یہ بات شاید اتنی اہم نہ ہو کہ پی آئی اے کا ایک طیارہ عدالتی حکم پر کوالالمپور انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر عین پرواز سے پہلے روک لیا گیا ۔ البتہ اس سانحہ پر پی اے کے ترجمان کی بیان بازی اور حکومت کی خاموشی صرف پی آئی اے ہی نہیں بلکہ ملک کی عمومی انتظامی صورت حال اور معاملات پر حکومت کی گرفت کے حوالے سے المناک صورت حال کی نشاندہی کرتی ہے۔ اسے بدترین سیاسی بدیانتی کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔
اعلیٰ عہدوں پر براجمان کوئی شخص کسی قسم کی ذمہ داری قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے لیکن سابقہ حکومتوں کی بدعنوانی اور غلط فیصلوں کے قصے ہمہ وقت کسی راگ کی صورت قوم کے گوش گزار کروائے جارہے ہیں۔ان حالت میں اقتدار میں نصف مدت پوری کرلینے والی حکومت سے کم از کم یہ توقع تو کی جاتی ہے کہ ملک و قوم کو عالمی سطح پر شرمندگی اور قومی خزانے کو ناروا بوجھ سے محفوظ رکھا جائے گا۔ دیانت کی دعوے دار حکومت سے یہ امید کرنا بھی نامناسب نہیں ہے کہ کسی بھی غلطی کی صورت میں اعلیٰ ترین سطح پر فائز اس شعبہ کا ذمہ دار فوری طور سے استعفی دے گا تاکہ کابینہ اور دیگر اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کو خبر ہوجائے کہ کسی کوتاہی ، لاپرواہی یا غلطی کی صورت میں نچلی سطح کے اہلکاروں پر بوجھ ڈالنے کی بجائے اس شعبہ کی نگرانی کرنے والے سیاسی عہدیدار کے بعد انتظامی نگران سرکاری اہلکار کو جوابدہ بنایا جائے گا۔
چند ہفتے پہلے وزیر اعظم عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہیں حکومتی معاملات سمجھنے میں ڈیڑھ دو سال لگ گئے اور یہ کہ وہ حکومت سنبھالنے کے لئے تیار نہیں تھے ، بغیر تیاری کے ایسا کرنا غلطی تھی۔ گو کہ وہ بعد میں اس بیان سے منحرف ہوگئے تھے لیکن یہ انحراف بالکل ویسا ہی تھا جیسا نعشوں کے ساتھ کوئٹہ میں دہشت گردی کے خلاف احتجاج کرنےوالوں کو بلیک میلنگ کا الزام دے کر بعد میں اسے سیاسی مخالفین کے بارے میں تبصرہ کہہ دیا گیا۔ اس قسم کی کہہ مکرنیوں سے البتہ نہ تو اصل الفاظ کو ریکارڈ سے مٹایا جاسکتا ہے اور نہ ہی صورت حال میں قابل ذکر تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ تاہم مذکورہ بیان کے بعد وزیر اعظم نے کابینہ کے ارکان کو ہدایت کی تھی کہ اب نصف مدت گزر چکی ہے۔ اب کوئی عذر کام نہیں آئے گا۔ اب سب وزیروں کو کارکردگی دکھانا پڑے گی۔
اس ہدایت میں البتہ دو وضاحتوں کی کمی محسوس کی گئی۔ ایک یہ کہ کیا اس مشورہ، لائحہ عمل یا تلقین کا اطلاق وزیر اعظم کی ذات بابرکات پر بھی ہوگا یا صرف ان وزیروں سے کارکردگی کی توقع کی جائے گی جن کے عہدے کے آخر میں ’اعظم ‘ کا لاحقہ نہیں ہے۔ کیوں کہ اس بات کی کوئی ضمانت ابھی تک فراہم نہیں ہوسکی ہے کہ عمران خان بطور سیاسی ٹیم لیڈر پروٹوکول لینے، غصہ دکھانے اور اپنے سوا ہر دوسرے شخص کو الزام دینے کے سوا بھی کچھ کرسکتے ہیں۔ اس ہدایت نامہ کی دوسری کمی یہ تھی کہ عمران خان نے یہ واضح نہیں کیا کہ جو وزیر کارکردگی دکھانے میں ناکام ہوگا اسے اپنا عہدہ چھوڑ دینا چاہئے۔ جس دیانت، احتساب، شفاف نظام اور اعلیٰ معیار کی مثالیں دے کر عمران خان اپنی تقریروں کو رنگین اور پرجوش بناتے ہیں، ان کا تقاضہ تو یہی تھا کہ واضح کیا جاتا کہ نااہل لوگوں کی تحریک انصاف کی قائم حکومت میں کسی بھی سطح پر کوئی جگہ نہیں ہے ۔
عمران خان یہ مطالبہ تو نہیں کرسکے کیوں کہ انہوں نے جس طرح ’مانگ تانگ‘ کر کابینہ بنائی ہے، اس میں چھانٹی کے لئے بھی شاید لیز پر وزیر مشیر دینے والی اتھارٹی سے اجازت درکار ہو۔ ورنہ کارکردگی کی باتیں کرنے والے وزیر اعظم کے ارد گرد ایسے وزیروں اور مشیروں کا غول دکھائی نہ دیتا جنہوں نے ہر دور میں اقتدار کے دسترخوان سے خوشہ چینی کی ہے لیکن کبھی سرکاری معاملات چلانے میں مہارت حاصل نہیں کی کیوں کہ اقتدار تک رسائی کے لئے صلاحیت یا قابلیت کی بجائے سفارش اور ابن الوقتی جیسی خوبیاں درکار رہی ہیں۔ اس کی بجائے عمران خان نے اس ہفتہ کے دوران کابینہ کے اجلاس میں یہ اعلان ضرور کیا ہے کہ جسے ان سے اختلاف ہو ، وہ اپنا عہدہ چھوڑ سکتا ہے۔ یعنی اگر میرے ساتھ چلنا ہے تو میری ہر بات پر آمنا و صدقنا کہنا ہوگا۔ عمران خان اور تحریک انصاف کی جمہوریت کی معراج بس یہی ہے۔
اسی پالیسی یا طرز عمل کا نتیجہ ہے کہ شوگر اسکینڈل میں نام آجائے تو خسرو بختار کی وزارت تبدیل کرکے ’سزا‘ دی جاتی ہے۔ غلام سرور قومی اسمبلی میں اعلان کرکے پی آئی اے کے ایک تہائی پائلٹوں کے لائسنسوں جعلی قرار دیتے ہیں۔ نتیجے میں یورپ اور امریکہ میں پی آئی کی پروازیں بند ہوجاتی ہیں۔ سات ماہ گزرنے کے باوجود یہ پابندی بدستور عائد ہے۔ کسی نے یہ حساب نہیں کیا کہ اس ’انقلابی‘ بیان سے پی آئی اور قومی خزانے کو کتنا نقصان پہنچ چکا ہے۔ البتہ پی آئی پورے جوش و خروش سے ہیڈ کوارٹرز کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کے منصوبے پر عمل کررہی ہے۔ حالانکہ جو کمپنی کام ہی نہیں کررہی اس کا دفتر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے سے کیا فرق پڑے گا۔ جس ملک میں فضائی سفر کے حالات تنگ کئے جاچکے ہیں ، وہاں غلام سرور بدستور شہری ہوا بازی کے وزیر ہیں ۔ جوابدہی کا ایک نمونہ شیخ رشید کو پی ڈی ایم کا مقابلہ کرنے کے لئے ریلوے کی بجائے داخلہ امور کا قلمدان سونپ کر پیش کیا گیا ہے۔ کسی نے یہ دریافت نہیں کیا کہ دو اڑھائی برس میں شیخ رشید نے ریلوے میں کیا کارنامے سرانجام دیے تھے حالانکہ وہ سابقہ ادوار میں بھی وزیر ریلوے رہ چکے تھے۔ وزارت داخلہ میں تو وہ ویسے بھی ’اجنبی‘ ہیں۔ البتہ انہوں نے شاہ کے مصاحب کی شہرت حاصل کی ہوئی ہے۔ اسے ابھی تک کسی نے چیلنج بھی نہیں کیا۔ شاید یہی وہ صلاحیت ہے جو عمران خان کو مرغوب ہے۔
اب ریلوے کی وزارت، اعظم سواتی کو سونپی گئی ہے۔ یہ وہی صاحب ہیں جنہوں نے دسمبر 2018 سپریم کورٹ میں سخت سست سوالات کے بعد اپنی ’اخلاقی اتھارٹی‘ قائم رکھنے کے لئے سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر کے طور پر استعفی دیا تھا۔ ان پر اپنے ہمسایہ کو ذبردستی بے دخل کرنے کا الزام تھا اور اس معاملہ میں معاونت نہ کرنے پر انہوں نے آئی جی اسلام آباد کے تبادلہ کے لئے ہاتھ پاؤں مارے تھے۔ استعفی دیتے ہوئے انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ کسی عہدے کے بغیر عام شہری کے طور پر اپنی بے گناہی ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم ساڑھے تین ماہ بعد ہی پارلیمانی امور کی وزارت سنبھالتے ہوئے انہوں نے یہ بتانا ضروری نہیں سمجھا کہ ان الزامات کا کیا ہؤا جنہیں اس زمانے میں چیف جسٹس کے عہدے پر رابن ہوڈ کا کردار نبھانے والے ثاقب نثار طاقت اور اختیار کے ناجائز استعمال کی بدترین مثال قرار دیتے تھے۔
گزشتہ اتوار کو پاکستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا انہونا واقع ہؤا۔ نصف شب کو کراچی سے خیبر تک بجلی کا شٹ ڈاؤن ہوگیا۔ اس کی مکمل بحالی میں دو روز لگ گئے۔ کئی گھنٹے تک پورا ملک اندھیرے میں ڈوبا رہا۔ وزیر توانائی عمر ایوب خان کندھے اچکاتے ہوئے فرما چکے ہیں کہ اس ڈرامائی صورت حال کی وجوہات جاننے میں وقت لگے گا لیکن گدو بیراج پر کام کرنے والے چند اہلکاروں کو معطل یا برطرف کرنے کے علاوہ کسی کو ذمہ داری قبول کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ عمر ایوب وزارت توانائی کی مسلسل نگرانی کررہے ہیں ۔ اگرچہ شبلی فراز اینڈ کمپنی نے اس شٹ ڈاؤن میں بھی سابقہ حکومتوں کی نااہلی اور بدعنوانی تلاش کرلی ہے۔
اسی طرح ایک روز پہلے چین نے پاکستان چین پہنچنے والی ایک پرواز کے مسافروں میں دس افراد میں کورونا وائرس کی موجودگی کا سراغ لگنے کے بعد تین ہفتے کے لئے پی آئی اے کی تمام پروازوں پر پابندی لگادی۔ کسی کو یہ جاننے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ کووڈ 19پازیٹو کے حامل لوگوں کو طیارے پر سوار ہونے کی اجازت دینے کا ذمہ دار کون تھا۔ کل ہی ملائشیا کے کوالالمپور ائیرپورٹ پر پی آئی کا ایک طیارہ عدالتی حکم پر روک لیا گیا۔ سپریم کورٹ میں مقدمہ بازی کے بعد پی اے آئی کی سربراہی پر فائز رہنے والے ائیر مارشل ارشد ملک البتہ بدستور اپنے’ فرائض خوش اسلوبی‘ سے سرانجام دے رہے ہیں۔
عرض کیا کہ مسئلہ کسی عدالتی تنازعہ کی وجہ سے رونما ہونے والے کسی ایک واقعہ کا نہیں ہے۔ قدم قدم پر پتہ چلتا ہے کہ موجودہ حکومت کھلنڈروں کا ایک ٹولہ ہے جو ایک سکہ بند کھلاڑی کی سربراہی میں ملک کی تقدیر کا مالک بن بیٹھا ہے۔ نہ تو انہیں امور حکومت کے بارے میں کوئی خبر ہے اور نہ ہی یہ پریشانی لاحق ہے کہ ایسے واقعات سے بیرون ملک پاکستان کی شہرت کو کس حد تک گزند پہنچتی ہے اور ان کا مستقبل میں معیشت، سرمایہ کاری اور لین دین پر کیا اثر مرتب ہوگا۔ پاکستانی ادارے ادائیگیوں میں گھپلوں کی وجہ سے عالمی اداروں اور غیر ملکی عدالتوں میں مقدمے ہارتے ہیں لیکن ان کی وجوہات پر سنجیدگی سے غور نہیں کرتے۔
حال ہی میں ایک برطانوی عدالت کے حکم پر پاکستان نے براڈ شیٹ نامی کمپنی کو 29 ملین ڈالر ادا کئے۔ اس سے سبق سیکھنے کی بجائے وزیر اعظم اور وفاقی وزیر نہایت ڈھٹائی سے اسی کمپنی کے سربراہ کے غیر مصدقہ انٹرویوز کو سیاسی کردار کشی کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ اب ملائشیا کی عدالت کے فیصلہ کو پی آئی اے کا ترجمان ’یک طرفہ ‘ قرار دے کر سفارتی ذرائع سے مسئلہ حل کرنے کی بات کررہا ہے۔ ایک آسٹریلوی کمپنی عالمی ٹریبونل میں پاکستان کے خلاف 6 ارب ڈالر معاوضہ کی ادائیگی کا حکم حاصل کرنے کے بعد اب قومی عدالتوں میں اس پر عمل درآمد کے لئے تگ و دو کررہی ہے۔
پاکستان پہلے ہی مسائل کے بوجھ تلے دبا ہؤا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اس بوجھ میں کئی گنا اضافہ کیا ہے۔ حکومت اور اس کے اہلکار مالی بدعنوانی میں نہ بھی ملوث ہوں ، پھر بھی اپنی انتظامی نااہلی کے سبب سنگین سیاسی بددیانتی کے مرتکب ہورہے ہیں۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ