سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اس بات پر ناراض ہیں کہ ملک کے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کے بعد وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی اس بات پر زور دینے کی ضرورت کیوں محسوس کی ہے کہ دنیا میں احترام پانے اور پاکستان کو درپیش مسائل حل کرنے کے لئے ملک میں انتہاپسندی پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ چوہدری نثار علی خان کے بیان کا جزوی مقصد خواجہ آصف سے اپنی ناراضگی کا حساب برابر کرنا بھی ہو سکتا ہے لیکن جب وزیر اعظم نے بھی ان کی تائید میں بیان دینا ضروری سمجھا تو چوہدری نثار علی خان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور وہ وزیر اعظم پر بھی برس پڑے۔ یوں تو وزیر داخلہ کے طور پر بھی چوہدری نثار علی خان کسی کا لحاظ نہیں کرتے تھے اور اپنے مؤقف کو درست ثابت کرنے کے لئے کئی کئی گھنٹے بلا تکان بولنے کا حوصلہ رکھتے تھے لیکن اب تو ان کے پاس بیان بازی کے علاوہ کوئی کام بھی نہیں ہے۔ تاہم جن حالات میں چوہدری نثار علی خان نے حکومت میں شامل ہونے سے انکار کیا تھا اور جس بات پر وہ اپنے 35 سال کے رفیق اور قائد نواز شریف کے مد مقابل آنے میں گریز محسوس نہیں کر رہے، ان کا حالیہ غصہ بھی اسی موضوع سے متعلق ہے۔ یعنی چوہدری نثار علی خان سمجھتے ہیں کہ فوج جو بیانیہ جاری کرتی ہے اور خارجہ و ملکی سلامتی کے حوالے سے جو پالیسی لائن اختیار کرتی ہے، ملک کے سویلین حکمرانوں کا فرض ہے کہ پیشانی پر شکن لائے بغیر اس پر پوری طرح عمل کریں۔ کیوں کہ چوہدری نثار علی خان اور ان کے ہم خیالوں کو یقین ہے کہ اس ملک میں حکمرانی کے لئے فوج اور اس کے اداروں کی براہ راست یا بالواسطہ تائد بے حد ضروری ہے۔
ملک میں بوجوہ یہ نظریہ چیلنج ہو رہا ہے۔ نواز شریف نے سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہلی کے بعد اس نقطہ نظر کو سامنے لانے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ ملک کے عوام جن سیاسی رہنماؤں کو منتخب کرتے ہیں ، انہیں سیکورٹی پالیسی سمیت ملک کی خارجہ پالیسی بنانے کا بھی اختیار حاصل ہے اور وہی یہ حق بھی رکھتے ہیں کہ وقت کی ضرورتوں اور تقاضوں کے مطابق ان میں تبدیلی کریں۔ اس نقطہ نظر کے مطابق فوج ہو یا ریاست کے دیگر ادارے، انہیں سیاسی قائدین کی متعین راہ پر عمل کرنا چاہئے۔ اصولی طور کوئی سیاست دان اور ادارہ بھی اس بات سے انکار نہیں کرتا تاہم اس کے ساتھ ہی ایک ’مگر‘ کے ساتھ بات کی تان یہیں پر ٹوٹتی ہے کہ فوج تو بہر حال ملک کی سلامتی کی ذمہ دار بھی ہے اور حالات و واقعات کو زیادہ اچھی طرح سمجھتی بھی ہے ۔ اس لئے سلامتی اور اس سے متعلق خارجہ تعلقات کا معاملہ فوج کی مرضی و منشا کے بغیر حل کرنا کیوں کر ممکن ہے۔ پریشانی کی بات البتہ صرف یہ ہے کہ یہ بحث کسی سیاسی اصول کی بنیاد پر نہیں کی جاتی بلکہ اس قسم کی بیان بازی اور خیال آفرینی کے پیچھے یہ خوف کارفرما ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے کوئی ایسا مؤقف اختیار کیا جو فوج کی حکمت عملی کے مطابق نہ ہو تو کسی بھی سیاست دان یا سیاسی پارٹی کو اس کی قیمت ادا کرنا پڑسکتی ہے۔ ملک کی سیاست سے جب تک یہ خوف دور نہیں ہوگا ، اس وقت تک نہ تو ملک کے مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں کوئی ٹھوس رائے تیار کی جاسکتی ہے اور نہ ہی سیاست دان اپنے دل کی بات کھل کر کرنے کے قابل ہوں گے۔ اب تک ملک کے سیاستدان مخالفین سے پنجہ آزمائی کرتے ہوئے اس بات کا لحاظ کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ فوج کی طرف سے آنے والے اشاروں کی درست تفہیم کریں اور فوج کو بہر صورت یہ یقین دلائیں کہ وہ ہر حال میں فوج کے مفادات کا تحفظ کریں گے۔
یہ سوال اہم ہے کہ فوج کے مفادات کیا ہیں۔ اور یہ کیوں کر قومی مفادات سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ ان دو موضوعات کو خلط ملط کرکے اس ساری بحث کو صرف اس ایک نکتہ تک محدود کردیا گیا ہے کہ ملک میں سول حکمرانی کا خواب پورا کرنے یا سیاسی راستے سے برسر اقتدار آنے کے لئے فوج کو خوش رکھنا ضروری ہے۔ اسی لئے براہ راست چوٹ کھائے ہوئے اکا دکا سیاست دان کے علاوہ ہر سیاستدان اور پارٹی یہ کوشش کرتی ہے کہ فوج کی ’گڈ بکس‘ میں اس کا نام سر فہست ہو تاکہ آئیندہ سیاسی عمل میں انہیں بھی شیروانی پہننے اور جھنڈے والی گاڑی میں گھومنے کا موقع مل سکے۔ اگر اس تناظر میں چوہدری نثار علی خان کے بیان کو دیکھا جائے تو صاف پتہ چل سکتا ہے کہ یہ مشقت قوم کا نام کو اونچا کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ اقتدار کی بندر بانٹ کے اگلے مرحلے میں خود کو حقدار تسلیم کروانے کے لئے کی جارہی ہے۔ بصورت دیگر اگر فوج اور قوم کے مفادات کو علیحدہ کیا جاسکے تو معاملات کو سمجھنا اور ان پر گفتگو کرنا آسان ہو سکتا ہے۔
تاہم یہ اسی وقت ممکن ہے جب فوج یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار ہو کہ وہ تن تنہا قومی مفادات کی نگہبان نہیں ہے اور نہ ہی قومی بیانیہ جاری کرنا، پالیسی سازی کرنا اور ریاست کی حکمت عملی تیار کرنا فوج کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ لیکن کئی دہائیوں سے فوج نے یہ بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے اور جب بھی کسی خود سر سول حکمران نے اس اصول کو ماننے سے انکار کیا تو کوئی نہ کوئی ایوب خان، یحییٰ خان، ضیا الحق یا پرویز مشرف سامنے آیا اور طویل مدت کے لئے سویلین جمہوری انتظام اور آئینی طریقہ کار کا راستہ مسدود کردیا گیا۔ ملک میں چار فوجی حکومتوں نے سیاستدانوں کو اس قدر خوفزدہ کردیا ہے کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے کے مصداق ، وہ فوج کی ناراضگی کا کوئی خطرہ مول لینے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ اسی لئے گزشتہ کئی دہائیوں سے فوج ملکی سیاسی معاملات میں براہ راست دخیل رہی ہے۔ اگر قومی اور فوج کے بطور ادارہ مفاد کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا جا سکے تو ملکی سیاست میں فوج کا رول ختم ہو سکتا ہے اور اس کی قیادت صرف اپنے ادارے کی ترویج و ترقی اور اس کی کارکردگی پر پوری توجہ مبذول کرسکتی ہے۔ لیکن قومی مفاد کی ذمہ داری بلکہ اس کی صراحت ، وضاحت اور تعین کا فرض بھی فوج نے خود ہی سنبھال لیا ہے۔ اسی لئے چوہدری نثار علی خان جیسے لوگوں کی پریشانی ہر ایسے مرحلے پر دو چند ہو جاتی ہے جب کسی سیاستدان کا کوئی بیان یا مؤقف اس مسلمہ بیانیہ کے برعکس ہو جو فوج اختیار کرتی ہے۔ ملک کے اندر صفائی یا انتہاپسندی پر قابو پانے کے سوال پر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، وزیر خارجہ خواجہ آصف اور وزیر داخلہ اقبال احسن کے بیانات دراصل اسی مسلمہ بیانیہ کو چیلنج کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
نواز شریف اس وقت فوج کے بیانیہ کے برعکس سول رہنماؤں کے بیانیہ کو سامنے لانے اور قومی پالیسیوں میں اس کی جگہ بنانے کے لئے کام کررہے ہیں۔ اسی طریقہ کار کو فوج کے ہمنوا تجزیہ نگار اور سیاستدان ’تصادم‘ قرار دیتے ہوئے بار بار متنبہ کررہے ہیں کہ ملک میں جمہوریت کا بستر گول ہو سکتا ہے یا یہ کہ نواز شریف ایک خطرناک راستے پر گامزن ہیں کیوں کہ اس طرح اقتدار تو دور ہوگا ہی لیکن اس کے ساتھ عزت سادات بھی جا سکتی ہے یعنی انہیں خود اور ان کے اہل خانہ کو نت نئے الزامات اور مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ اور اگر انہوں نے ملک میں آکر اپنے سیاسی نظریہ کو فروغ دینے کے لئے سرگرمی سے کام کرنے کی کوشش کی تو شاید انہیں جیل کی ہوابھی کھانی پڑے۔ اسی لئے حلقہ 120 میں کلثوم نواز کی کامیابی کے بعد مریم نواز کی باتوں کو تلخ اور خطرناک اشارا کہا جاتا ہے۔ اس خطرے سے بچنے کے لئے شہباز شریف نے چپ سادھ رکھی ہے اور چوہدری نثار علی خان، شاہد خاقان عباسی اور خواجہ آصف پر الزام دھرتے ہوئے نواز شریف کو یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ زمانے میں جینے کے لئے یہ اطوار درست نہیں ہیں۔
(بشکریہ:کاروان۔۔ ناروے)