشت نہ کرپاتے ۔ شاید اسی لئے ایک قانون کی تائید کے عوض اگر زندگی کا یہ انعام حاصل ہورہا تھا تو اس سے کیسے انکار کیا جاسکتا تھا۔
یہی وہ باریک نکتہ ہے جسے نواز شریف کے ناقد سمجھ نہیں پارہے۔ اسی نکتہ کوآصف زرداری نے بھی شدید بیماری کی حالت میں بھانپ لیا تھا اور جب ان کے صاحبزادے اور قریبی ساتھی مجوزہ قانون میں کچھ ترامیم کے لئے پنجہ آزمائی کررہے تھے تاکہ کچھ ’فیس سیونگ‘ ہوجائے تو آصف زرداری کا پیغام آیا کہ وہی کیا جائے جو میاں صاحب نے کیا ہے ۔ کسی کو یہ بات سمجھ آئی کسی کو نہ آئی ۔ کسی نے اسے حکمت سمجھا، کسی نے حیرت کا اظہار کیا لیکن ہؤا وہی جو نواز شریف اور آصف زرادری نے چاہا۔
قانون پاس ہوگیا۔ ایک فوجی بوٹ ایک وزیر کی ہمراہی میں ٹیلی ویژن اسٹوڈیو میں آ دھمکا۔ کاشف عباسی کی یہ توجیہ اور معذرت تو سامنے آگئی ہے کہ کسی وزیر یا معزز مہمان کے سامان کی تلاشی تو نہیں لی جاسکتی لیکن یہ بات ابھی صیغہ راز میں ہی ہے کہ یہ مشہور زمانہ فوجی بوٹ فیصل واوڈا کے ساتھ کار کی نشست پر بیٹھ کر اسٹوڈیو تک پہنچا تھا، یا ان کی گود میں محو استراحت رہا تھا یا ان کے کاندھے یا سر پر سوار ہوکر ضد کرکے اسٹوڈیو تک چلا آیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ خاص فیصل واوڈا کی سرپرستی کرنے والے اس بوٹ نے ضد کی ہو کہ وہ بھی دیکھنا اور سننا چاہتا ہے کہ وزیر محترم اسٹوڈیو میں جاکر کیا گل کھلاتے ہیں اور وہ بخوشی اسے سر پر اٹھائے اسٹوڈیو آ ن پدھارے ہوں۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے پروگرام کے شرکا کے احتجاج باوجود میزبان اور مہمان وزیر کے درمیان بوٹ کی اہمیت، ضرورت، چمک اور اسے چمکانے کے طریقوں پر جو گفتگو ہوئی، وہ اب ریکارڈ کا حصہ ہے۔ جدید ٹیکنالوجی چونکہ اس قسم کے سب واقعات کو محفوظ اور عام کرنے کی صلاحیت سے مالامال ہے لہذا آنے والی نسلیں حسب ضرورت و توفیق اس قسم کے نایاب مکالمہ سے استفادہ کرتی رہیں گی۔
اپوزیشن کے سیاستدانوں نے سروسز ایکٹ ترامیم کے سلسلہ میں زندگی بھر کی کمائی ہوئی عزت سیندھور کی ایک معمولی چٹکی سمجھ کر قربان کرنے میں عافیت سمجھی تھی تاکہ وہ ایک بار پھر خسارے میں چلنے والی سیاست کی دکان چمکاسکیں اور مد مقابل کو بتا دیں کہ ان کے پاس بھی اب قابل فروخت ’مال‘ موجود ہے۔ کسی لمحاتی جوش میں ووٹ کو عزت دو اور مساوی حقوق کے بیانیے والا چورن یہ سمجھ کر فروخت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ اس کی مانگ ہوگی اور منافع بھی پہلے سے زیادہ آئے گا۔ لیکن پتہ چلا کہ ’غیر منظور شدہ‘ مال بیچنے پر تو پابندی ہے اور ایسا کرنے کی صورت میں کڑی گرفت بھی ہوتی ہے۔
بس خیریت اسی میں سمجھی گئی کہ وہی مال رکھا اور بیچا جائے جو قانونی بھی ہے اور جس کی مانگ بھی ہمیشہ رہتی ہے۔ یہ لیڈر البتہ یہ سمجھنے سے قاصر رہے یا جان بوجھ کر سمجھنے سے گریز کرگئے کہ وہ عوامی حاکمیت کا جو مال متبادل کے طور پر مارکیٹ میں لائے تھے، اس کی مانگ ضرورت سے زیادہ نکلی۔ بس اس سپلائی کو جاری رکھنے کا حوصلہ دکھانے کی ضرورت تھی لیکن فوجی بوٹوں کے سائے میں جوانی سے بڑھاپے تک پہنچنے والی سیاست دانوں کی نسل یہ قیمت چکانے پر آمادہ نہیں تھی۔ اب ایک طرف نئے مال کے گاہک وہی مطلوبہ سپلائی مانگ رہے ہیں اور عدم فراہمی پر ناراض ہیں تو دوسری طرف خوشامد، چاپلوسی، حب الوطنی اور قومی مفاد کی خود ساختہ تفہیم کی خاصیتوں سے بھرپور مال فروخت کرنے والوں کی تعداد میں اچانک اضافہ سے مارکیٹ میں سپلائی کا سیلاب آچکا ہے۔ فیصل واوڈا کا رد عمل دراصل اسی سیلاب کی ہولناکی کا ایک نمونہ سمجھنا چاہئے۔
فیصل واوڈا اور ان کے لیڈر نے تو یہ سمجھا تھا کہ ایک پیج پر ہم ہیں اور ’وہ‘ ہیں۔ کسی تیسرے کو اس طرف دیکھنے بھی نہیں دینا۔ لیکن جب فیصل واوڈا اور عمران خان کے ’انہوں‘ نے محسوس کیا کہ تبدیلی والی اس سرکار کے تلوں میں تیل نہیں ہے اور ملک کے مسائل پہلے سے کئی گنا ہوگئے ہیں ۔ اور عوام کی چیخ و پکار اس سطح تک پہنچنے والی ہے جو ایک ایسا طوفان بن سکتی ہے جس میں الٹی ہوگئی سب تدبیریں ، کچھ نہ دوا نے کام کیا ، جیسی کیفیت پیدا ہونے والی ہے تو آرمی چیف کی توسیع پر اٹھنے والے تنازعہ کو بہانہ بنا کر ہی سہی لیکن کوئی متبادل راستہ تلاش کرنے کا اشارہ دینا ضروری سمجھا گیا۔ محبوب کی محفل میں رقیب کی پذیرائی کا سماں کوئی اور برداشت کرے تو کرے فیصل واوڈا جیسابانکا نہ کرسکا۔ اس لئے محبوب ’بوٹ‘ کو بغل میں دابے اسٹوڈیو میں وارد ہوگئے ۔ اب یہ بوٹ پاکستانی سیاست کے سر پر برس رہے ہیں لیکن یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے کہ یہ جوتا ہے کس کا؟
فیصل واوڈا تو جوب نہیں دیں گے، ایک تو ان پر دو ہفتے کی زبان بندی ہے ، دوسرے وہ کیوں اس کا نام عام کریں جن کے دیکھے سے چہرے پہ رونق آجاتی ہو۔ بس قضیہ یہ ہے کہ رقیب کے چہرے پہ وہی رونق دیکھی نہیں جاتی۔ اپوزیشن نے سارا بوجھ فیصل واوڈا پر ڈالا ہے اور کہا ہے کہ یہ ہمیں نہیں ’انہیں‘ بدنام کرنے کی کوشش ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہی تو ہیں جو ملک کی حفاظت سے لے کر سیاسی انتظام تک سب کچھ دیکھنے کا کشٹ کرتے ہیں۔ اس دوران قلم گسیٹنے والے اپنے اپنے طور پر قیاس آرائیوں کا طوفان بپا کئے ہوئے ہیں۔ کسی نے بوٹ سے رائے لینے کا مشورہ بھی دیا تاکہ یہ سارا قضیہ تمام ہو لیکن یہ خواہش بھی پوری نہ ہوسکی۔ بس قیافہ شناسی اور قیاس آرائیوں کا ایک بے پایاں سلسلہ ہے جو رکنے کا نام نہیں لیتا۔
البتہ اس سارے تنازعہ میں عوام نے جو باتیں سیکھی ہیں وہ سادہ اور واضح ہیں۔ ایک تو یہ کہ ملک خداد داد میں سیاست کرنا ہو تو اداروں کو راضی رکھنا پڑتا ہے۔ دوسرے یہ کہ سب سیاست دان ایک ہی مال کے ڈیلر ہیں البتہ پراڈکٹ کا نام بدل کے عوام یعنی خریدار کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ تیسرے یہ کہ ا س ملک میں آئین و قانون سب موجود ہیں لیکن اس کا اطلاق کرنے کے لئے جس قومی یک جہتی کی ضرورت ہے، اس کا پاسبان چاند ستاروں والا ایک ہی ادارہ ہے، اس لئے اسے راضی رکھنا ضروری ہے۔ چوتھے یہ کہ بوٹ ہتک یا توہین کی علامت نہیں ہے بلکہ طاقت کا بہت ہی طاقت ور استعارہ ہے۔
اب فیصل واوڈا ہو یا نواز شریف ، آصف زرداری ہوں یا عمران خان اگر اس استعارے کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔ دل جلے اسے سیاست دانوں کے سر پر جوتے پڑنا قرار دے کر اپنے دل کی بھڑاس ضرور نکال رہے ہیں۔ لیکن اس پرچم کے سائے تلے ہم سب ایک تھے اور ایک ہی رہیں گے۔ یہ مت پوچھئے یہ پرچم کس کا ہے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ