گلگت بلتستان میں انتخابات سے ایک روز پہلے پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ مل کر پریس کانفرنس میں پاکستان کی سلامتی اور عوام کولاحق بھارتی دہشت گردی کے خطرات سے آگاہ کیا۔ دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ میڈیا کو بتایا گیا کہ بھارتی ایجنسیاں پاکستان میں تخریب کاری اور تشدد کی منصوبہ بندی کررہی ہیں۔ اتوار کو گلگت بلتستان کے عوام نے تحریک انصاف کو کامیاب کرواکے واضح کیا کہ انہیں ’ووٹ کی عزت‘ سے زیادہ جان پیاری ہے۔
ماضی کی روایت کے مطابق تو گلگت بلتستان کے انتخاب میں اسی پارٹی کو جیتنا تھا جس کی اسلام آباد میں حکومت قائم ہو۔ یوں اس کامیابی پر تحریک انصاف کا ‘حق‘ فائق تھا۔ گلگت بلتستان کے عوام بنیادی سہولتوں کے حصول کے لئے وفاقی حکومت کے نظر کرم کے محتاج ہیں۔ انہیں بخوبی اندازہ ہے کہ وہی پارٹی انہیں سہولتیں فراہم کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے جو وفاق میں برسر اقتدار ہو۔ ماضی میں بھی کسی حکومت نے اس صورت حال کا سیاسی فائدہ اٹھانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا اور تحریک انصاف کی قیادت بھی شروع سے یہ واضح کرچکی تھی کہ وہ اس علاقے کو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دے گی۔ وزیر اعظم عمران خان نے انتخابات سے دو ہفتے پہلے علاقے کا دورہ کرکے اس ارادے کا اظہار کردیا تھا۔ اس دورہ میں انہوں نے نہ صرف گلگت بلتستان کے عوام کو یہ بتایا کہ اگر وہ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں تو انہیں کس طرف دیکھنا چاہئے بلکہ ’گلگت بلتستان‘ کو صوبہ بنانے کا اعلان کرکے وہاں کے عوام کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ ان کے لئے موجودہ حکومت و قیادت ناگزیر ہے۔
پاکستانی حکومت کی طرف سے گلگت بلتستان کو پاکستان کا باقاعدہ صوبہ بنانے کا لالچ بہت بار دیا گیا ہے لیکن یہ فیصلہ ابھی تک کیا نہیں جاسکا۔ اگرچہ حکومت سی پیک کی وجہ سے اس حوالے سے آئینی و قانونی اقدام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے بلکہ شاید اس معاملہ میں چینی دباؤ بھی محسوس کرتی ہے۔ اس کے باوجود معاملہ کی حساسیت کے سبب ستمبر کے دوران آرمی چیف نے پارلیمانی لیڈروں سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کا انکشاف کرکے بعد میں اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس اور پی ڈی ایم کے نام سے شروع ہونے والی احتجاجی تحریک کے غبارے سے ہوا نکالنے کی کوشش بھی کی گئی تھی۔ یہ واویلا ہؤا کہ آرمی چیف تو براہ راست اپوزیشن لیڈروں سے ملاقات کرتے ہیں تو وزیر اعظم کو ایک انٹرویو میں یہ دعویٰ بھی کرنا پڑا کہ آرمی چیف نے ان کی اجازت سے ہی اپوزیشن سے لیڈروں سے ملاقات کی تھی۔ تاہم یہ اعلان بالکل ویسا ہی تھا جیسا کہ کراچی میں کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والے تنازعہ پر آرمی چیف کی طرف سے تحقیقات کا حکم دینے پر حکومت کے نمائیندے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے یہ اقدام وزیر اعظم کی ہدایت کے مطابق کیا تھا۔
آرمی چیف اور اپوزیشن کے پارلیمانی لیڈروں کے درمیان ملاقات کی وجہ تسمیہ خواہ کچھ بھی ہو لیکن اس ملاقات میں یہ طے کیا گیا تھا کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا فیصلہ وہاں نومبر میں منتخب ہونے والی اسمبلی کی رائے کے مطابق کیا جائے گا۔ گو کہ اس اجلاس کے شرکا کو بھی اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگا کہ پاکستان کے براہ راست انتظام میں رہنے والے علاقوں کی اسمبلی کس حد تک ’خود مختار‘ ہوگی اور حکومت پاکستان یا فوج کے مشورہ کے برعکس کیوں کر کوئی رائے دے سکے گی۔ جس علاقے کے لوگ صرف اسی پارٹی کے نمائیندوں کو منتخب کرنے پر مجبور ہوں جو اسلام آباد میں حکمران ہو تاکہ انہیں بنیادی سہولتوں اور منصوبوں کے لئے مالی وسائل ملتے رہیں، وہاں سے علاقائی خود مختاری کے حوالے سے کسی بیباکانہ آواز کا سامنے آنا محال ہے۔ تاہم تحریک انصاف کے امید واروں کی کامیابی سے اب یہ کہنا آسان ہوگیا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام نے عمران خان کی تجویز کو منظور کرلیا ہے۔
اصولی طور پر عمران خان کو گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا اعلان کرنے کا حق نہیں تھا ۔ ان کے اس غیر معمولی اعلان کے بعد انتخابی مہم چلانے والے بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کو بھی عوامی جلسوں میں اس وعدے کا اعادہ کرنا پڑا۔ مریم نواز نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ عمران خان کی حکومت چند ماہ کی مہمان ہے لہذا گلگت بلتستان کے عوام سوچ سمجھ کر انہیں لوگوں کو ووٹ دیں جو مستقبل قریب میں ’اقتدار‘ سنبھالنے والے ہیں۔ لیکن عوام کو اندازہ تھا کہ اس وقت اختیار کس کے ہاتھ میں ہے اور کس حکومت کے وزیر کروڑوں کے منصوبے شروع کرنے کے وعدے کررہے ہیں اور ان پر عمل کرنے کی طاقت بھی رکھتے ہیں۔ لہذا انتخابی پلڑا تحریک انصاف کی طرف جھکنے لگا۔ انتخابی نتائج نے اس رجحان کی تصدیق کی ہے۔
یہ رجحان چونکہ معمول ہے اس لئے اس پر کسی کو حیرت تو نہیں ہونی چاہئے لیکن تحریک انصاف چونکہ اسے اپنی شاندار کامیابی اور عوامی مقبولیت کے پیمانے کے طور پر پیش کرنے کی بھرپور کوشش کررہی ہے، اس لئے یہ جان لینا بھی اہم ہے کہ اس کامیابی کے لئے حکومتی سطح پر کیا اقدام کئے گئے تھے۔ وزیر اعظم نے انتخابی مہم کا آغاز کیا اور گلگت بلتستان کی تقدیر بدلنے کے دعوؤں سے اپنی تقریر کو رنگین بنایا۔ پھر وفاقی وزیروں نے مختلف منصوبوں کے لئے کثیر فنڈز فراہم کرنے کی تفصیلات پیش کیں اور عدالتی احکامات اور الیکشن کمیشن کی منمناہٹ کے باوجود وفاقی وزیر آخر دم تک تمام قواعد کو پس پشت ڈال کر انتخابی مہم چلاتے رہے۔ انتخابات سے پہلے ہی تحریک انصاف نے خود کو مستقبل کی ممکنہ حکمران پارٹی کے طور پر پیش کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے متعدد ارکان کو پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنے پر آمادہ کرلیا۔ یہ وہی لوگ ہیں جو کبھی پارٹی نہیں بدلتے بلکہ حکومت پارٹیاں بدلتی رہتی ہے جس کی وجہ سے مجبوراً ان لوگوں کو بھی اس کے پیچھے جانا پڑتا ہے۔
یہ جانے پہچانے ہتھکنڈے اختیار کرکے گلگت بلتستان کے انتخاب میں پاکستان کی حکومت کو کامیاب کروالیا گیا لیکن سیاسی جماعت کے طور پر تحریک انصاف ناکام ہوگئی ہے۔ جو پارٹی مختلف پارٹیوں کے ٹکٹ پر بار بار کامیاب ہونے والے لوگوں کو اپنے کارکنوں پر ترجیح دینے پر مجبور ہو اور جس نے کامیابی کے لئے سرکاری وسائل اور اختیارات کا بے دریغ استعمال کیا ہو، اسے کامیاب نہیں کہا جاسکتا۔ انتخاب سے ایک روز پہلے سیکورٹی کے بارے میں خدشات پیدا کرکے اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ سرکاری پارٹی کو کسی صورت ناکامی کا منہ نہ دیکھنا پڑے۔ یہ سارے طریقے آزمودہ اور روائیتی ہیں۔ ان کی کامیابی بھی یقینی تھی۔ لیکن نیا پاکستان اور نئی روایات کا دعویٰ کرنے والی تحریک انصاف البتہ اپنے ہی منشور اور اصولوں پر سودا کرتی دکھائی دی۔ یہی کسی سیاسی پارٹی کی سب سے بڑی ناکامی ہوسکتی ہے۔
اپوزیشن پارٹیوں اور خاص طور سے مریم نواز نے گلگت بلتستان میں انتخابی مہم کو پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک کا میدان کارزار بنا یا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری نے اس علاقے میں کئی ہفتے تک انتخابی مہم چلائی لیکن ان کا محور بھی عمران خان کی ناکام حکومت ہی تھی۔ اس طرح یہ دونوں بڑی پارٹیاں گلگت بلتستان کے مقامی مسائل کا حل پیش کرنے اور عوامی مشکلات دور کرنے کا کوئی منصوبہ سامنے نہیں لاسکیں۔ ان کا بنیادی نکتہ پاکستانی سیاست میں پایا جانے والا تنازعہ ہی رہا۔ بڑی پارٹیوں نے یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ گلگت بلتستان کے لوگ اسی وقت ملک کی آئینی جمہوری جد و جہد کا حصہ بن سکیں گے اگر ان کی اپنی کوئی خود مختار حیثیت ہوگی۔ آزادی کے ستر برس کے دوران اس علاقے کی قانونی حیثیت کا تعین ہی نہیں کیا جاسکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں پر بڑی حد تک اسلام آباد کی حکمرانی کو قبول کرنے کا رجحان موجود ہے۔ موجودہ انتخابات میں بھی یہی رویہ دیکھنے میں آیا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کو بھی شاید اس نتیجہ کا یقین ہوگا لیکن انتخابی مہم میں سرگرمی دکھا کر انہوں نے بہر حال یہ ضرور واضح کرنے کردیاہے کہ انتخاب اور رائے دہی محض ڈھونگ ہے۔ ان انتخابات میں حکومت کو ہی کامیاب ہونا تھا۔ تاہم اب ان نتائج کے بعد دھاندلی اور بے قاعدگیوں کے الزامات کو پاکستان جمہوری تحریک کے احتجاجی جلسوں اور بیانات کا حصہ بنا کر اس مؤقف کے لئے مزید ایندھن فراہم کیاجائے گا کہ ملک کے ایک چھوٹے سے علیحدہ خطے میں بھی انتخابات کسی مداخلت اور دھاندلی کے بغیر منعقد نہیں ہوسکتے۔ اس کے مقابلے میں وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کی طرح حکومتی نمائیندے اپوزیشن کی شکایات کو اس کے بیانیے کی ناکامی اور عمران خان کی مقبولیت کا ثبوت بنا کر پیش کریں گے۔
ایک سیاسی قوت کے طور پر تحریک انصاف اور لیڈر کے طور پر عمران خان یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ اگر گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کو کامیاب کروانے کے لئے کوشش نہ بھی کی جاتی، انتخاب سے پہلے سیکورٹی خدشات کی گواہی کے لئے پاک فوج کے ترجمان کو پریس کانفرنس پر آمادہ نہ بھی کیا جاتا اور اگر تحریک انصاف گلگت بلتستان میں حکومت بنانے میں کامیاب نہ بھی ہوتی تو کون سی قیامت آجاتی؟ بلکہ اگر تحریک انصاف یہ حوصلہ دکھانے میں کامیاب ہوجاتی تو اس کی سیاسی پوزیشن بہتر وہتی اور یہ دلیل دی جاسکتی تھی کہ حکمران پارٹی شفاف جمہوری عمل پر یقین رکھتی ہے۔ اب یہ نہیں کہا جاسکتا۔
گلگت بلتستان کے انتخاب کے دوران پاک فوج نے حکومت یا تحریک انصاف کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال کر فی الوقت اپنے آپشن واضح کردیے ہیں۔ ملک میں جمہوریت بحالی تحریک کو اس انتخاب کے بعد نئے چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ ایک طرف کورونا پھیلنے کی صورت حال، انسانی صحت کے لئے اجتماعات پر پابندیوں کی ضرورت اور دوسری طرف غیر مفاہمانہ رویہ تصادم میں اضافہ کی بنیاد بن سکتا ہے۔ گلگت بلتستان کے انتخاب نے ملک میں جاری سیاسی فساد کے تسلسل کا پیغام دیا ہے۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ