امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز اسرائیل کے وزیر اعظم کو بغل میں کھڑا کرکے مسئلہ فلسطین حل کرنے کا ایک ایسا منصوبہ پیش کیا ہے جسے دنیا بھر میں یک طرفہ اور اسرائیل نواز منصوبے کا نام دیا جارہا ہے۔ لیکن ٹرمپ اسے اس صدی کا سب سے بڑا منصوبہ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کررہے ہیں کہ فلسطینیوں کو علیحدہ ریاست حاصل کرنے کا اس سے بہتر موقع نہیں ملے گا۔
فلسطینیوں کے علاوہ ترکی اور ایران نے جس طرح اس معاہدہ کو مسترد کیا ہے، اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ اس منصوبہ کو فلسطینیوں سے زیادہ صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی سیاسی مشکلات حل کرنے کے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ منصوبہ کے لئے متحدہ عرب امارات، مصر اور سعودی عرب کی درپردہ حمایت اور مذاکرات کے ذریعے فلسطین کا مسئلہ حل کرنے کی خواہش کا اظہار بھی یہ واضح کرتا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ منصوبہ دراصل ایک ایسا امریکی ایجنڈا ہے جس کے لئے اسے مشرق وسطیٰ میں اپنے حامی ملکوں کی مکمل اعانت حاصل ہے۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو یہ نام نہاد منصوبہ فلسطین کا مسئلہ تو شاید حل نہ کروا پائے لیکن مشرق وسطیٰ میں نئی تقسیم ، انتشار اور تصادم کا سبب ضرور بنے گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے بڑھ چڑھ کر اسرائیل نوازی کا مظاہرہ کیا ہے۔ پوری دنیا کے اعتراض اور فلسطینیوں کے زبردست احتجاج کے باوجود امریکہ نے 2017 میں اپنا سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کردیا۔ اس طرح امریکہ نے اس فلسطینی مؤقف کو مسترد کیا کہ اسرائیل کے ساتھ کسی بھی امن معاہدہ کی صورت میں بیت المقدس فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہوگا۔ دو ریاستی اصول نافذ کر نے کے لئے ٹرمپ نے اپنے داماد اور مشیر جیرڈ کشنر کی معاونت سے نیا امن منصوبہ تیار کیا ہے جسے پیش کرتے ہوئے انہوں نے اسے ’ڈیل آف دی سنچری‘ قرار دیا، فلسطینی صدر محمود عباس نے اسی لہجے میں اسے مسترد کرتے ہوئے اسے ’ صدی کا تھپڑ ‘ قرار دیا اور کہا کہ اس منصوبہ کی جگہ تاریخ کے کوڑے دان میں ہوگی۔
فلسطینی اتھارٹی نے امریکہ کی طرف سے سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کے بعد سے امریکی حکومت کے ساتھ ہر قسم کا لین دین بند کیا ہؤا ہے۔ اسرائیل میں انتہا پسند اور سخت گیر نیتن یاہو کے رویہ اور فلسطین دشمن پالیسیوں کی وجہ سے فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات 2014 سے معطل ہیں۔ نیتن یاہو نے مغربی کنارے پر یہودی بستیاں آباد کرکے اور فلسطینی علاقوں کو علیحدہ کرنے کے لئے دیوار کی تعمیر کے ذریعے امن اور راہ و رسم کا ہر امکان ختم کردیا ہے لیکن امریکہ کی شہ پر کھڑی ہونے والی اسرائیلی ریاست صورت حال کی خرابی کا ہر الزام حماس اور فلسطینیوں کی انتہا پسندی کو قرار دیتی رہی ہے۔ نیتن یاہو نے فلسطین دشمنی میں امن کی بجائے طاقت کے زور پر اپنا تسلط قائم کرنے اور فلسطینیوں کے حقوق سلب کرنے کی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ اقوام متحدہ اور پوری دنیا اس پالیسی کو مسترد کرتی ہے جس کی وجہ سے نوے کی دہائی میں دو ریاستی نظریہ کی بنیاد پر فلسطینیوں اور اسرائیلی قیادت کے درمیان اوسلو معاہدہ کے نام سے ہونے والے اتفاق رائے کو عملی طور سے ختم کیا گیا ہے۔
نیتن یاہو نے اپنے رویہ اور پالیسیوں سے یہ واضح کیا ہے کہ فلسطینی کبھی اسرائیل پر اعتماد نہیں کرسکتے۔ انہوں نے گزشتہ ایک دہائی کے دوران تسلسل سے فلسطینیوں کو حاصل ہونے والی ہر سہولت کو محدود کیا ہے اور قیام امن اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کے ہر امکان کو ختم کیا ہے۔ اب مریکہ میں ایک شدت پسند ڈونلڈ ٹرمپ کی موجودگی میں اسرائیل نے ان کے یہودی داماد کشنر کے ساتھ مل کر جو معاہدہ تیار کیا ہے اسی کو صدر ٹرمپ اپنا تاریخ ساز کارنامہ قرار دے رہے ہیں۔ اس معاہدہ کے تحت نیتن یاہو کے سارے مطالبات مان لئے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور اوسلو معاہدہ کے برعکس مقبوضہ علاقوں پر یہودی آبادیوں کو تسلیم کرلیا جائے گا بلکہ مزید فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کو دسترس حاصل ہوجائے گی۔ مشرقی بیت المقدس پر اسرائیل کا قبضہ رہے گا جسے وہ دنیا سے اپنا ’جائز‘ دارالحکومت تسلیم کروانے میں کامیاب ہوجائے گا۔ جبکہ فلسطینیوں کو مغربی بیت المقدس کے ایک چھوٹے سے علاقے میں اپنا صدر مقام بنانے کی پیشکش کی گئی ہے۔ ابو دس نام کا یہ چھوٹا سا علاقہ چاروں طرف سے اسرائیلی حصار میں ہے۔
مقبوضہ علاقوں کو ہتھیانے اور ستر برس سے اپنے وطن سے محروم کئے گئے فلسطینیوں کی خود داری اور خود مختاری کے ساتھ اس سے بڑا کوئی دوسرا مذاق نہیں ہوسکتا۔ یہ منصوبہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ڈونلڈ ٹرمپ کو سینیٹ میں مواخذہ کا سامنا ہے ۔ اگرچہ سینیٹ میں ری پبلیکن پارٹی کی اکثریت کی وجہ سے ٹرمپ کو یقین ہے کہ ان کو صدارت سے برطرف نہیں کیا جاسکتا لیکن اس مقدمہ کی کارروائی کے دوران سامنے آنے والے شواہد اور تبصروں سے جو نقصان ہورہا ہے وہ کوئی بھی امریکی لیڈر الیکشن والے سال کے دوران برداشت نہیں کرنا چاہتا ۔ یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کوئی نہ کوئی ایسا ’ڈرامہ‘ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جس سے سینیٹ میں ہونے والی کارروائی اور اس پر ہونے والے مباحث کی بجائے امریکی عوام کو دیکھنے اور سننے کے لئے کچھ نیا ملتا رہے۔ اس کے ساتھ ہی ٹرمپ کی ایک کامیاب لیڈر کے طور پر شبیہ بھی مؤثر ہو تاکہ اس سال کے آخر میں ہونے والے انتخابات میں کامیابی کی راہ ہموار ہوسکے۔ اسی لئے کبھی وہ ڈیووس میں عمران خان کو بہترین دوست قرار دیتے ہوئے افغانستان کا مسئلہ حل کروانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں اور پاکستان کو لولی پاپ کے طور پر کشمیر میں ثالثی کی پیش کش پکڑا دیتے ہیں اور کبھی فلسطینی ریاست کے قیام کی ’پیشکش‘ کے ذریعے خود کو ایسے عالمی لیڈرکے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں جس نے فلسطین جیسا دیرینہ اور سنگین مسئلہ چٹکی بجاتے حل کردیا۔
دوسری طرف نیتن یاہو ہیں جنہیں مارچ میں ایک بار پھر انتخابات کاسامنا ہے۔ اس طرح وہ اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ہوں گے جنہیں ایک سال میں تیسری بار انتخابات منعقد کروانا پڑیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ان پر بدعنوانی کے الزامات عائد ہوچکے ہیں اور اب انہیں اس مقدمہ کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ ان کی طرف سے اسرائیلی شہریوں کو اس سے بڑی خوش خبری دینے کا موقع نہیں مل سکتا کہ وہ امریکہ کے ساتھ مل کر ایک ایسا منصوبہ پیش کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جس میں ہر طرح اسرائیل کا ہی فائدہ ہے۔ وہ مقبوضہ علاقوں میں بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنائی گئی یہودی بستیوں کو تسلیم کروالے گا۔ فلسطین کے مزید علاقے ہتھیا لئے جائیں گے۔ ’خود مختاری‘ کے نام پر دی جانے والی ریاست کے بدلے فلسطینیوں کو مکمل طور سے نہتا کردیا جائے گا۔ حتی کہ ان کے زیر انتظام علاقوں کی فضائی حدود پر بھی فلسطینیوں کو کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ فلسطینی حکومت فضائیہ قائم نہیں کرسکے گی اور بیت المقدس سے دست بردار ہوجائے گی۔ نیتن یاہو بجا طور سے یہ سوچ رہے ہوں گے امریکی صدر کے ساتھ کھڑے ہوکر اس امن منصوبہ سے بڑھ کر وہ اپنی انتخابی مہم کی کامیابی کے لئے اور کیا حاصل کرسکتے تھے۔
یہ ایسا عجیب و غریب منصوبہ ہے جسے ایک فریق کو نظرانداز کرکے دوسرے اور بالادست فریق کی مرضی و منشا سے تیار کیا گیا ہے۔ اب بے وطن فلسطینیوں سے کہا جارہا ہے کہ انہیں ’خود مختار ریاست‘ دی جاسکتی ہے لیکن انہیں چند شرائط ماننا ہوں گی۔ وہ شرائط دراصل فسلطینیوں کی طرف سے اسرائیل کی غلامی قبول کرنے کا عہد نامہ ہوگا۔ اسی لئے فلسطینی لیڈروں نے فوری طور سے اس منصوبہ کو مسترد کیا ہے اور دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں اس بات پر حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے کہ کسی مسئلہ کو حل کرنے کے لئے ایک فریق کو پرے دھکیل کر کوئی معاہدہ کیسے مسلط کیا جاسکتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ٹرمپ اسے اپنے مخصوص انداز میں دونوں فریقوں کے لئے کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ’ اس منصوبہ سے فلسطینیوں کو وطن مل جائے گاا ور اسرائیل کو سلامتی کی ضمانت فراہم ہوجائے گی‘۔ حقیقی صورت حال مگر یہ ہے کہ فسلطینیوں سے کہا جارہا ہے کہ وہ اپنی آزادی اور علاقوں کو اسرائیل کے پاس گروی رکھ دیں۔ اس کے بدلے میں فلسطین کو کاغذی ریاست کے طور قبول کرلیا جائے گا۔ اور عرب ملکوں سے 50 ارب ڈالر لے کر انہیں سہولتیں فراہم کی جائیں گی اور فلسطینی پناہ گزینوں کو آباد کیا جائے گا۔
فلسطین کے دو ریاستی فارمولا کی بنیاد پر تیار کی گئی ان تفصیلی تجاویز کو البتہ صرف اسرائیل امریکی سازش قرار دے کر مسترد نہیں کیا جاسکتا ہے۔ حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں اپنے حلیفوں سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور مصر کو اس منصوبہ میں شامل کیا ہے۔ صدر ٹرمپ فلسطینیوں کو یہ پیشکش مان لینے کی صورت میں جو وسائل فراہم کرنے کا وعدہ کررہے ہیں وہ دراصل سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے وصول کئے جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک نے اس یک طرفہ منصوبہ کو امن کی طرف مثبت پیش کش قرار دیا ہے۔ اور ٹرمپ منصوبہ پر شدید تبصرہ کرنے والے فلسطینی صدر کو شاہ سلمان نے فون کرکے منصوبہ پر غور کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ کچھ ایسا ہی مشورہ اس خط میں بھی دیاگیا ہے جو صدر ٹرمپ نے محمود عباس کو لکھا ہے۔ فی الوقت فلسطینی لیڈر واضح کررہے کہ بیت المقدس اور ان کی آزادی برائے فروخت نہیں ہے۔
فلسطینی مسئلہ حل کرنے کے لئے ان نئی تجاویز کو امریکہ کے علاوہ سعودی عرب، یو اے ای اور مصر کی مکمل تائد حاصل ہے۔ صدر ٹرمپ اگر دوبارہ امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے تو وہ مشرق وسطیٰ میں اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر دولت کی بنیاد پر فلسطینی قیادت کی زبان بندی کرنے کی پوری کوشش کریں گے تاکہ اسرائیل کی سرپرستی میں ایک نئی فلسطینی ریاست قائم کرنے کا تجربہ کامیاب ہوسکے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )