پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور سابق فوجی آمر اور آل پاکستان مسلم لیگ کے صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے بیک وقت فوج کی حمایت میں مسلم لیگ (ن) کے قیادت پر نکتہ چینی کی ہے۔ پرویز مشرف تو فوج پر تنقید کو ملک سے غداری کے مترادف قرار دے رہے ہیں جبکہ عمران خان کا کہنا ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں نے عدلیہ اور فوج پر حملے بند نہ کئے تو وہ ایک بار پھر اسلام آباد کا محاصرہ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ پرویز مشرف کی طرف سے فوج کی حمایت میں کسی بھی حد تک جانا قابل فہم ہے۔ وہ چالیس برس سے زائد عرصہ تک اس ادارے سے وابستہ رہے اور دس برس تک اس کے سربراہ کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔ اسی حیثیت کا فائدہ اٹھا کر انہوں نے ملک کے اقتدار پر قبضہ کیا اور آئین کو پامال کرتے ہوئے فوجی طاقت کے زور پر پہلے چیف ایگزیکٹو اور پھر صدارت کے عہدے پر متمکن رہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر وہ اس وجہ سے بھی فوج کے ممنون احسان ہیں کہ ان کے خلاف غداری کے الزام میں مقدمہ فوج سے تعلق اور سابقہ آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کی مداخلت کی وجہ سے ہی کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکا۔ وہ نواب اکبر بگٹی اور بے نظیر بھٹو کے قتل کے مقدمات سے بھی جان بچا کر ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ وہ خود بھی اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ پاکستان کے عدالتی نظام سے ان کی جان چھڑانے میں جنرل (ر) راحیل شریف نے مدد فراہم کی تھی۔ تاہم ایک ایسے شخص کو جو خود بار بار پاکستانی قانون اور آئین کو پامال کر چکا ہو اور اس کے سامنے جوابدہ ہونے سے منکر ہو، ملک کی کسی بھی سیاسی قیادت پر فوج کے ساتھ معاملات کے حوالے سے گفتگو سے گریز کرنا چاہئے۔
پرویز مشرف 8 برس تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہنے کے باوجود کرپشن ختم کرنے یا ترقی کا راستہ ہموار کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے غلط فیصلوں کے ذریعے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف ایک ایسی جنگ میں جھونک دیا جس سے گلوخلاصی کےلئے پاک فوج تین برس سے برسر پیکار ہے اور لاتعداد قربانیاں دے چکی ہے۔ اس دوران ملک کی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ لگانا بھی ممکن نہیں ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں کئے گئے امریکہ نواز غلط فیصلوں ہی کے نتیجہ میں اس وقت پاکستان عالمی سطح پر مشکلات کا سامنا کر رہا ہے اور امریکہ کے علاوہ افغانستان اور بھارت مسلسل اس سے نالاں ہیں اور ہر فورم پر پاکستان کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پرویز مشرف یہ دعوے کرتے ہوئے برسر اقتدار آئے تھے کہ وہ سیاست میں بدعنوانی کا خاتمہ کر دیں گے اور ملکی سیاست کو نواز شریف اور بے نظیر بھٹو سے ہمیشہ کےلئے ’’نجات‘‘ مل گئی ہے۔ لیکن انہوں نے خود اس وقت بدعنوانی کے کلچر کا آغاز کیا جب نواز شریف کو بیرونی دباؤ کی وجہ سے ملک بدر کرنے کا معاہدہ کیا گیا تاکہ وہ عوام میں ابھرتی ہوئی سیاسی تحریک سے اپنے اقتدار کو محفوظ رکھ سکیں۔ اس کے بعد انہوں نے نواز شریف مخالف سیاسی عناصر اور کراچی میں الطاف حسین کی متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ سیاسی سفر کا آغاز کرکے ہر قانونی شکنی کو جائز قرار دیا۔ اس کا نقطہ عروج مئی 2007 میں کراچی میں قتل و غارت گری کی صورت میں سامنے آیا جب ایم کیو ایم نے منظم طریقے سے درجنوں شہریوں کو ہلاک کیا تاکہ پرویز مشرف کے معزول کردہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کراچی میں داخلہ نہ ہو سکیں۔ اس خوں ریزی کو پرویز مشرف نے اسلام آباد کے جلسہ میں اپنی سیاسی قوت قرار دیا تھا۔
اقتدار پر قابض رہنے کےلئے بدعنوانی عام کرنے کے علاوہ انسانی خون کو ارزاں کرنے والا شخص ایک بار پھر ملک کی رہنمائی کرنے اور اسے بدعنوان سیاستدانوں سے نجات دلانے کا اعلان کر رہا ہے اور اس مقصد کےلئے اس وقت ملک کی حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) اور فوج کے درمیان سامنے آنے والے اختلافات کو اپنے سیاسی مقاصد کےلئے استعمال کرنے کا خواہاں ہے۔ لیکن پاکستان کے عوام اتنے باشعور ضرور ہیں کہ وہ ایسے جھوٹے اور ملک کے نظام عدل سے فرار ہونے والے شخص کو اپنے ووٹ کے ذریعے اقتدار میں لانے کی غلطی نہیں کریں گے۔ اسی لئے پرویز مشرف نے اگرچہ ایک سیاسی پارٹی قائم کر رکھی ہے لیکن وہ کسی طرح فوج کے تعاون سے ایک بار پھر ملکی سیاست میں کوئی کردار تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فوج کی حمایت میں ان کی پرجوش باتیں بظاہر اسی سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہیں لیکن اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ فوج کے بعض ادارے سول حکومت کے ساتھ جاری موجودہ تناؤ میں پروپیگنڈا کےلئے اپنے سابقہ سربراہ کو استعمال کرنے کے خواہشمند ہوں۔ تاہم اس قسم کی کوشش فوج کےلئے کسی نیک نامی کا سبب نہیں بن سکتی۔ پرویز مشرف پاک فوج جیسے اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل پروفیشنل ادارے کے دامن پر بدنما داغ ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کا معاملہ بالکل دوسرا ہے۔ عمران خان کو یقین ہے کہ وہ نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کو سیاسی میدان میں غیر موثر کئے بغیر اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ان کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب کی حد تک مسلم لیگ (ن) کو چیلنج کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ اب سیاسی مبصر اس بات پر متفق ہیں کہ آصف زرداری جوڑ توڑ کی سیاست کے ذریعے بعض لوگوں کو ساتھ ملا کر تو ضرور پنجاب میں چند نشستیں حاصل کر سکتے ہیں لیکن پیپلز پارٹی 2018 کے انتخابات میں کسی خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکے گی۔ بلاول بھٹو زرداری نے ضرور اس حوالے سے عوامی رابطہ مہم اور پارٹی ورکرز کو متحرک کرنے کا کام شروع کیا تھا لیکن بوجوہ آصف زرداری نے انہیں خاموش رہنے اور اپنی تیارہ کردہ حکمت عملی کو قبول کرنے پر آمادہ کر لیا ہے۔ عمران خان کےلئے اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کی عوامی مقبولیت کو ختم کرنا بے حد ضروری ہے۔ سیاسی طور سے انہیں اس جدوجہد کا حق حاصل ہے لیکن اس مقصد کےلئے اگر وہ فوج کے بعض عناصر کا آلہ کار بنیں گے یا ایک بار پھر احتجاج، دھرنے اور زندگی معطل کرنے جیسے ہتھکنڈے آزمائیں گے تو اس کا فائدہ کسی سیاسی پارٹی یا لیڈر کو نہیں ہوگا بلکہ فوج کی طرف سے جمہوریت کو لپیٹنے کی راہ ہموار ہوگی۔ اس لئے عمران خان کو یہ غلط فہمی دور کر لینی چاہئے کہ وہ ہر مقصد سڑکوں پر احتجاج کے ذریعے حاصل کر سکتے ہیں اور یہ طریقہ کسی خوش آئند جمہوری روایت کو فروغ دے گا۔ اس قسم کے احتجاج سے شہریوں کی مشکلات، عوام کی بے چینی اور پریشانی میں اضافہ ہوگا۔ حکومت اگر جزو معطل بنتی ہے تو یہ صرف فوج کو سیاسی کردار ادا کرنے کی دعوت دینے کے مترادف ہے۔
عمران خان کےلئے بہتر ہوگا کہ وہ آئندہ انتخابات میں لوگوں کو متاثر کرنے اور زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کےلئے پارٹی کے ڈھانچے کو منظم کریں اور پارٹی منشور کو عام کرنے کی کوشش کی جائے۔ نواز شریف یا دوسرے سیاسی لیڈروں کی کردار کشی سے انہیں نقصان تو پہنچایا جا سکتا ہے لیکن عوام کو یہ باور کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ منفی سیاست میں ملوث لیڈر ہی ان کا پالن ہار ہو سکتا ہے۔ اگر ان کے ذہن میں یہ بات موجود ہے کہ فوج کو سیاسی حمایت فراہم کرکے وہ اپنا سیاسی کردار مستحکم کر سکیں گے تو انہیں نواز شریف کے حشر سے سبق سیکھنا چاہئے۔ فوج نے سیاسی کرداروں کو ہمیشہ اپنے مقاصد کےلئے استعمال کیا ہے۔ جو سیاسی لیڈر کسی مرحلے پر کسی بھی طرح فوج کی بچھائی ہوئی بساط پر مہرے بنے ہیں، انہیں بعد میں اپنے اس فیصلہ پر پچھتانا پڑا ہے۔ عمران خان کو بھی اسی مشکل اور خفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وہ ملک میں ایک بڑی سیاسی قوت متحرک کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ انہیں غیر جمہوری سہاروں کی بجائے عوامی تائید و حمایت پر بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس دوران نواز شریف سے لے کر ان کے پرجوش حامیوں کے علاوہ وزیر داخلہ احسن اقبال کے غیر ضروری بیانات سے جو غلط فہمی پیدا ہوئی ہے اور فوج سے تصادم کا جو تاثر سامنے آ رہا ہے، وہ ملک میں کسی بھی سیاسی لیڈر، جماعت یا فوج کےلئے سودمند نہیں ہو سکتا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو فوج کے ساتھ اختلافات طے کرنے کےلئے دستیاب فورمز کو استعمال کرنا چاہئے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو خود اس بات کا نوٹس لینے کی ضرورت ہے کہ ان کی کابینہ کے وزیر فوج کے ساتھ بیان بازی میں ملوث نہ ہوں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی واضح ہونی چاہئے کہ فوج پر تنقید ملک سے غداری نہیں ہو سکتی۔ کوئی بھی شخص عسکری قوت کے طور پر فوج کو نشانہ نہیں بناتا بلکہ مباحث میں اس کے سیاسی کردار، فیصلوں اور اقدامات کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ فوج جب سیاسی کردار ادا کرنے سے اجتناب کا فیصلہ کرے گی تو اس پر ہونے والی تنقید بھی از خود ختم ہو جائے گی۔ فوج کے نت نئے وکیلوں کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہئے۔
(بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ