پشاور کی عدالت میں توہین رسالت کے ایک ملزم کے قتل پر سرکار دربار ہی نہیں بلکہ اپوزیشن لیڈر بھی مہر بہ لب ہیں۔ البتہ نیب قانون میں ترمیم کے سوال پر زبانیں قینچی کی طرح تیز ہیں۔ وزیر اعظم کے مشیر مرزا شہزاد اکبر اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو تشویش ہے کہ اپوزیشن نیب قانون میں ترمیم کے ذریعے اپنے لیڈروں کے لئے سہولت حاصل کرلے گی۔ شاہد خاقان عباسی کی پریشانی ہے کہ حکومت فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے قوانین کے ساتھ نیب ترمیمی بل کو نتھی کرکے منظور کروانا چاہتی تھی لیکن اپوزیشن نے حکومت کی یہ ’سازش‘ ناکام بنادی۔
سینیٹ اور قومی اسمبلی میں آج ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے دو بل منظور کئے گئے جن میں اقوم متحدہ (سلامتی کونسل) ترمیمی بل مجریہ 2020 اور انسداد دہشت گردی ترمیمی بل مجریہ 2020 شامل ہیں۔ سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے لیڈر شاہد خاقان عباسی نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ یہ بل اپوزیشن کے تعاون سے منظور کئے گئے ہیں۔ اور ایک بل میں مسلم لیگ (ن) کی تجویز کردہ ترامیم بھی شامل کی گئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت اقتصادی دہشت گردی کے نام سے ایک بل بھی منظور کروانا چاہتی تھی جس کے ذریعے بنیادی شہری حقوق سلب کئے جاسکتے تھے۔ تاہم اپوزیشن کی مخالفت پر اس بل کو واپس لے لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی خواہش تھی کہ نیب بل سمیت چار قوانین کو پارلیمنٹ سے اکٹھا ہی منظور کروا لیا جائے تاہم اپوزیشن نے یہ کوشش کامیاب نہیں ہونے دی۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے اسلام آباد میں ہی ایک پریس کانفرنس میں یہی الزام اپوزیشن پر عائد کیا ہے کہ وہ ایف اے ٹی ایف سے متعلق قوانین کے ساتھ ملا کر نیب کا ایسا ترمیمی قانون منظور کروانا چاہتی تھی جس میں اس کے سب لیڈروں کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات ختم ہوجاتے لیکن شہزاد اکبر کے بقول وزیر اعظم عمران خان بدعنوانی کے سوال پر کسی قسم کی مصالحت نہیں کریں گے۔ اسی لئے نیب بل میں ترامیم کے نام پر اپوزیشن نے جو ’این آار او پلس‘ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی، اسے مسترد کردیا گیا ہے۔ ایک علیحدہ پریس کانفرنس میں وزیر اطلاعات شبلی فراز نے بھی نیب ترمیمی بل کے حوالے سے اپوزیشن پر کڑی نکتہ چینی کی ۔ ان کی تنقید کا خصوصی نشانہ پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری تھے۔ شبلی فراز کو پریشانی تھی کہ بلاول بھٹو زرداری نے کبھی کام نہیں کیا لیکن وہ غریبوں کی حمایت میں بات کیوں کرتے ہیں۔ یہ دعویٰ حیرت کا موجب ہونا چاہئے کیوں کہ تحریک انصاف کے ناقد یہی الزام عمران خان پر بھی عائد کرسکتے ہیں کہ انہوں نے کرکٹ کھیلنے اور دوسروں کے سہارے شاہانہ زندگی گزارنے کے سوا کوئی کام نہیں کیا لیکن غریبوں کی ہمدردی میں بلند بانگ دعوے اور وعدے کرنے میں ید طولی رکھتے ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے گزشتہ ہفتہ کے دوران ملتان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپوزیشن کے ساتھ مواصلت اور تعاون کی بات کی تھی اور بتایا تھا کہ قومی اسمبلی میں ایک 24 رکنی پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں ایف اے ٹی ایف اور نیب کے حوالے سے ترمیمی قوانین کے چار مسودوں پر غور کیا جائے گا۔ ان باتوں سے لگتا تھا جیسے حکومت کسی مرحلہ پر اپوزیشن کے ساتھ مفاہمت کرکے قومی بحران کی موجودہ صورت حال میں باہمی تعاون کا کوئی راستہ نکالنا چاہتی ہے۔ لیکن اس ہفتہ کے شروع میں اس کمیٹی کے اجلاس اور مشاورت کے بعد شاہ محمود قریشی سمیت سرکاری نمائیندوں نے قانون سازی کے زیر غور معاملہ پر پریس کانفرنسوں اور بیانات کے ذریعے جو ڈرامہ پیدا کیا ہے، اس میں مصالحت و مفاہمت کی ہر امید ختم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ گویا حکومت اور اپوزیشن یکساں طور سے کشیدگی، بحران اور تصادم کی موجودہ صورت حال قائم رکھنا چاہتی ہیں تاکہ قومی معاملات پر غور و خوض کی بجائے ذاتی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا سلسلہ جاری رکھا جاسکے۔
اپوزیشن عید الاضحی کے بعد آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کرچکی ہے۔ یہ کانفرنس بظاہر عمران خان کو اقتدار سے محروم کرنے کی مہم شروع کرنے کا نقطہ آغاز ثابت ہوگی۔ گزشتہ ہفتے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے ملاقات کے بعد عمران خان کی حکومت کو قومی مفاد کے لئے مہلک قرار دیاتھا۔ ان دونوں لیڈروں نے میڈیا سے گفتگو میں یہ مؤقف اختیار کیا کہ اب ہر صورت تحریک انصاف کی حکومت کو ختم کیا جائے گا۔ تاہم ماضی قریب میں ہونے والی سیاسی سرگرمیوں کی روشنی میں یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ شہباز شریف بیان بازی کی حد تک تو حکومت کے خلاف ’آخری حد‘ تک جائیں گے لیکن عملی طور سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھیں گے۔ بلاول بھٹو زرداری کی مجبوری یہ ہے کہ ایک طرف وہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم رکھنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف پنجاب میں اپنی پارٹی کا بیس نہ ہونے کی وجہ سے ، چاہنے کے باوجود کوئی عملی تحریک چلانے کے قابل نہیں ہیں۔ مولانا فضل الرحمان ضرور افرادی قوت فراہم کرنے کی پوزیشن میں ہیں لیکن گزشتہ نومبر میں ناکام آزادی مارچ کے بعد ان کی سیاسی شہرت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ وہ فی الوقت اسی ہزیمت کے زخم چاٹنے پر مجبور ہیں۔
حکومتی نمائیندوں نے نیب ترمیمی بل پر اپوزیشن کی عوامی سطح پر دھجیاں اڑا کر دراصل اپنی عوامی مقبولیت کو سہارا دینے کی کوشش کی ہے۔ وجہ کورونا ہو یا دوسرے عوامل اس کا سبب بنے ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ قومی پیداوار انحطاط کا شکار ہے جس کی وجہ سے ایک طرف مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے تو دوسری طرف بیروزگاری بڑھ رہی ہے۔ حکومت خیراتی منصوبوں کا اعلان کرکے تھک چکی ہے لیکن کسی بھی حکومت کے لئے 23 کروڑ آبادی کے ملک میں لوگوں کو سرکاری خزانے سے پیٹ بھرنے کے وسائل فراہم کرنا ممکن نہیں ہے۔ رہی سہی کسر ڈالر کی گرتی ہوئی ساکھ اور سونے کی قیمتوں میں اچانک اضافے نے پوری کردی ہے۔ ماہرین معیشت اس بات پر متفق ہیں کہ سونے کی قیمت میں اضافہ کا براہ راست اثر معاشی سرگرمیوں پر پڑتا ہے۔ سرمایہ دار سونا خرید کر اپنی دولت محفوظ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں معاشی کسمپرسی سے روزگار کے مواقع کم ہونے لگتے ہیں۔ حکومت کے پاس اس صورت حال سے نکلنے کا کوئی منصوبہ موجود نہیں ہے لہذا اپوزیشن کو للکار تے ہوئے کرپشن کے خلاف بوسیدہ مقدمہ بدستور ایجنڈے پر سر فہرست رکھ کر سیاسی ساکھ بچانے کے علاوہ کوئی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آتی۔
حکومت قومی احتساب بیورو کے حوالے سے اپوزیشن کو غیر ضروری طور پر مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کررہی ہے۔ اپوزیشن تو نیب کے موجودہ ڈھانچے اور طریقہ کار میں تبدیلی کا مطالبہ کرتی ہی رہی ہے لیکن اس حوالے سے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران سپریم کورٹ کی طرف سے سخت نکتہ چینی سامنے آئی ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں عدالت عظمی کے ایک بنچ نے نیب کی کارکردگی اور صلاحیت پر سنگین سوالات اٹھائے ہیں اور واضح کیا ہے کہ نیب کے تفتیش کار اپنا کام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور سارا بوجھ عدالتوں پر ڈالا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ اس صورت حال کو تبدیل کروانا چاہتی ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ قانون کے مطابق مقدمات کا فیصلہ 30 روز کے اندر ہونا چاہئے۔ اس مقصد سے چیف جسٹس نے 120 نیب عدالتیں قائم کرنے کا تقاضہ بھی کیا ہے لیکن حکومت اس پر کوئی خاطر خواہ اقدام کرنے میں ناکام ہے۔ اسی طرح خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق ضمانت کیس کے تفصیلی فیصلہ میں سپریم کورٹ نے نیب کو سیاسی انجینئرنگ کے لئے استعمال کرنے کا الزام لگایا ہے۔ اس فیصلہ میں نیب کے ہتھکنڈوں کو خلاف آئین ہونے کے علاوہ توہین انسانیت کے مترادف قرار دیاگیا تھا۔ اس پس منظر میں نیب قانون میں ترمیم اپوزیشن کی نہیں حکومت کی مجبوری ہے۔ حکومت نے اس سوال پر اپوزیشن کو خوش کرنے کی بجائے سپریم کورٹ کو مطمئن کرنا ہے۔ لیکن اس معاملہ کو سیاسی دنگل بنا کر لوگوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جیسے نیب کسی معتبر ادارے کے طور پر کام کررہا ہے اور اپوزیشن اس کی تقدیس کو پامال کرنا چاہتی ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دعویٰ کیا ہے کہ آج پارلیمنٹ میں منظور ہونے والے دو ترمیمی بلوں کے بعد حکومت، پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلوانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس بنیادی طور پر کسی ملک میں دہشت گردی کی بیخ کنی کے حوالے سے کئے گئے مالی اقدامات کا جائزہ لے کر ملکوں کو گرے یا بلیک لسٹ کرتی ہے۔ اس بحث میں البتہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے حوالے سے کسی بھی ملک کی عمومی کارکردگی بھی زیر بحث آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برس آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے مالی پیکیج میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف اقدامات کا ذکر موجود تھا۔
گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی میں’تحفظ بنیاد اسلام‘ کا قانون منظور کیا گیا۔ اب پشاور میں مذہبی جنونیت کی وجہ سے ایک شخص کو قتل کرنے پر سرکاری اور سیاسی سطح پر سناٹا ہے جبکہ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع پر اس معاملہ کو لے کر انتہا پسندانہ خیالات کا پرچار شدت سے جاری ہے۔ وزیر خارجہ کو ایف اے ٹی ایف کے تقاضے پورے کرنے کی بات کرتے ہوئے یہ بھی بتانا چاہئے کہ اس صورت حال کی ذمہ دار حکومت کیا واقعی ملک سے مذہبی انتہاپسندی کے بطن سے پیدا ہونے والی دہشت گردی ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ اور کیا انہیں یقین ہے اس پس منظر سے عالمی ادارے بے خبر ہیں اور چند قانونی تبدیلیوں سے پاکستان کی نیک نیتی پر یقین کرلیں گے؟
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ