ایک ایسے وقت میں جب سوچ سمجھ رکھنے والا ہر شخص پاکستان میں جاری سیاسی تصادم کو ختم کرنے ، بات چیت کے ذریعے غلط فہمیاں دور کرنے کی اور مستقبل کا راستہ تراشنے کی ضرورت پر زور دے رہا ہے، وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر ہم نیوز کے لئے حمزہ علی عباسی کو انٹرویو میں جلتی پر تیل پھینکا ہے۔ ملکی سیاست کو اس سے ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
وزیر اعظم کے پاس نہ دلائل نئے ہیں اور نہ ہی وہ ملکی مسائل کے بارے میں سائنٹیفک طرز عمل اختیار کرنے پر آمادہ دکھائی ہیں۔ انٹرویو کا آغاز ہی عمران خان کے روحانی سفر سے ہوتا ہے اور اس سفر کی تفصیل بتاتے ہوئے وہ خود ستائی کی بار بار دہرائی ہوئی کہانی سنانے کے بعد ملک کو دینیات، روحانیت اور اخلاقیات کے ایسے راستے پر گامزن کرنے کی بات کرتے ہیں جس کی وجہ سے پہلے ہی ملک میں سماجی انتشار، فرقہ واریت، انتہا پسندی اور نفرتوں کے بوجھ سے توازن تلاش کرنا مشکل ہوچکا ہے۔
ان حالات میں حکومت سے بین المذہبی مفاہمت ، اقلیتوں کے حقوق پر اصرار اور ان کی حفاظت کے لئے اقدامات کی توقع کی جاتی ہے۔ یہ امید کی جاتی ہے کہ حکومت کا سربراہ اپنی باتوں میں توازن پیدا کرے گا اور دوسرے ملکوں کی مثالیں دے کر سیاسی مخالفین کو صلواتیں سنانے کی بجائے ان مسائل پر بات کرے گا جو اس وقت ہر شہری کا بنیادی مسئلہ ہیں۔ یعنی اشیائے صرف کی قیمتوں ، روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے حکومت کے منصوبوں اور علاقائی اور عالمی سیاسی تناظر میں درپیش چیلنجز پر حکومت کی حکمت عملی پر ذمہ داری سے غیر جذباتی انداز میں گفتگو کی جائے گی۔ اس کی بجائے اس تازہ انٹرویو میں اپوزیشن کو برا بھلا کہنے کے بعد عمران خان کے پاس یہ بتانے کے سوا کچھ نہیں تھا کہ’ بطور مسلمان ہمارا سب سے بڑا رول ماڈل رسول پاک ﷺ ہونے چاہئیں‘۔
کون مسلمان ہے جو اس بات پر یقین نہیں رکھتا ۔ کیا یہ جاننے کے لئے کسی ٹی وی چینل پر ملک کے وزیر اعظم کی گفتگو سننا ضروری ہوگا؟ یہ بات تو ہر مسلمان کے دل کی آواز ہے یا ہر مسجد کا پیش امام صبح شام پیغمبر اسلام کی احادیث اور اسوۃ حسنہ کو مسائل کا حل بتاتا ہے۔ پھر عمران خان یا کسی بھی سیاسی لیڈر کو ملک کا سربراہ بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ جب ملک کا وزیر اعظم اپنی ہی پارٹی سے وابستہ اداکار سے اینکر بنے ہوئے شخص کو انٹرویو دیتے ہوئے مذہب کو سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتا ہے تو اس سے صرف ایک بات ظاہر ہوتی ہے کہ حکومت دیوار سے لگی ہے اور اس کے پاس نہ تو سیاسی ماحول میں اٹھنے والے سوالوں کے جواب ہیں اور نہ ہی وہ مسائل حل کرنے کے لئے کوئی قابل عمل پالیسی سامنے لاسکتی ہے۔
وزیر اعظم اسکولوں میں سیرت النبیﷺ کی تدریس متعارف کروانے کو قومی سماجی و اخلاقی مسائل کا حل بتارہے ہیں ۔ ان کا مؤقف ہے کہ صرف قانون یا انتظامی نگرانی سے جنسی جرائم کا خاتمہ نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے لئے عوام کو بھی چوکنا ہونا پڑے گا۔ اس کے ساتھ ہی وہ روحانیت کی تعلیم اور ارتغرل جیسے ڈراموں کے ذریعے اخلاقیات کے درس کو قوم کی اخلاقی پستی کا حل بتاتے ہیں۔ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ ڈرامہ ارتغرل نے مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں، اس لئے میڈیا پر ’ اخلاق سے بھرپور پیش کش‘ دکھانے کے بارے میں ان کی رائے درست ہے۔ لگے ہاتھوں وزیر اعظم اگر یہ بھی بتا نا چاہئے تھا کہ کلاسیکل اخلاقیات سے لبریز اس ترک ڈرامہ کی شدید مقبولیت کے باوجود ملک بھر میں جنسی جرائم میں سنگین اضافہ کی کیا وجوہ ہیں؟
قومی میڈیا پر عام شہری کا رہا سہا اعتبار ختم کرنے کے لئے عمران خان نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ میڈیا قومی تقاضے پورے کرنے کے لئے پروگرام بنانے کی بجائے، مغرب کے فحش پروگرام دکھا کر بچوں کا اخلاق خراب کررہا ہے یا اس کے اینکر و صحافی سزا یافتہ نواز شریف کی تقریر پر براہ راست نشر کرنے کی اجازت لینے کے لئے عدالتوں میں اپیلیں دائر کرتے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے وہ یہ بھول گئے کہ جو میڈیا اینکر و صحافی انہیں اس وقت قومی اخلاق اور جمہوری اقدار کے دشمن دکھائی دیتے ہیں، 2014 کے دھرنے کے بعد سے وہ انہی کے کندھوں پر سوار ہو کر قوم پر مسلط ہونے میں کامیاب ہوئے تھے۔ عمران خان کا اقتدار میں برقرار رہنا ملکی سیاسی تاریخ کا سنگین المیہ ہے۔ ان کی ذہنی سطح، سیاسی اپچ اور غیر ذمہ دارانہ طرز عمل ایک طرف پاکستان میں تحمل و برداشت کی بنیادی سماجی اقدار کا خاتمہ کررہا ہے تو دوسری طرف قومی مسائل کے انبار میں اضافہ ہورہا ہے لیکن حکومت اقتدار کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہے۔
عمران خان کے برسر اقتدار رہنے کی دو بنیادی وجوہ ہیں۔ ایک: کسی عدالت نے 2018 کے انتخابات کو ناجائز قرار نہیں دیا ، اس لئے انہیں برسر اقتدار رہنے کا قانونی حق حاصل ہے۔ دوئم: تحریک انصاف بھی باقی سیاسی جماعتوں کی طرح شخصیت کے حصار میں قید ہے۔ پارٹی کا کوئی شخص یا حکومت میں شامل کوئی وزیر اپنے لیڈر کی غلطیوں کی نشاندہی کا حوصلہ نہیں کرسکتا۔ یوں تو عام طور سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسٹبلشمنٹ کی تائد دراصل عمران خان کے برسر اقتدار رہنے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن موجودہ حالات میں حکمران پارٹی کا عمران خان کی ذات پر انحصار مسئلہ کی اصل جڑ ہے۔ ملکی سیاست میں اس عنصر سے نجات حاصل کرنا اہم ہے لیکن اس کے لئے سیاسی عمل جاری کرنا پڑے گا۔ عمران خان بطور وزیر اعظم ملکی سیاسی عمل کو بہتے پانی کی بجائے بند جوہڑ میں تبدیل کرنے پر کمر بستہ ہیں۔ اپوزیشن پر الزامات، میڈیا کے خلاف بدکلامی و پابندیاں اور آزادی رائے کے راستے روکنے کا چلن ان کوششوں میں سر فہرست ہیں۔
برطانوی پارلیمنٹ کی مثالیں دینے والے وزیر اعظم کا اپنا مزاج ایسا ہے کہ وہ اسمبلی کے ایک سیشن میں اپوزیشن کی تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں کرسکتے۔ لگتا ہے انہوں نے صرف کتابوں میں برطانوی پارلیمنٹ کے بارے میں پڑھا ہے کبھی ٹی وی پر وہاں وزیر اعظم اور سرکاری نمائیندوں کی درگت بنتے نہیں دیکھی۔ وہ اپوزیشن سے تیاری کرکے اسمبلی میں آنے کا تقاضہ تو کرتے ہیں لیکن خود اسی ایوان میں جانے سے گریزاں رہتے ہیں جہاں سے انہوں نے وزیر اعظم بننے کے لئے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا تھا۔ برطانیہ کا نظام تنقید اور اختلاف رائے کی بنیاد پر کام کرتا ہے لیکن عمران خان تو کسی بھی قسم کے اختلاف کو قومی مفاد کے خلاف قرار دینے میں دیر نہیں کرتے۔ وہ جھوٹ بولنے، غلط معلومات فراہم کرنے، ناقص اندازوں کو صائب قرار دینے پر اصرار کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک وہی میڈیا ان کے ’نئے پاکستان ‘میں قومی مفادات کا محافظ ہوسکتا ہے جو سرکار کا بھونپو بن کر وہی دکھائے اور بیان کرے جس کی منظوری عمران خان کی وزارت اطلاعات سے دی گئی ہو۔ سرکاری اداروں کے ذریعے میڈیا کو بڑی حد تک سرکاری ترجمان بننے پر مجبور کردیا گیا ہے لیکن پھر بھی وزیر اعظم کسی ایسے میڈیا کا وجود برداشت کرنے پر آمادہ نہیں ہیں جو ان کے سوا کسی دوسرے کی سیاسی اہمیت کو تسلیم کرنے کا حوصلہ کرتا ہو۔
نواز شریف پر چوری کے الزامات اور بیرون ملک بیٹھ کر ملک دشمنی پر مبنی بیان دینے کا الزام لگاتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی حکومت نے ہی جیل میں بند نواز شریف کو برطانیہ جانے کی اجازت دی تھی۔ اب وہ اس فیصلہ کو اپنی سیاسی بے بسی کی بجائے انسانی ہمدردی کا علم بنارہے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ’ ہمیں لگا تھا کہ وہ واقعی بہت بیمار ہے، اس لئے مجبوری میں جانے کی اجازت دی تھی‘۔ آج وہ بڑے ’چوروں‘ کو معافی دینے سے پہلے چھوٹے مجرموں کے لئے جیلوں کے دروازے کھولنے کی بات کرتے ہیں۔ کیا وہ یہ بتا سکتے ہیں کہ ان کی حکومت میں نواز شریف کے علاوہ کسی عام قیدی کو بھی علاج کے لئے بیرون ملک نہیں تو گھر جانے کی اجازت ہی دی گئی ہو؟ عمران خان کو اپنی دیانت اور سچائی کا بہت دعویٰ ہے۔ بہتر ہوگا کہ سب سے پہلے وہ سارے حقائق سامنے لائیں جن کی وجہ سے حکومت نے نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی۔ یہ بوجھ عدالتوں کے کاندھے پر ڈال کر عمران خان بری الذمہ نہیں ہوسکتے کیوں کہ ملک کی عدالتیں نواز شریف کو چور اور لٹیرا یا ملک دشمن قرار نہیں دیتیں بلکہ یہ عمران خان کا تکیہ کلام ہے۔
’معافی نہیں دوں گا‘ کی رٹ لگاتے ہوئے وزیر اعظم نے دراصل ملک میں سیاسی تصادم کو تیز کرنے کا پیغام دیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس تصادم کی زد میں ان کے سوا سارے سیاسی لیڈر آئیں گے۔ یہی عمران خان کی سب سے بڑی غلط فہمی ہے۔ ان کی باتیں کمزوری ، خوف اور بے بسی کی چغلی کھاتی ہیں لیکن وزیر اعظم عقل کے ناخن لینے، اور یہ بنیادی جمہوری اصول ماننے پر تیار نہیں ہیں کہ پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم عقل کل یا مطلق العنان بادشاہ نہیں ہوتا۔ اگرچہ عمران خان شخصی بادشاہت کا خواب آنکھوں میں سجائے پھرتے ہیں لیکن نوشتہ دیوار اس کے برعکس ہے۔ بدنصیبی سے اقتدار کی کرسی پر براجمان کوئی بھی شخص سچائی دیکھنے اور سمجھنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔
(بشکریہ:کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ