فیض آباد میں دیا جانے والا دھرنا ختم ہؤا۔ دھرنا دینے والے اور دھرنا ختم کروانے کی دھمکیاں دینے والے دونوں ہی آرمی چیف کے مشکور ہیں کہ ان کی ثالثی کی وجہ سے اکیس روز سے جاری ایک تنازعہ اختتام کو پہنچا۔ وزیر قانون زاہد حامد کو حسب توقع قربانی کا بکرا بننا پڑا۔ اس کے اشارے کل ہی دیئے جانے لگے تھے۔ یہ بھی اس قوم کی تاریخ کا انوکھا باب ہے جس میں حکومت ہی کے ایک ادارے نے حکم ماننے کی بجائے یہ واضح کیا کہ اس کی ہمدردیاں تو دھرنے والوں کے ساتھ ہیں کیوں کہ یہ لوگ پاک فوج سے محبت کرتے ہیں اور فوج ان کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتی۔ اس اعلان وفاداری کے بعد حکومت کے پاس اپنے وزیر اور بنیادی اصول کی قربانی دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا۔ کیوں کہ ابھی اس ملک میں یہ جمہوری روایت سامنے نہیں لائی جاسکی کہ کوئی وزیر اعظم فوج کے سربراہ سے دو ٹوک الفاظ میں کہہ سکے کہ آپ اپنا کام کیجئے اور حکم کی تعمیل کیجئے ۔ اور اگر ایسا نہ ہو سکے تو وہ پارلیمنٹ میں جا کر استعفی دیتے ہوئے اعلان کرسکے کہ اگر پارلیمنٹ کا منتخب وزیر اعظم با اختیار نہیں ہے تو اسے اس عہدہ پر رہنے کا کوئی شوق نہیں۔
شاہد خاقان عباسی کو البتہ زاہد حامد کا استعفیٰ منظور کرنے کی جلدی اس لئے بھی تھی کہ انہیں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ہمراہی میں سعودی عرب جانا تھا جہاں مشرق وسطیٰ پر مکمل کنٹرول کا خواب دیکھنے والے نوجوان ولی عہد کو یہ یقین دلانا تھا کہ پاکستان کی حکومت اور فوج تو ان کی اس خواہش کی تکمیل میں سر کے بل خدمات سرانجام دینے کے لئے تیار ہے۔ لیکن ملک میں بعض ’شر پسندوں اور بد خواہوں‘ کے جھوٹے سچے پروپیگنڈا کی وجہ سے وہ کھل کر اس کا اعلان کرنے سے قاصر ہیں۔ وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان کو یہ بھی بتائیں گے کہ ’دیکھیں صاحب عالم ہمارے ملک میں نام نہاد جمہوریت ہے ، پارلیمنٹ بھی موجود ہے اور وہاں پر کوئی بھی کسی بھی قسم کی بات کرنے کے لئے تیار رہتا ہے۔ اس لئے آپ ہماری خاموشی کو ہی رضامندی سمجھیں تاکہ ہماری دوستی کے دشمنوں کو باتیں بنانے کا موقع نہ مل سکے‘۔ یہ عظیم مقصد پانے کے لئے اگر ایک وزیر قربان کرنا پڑے اور اگر لوگوں کو لگے کہ حکومت نے اصولوں پر سمجھوتہ کرکے ایک فسادی اور قانون شکن گروہ کے ساتھ معاہدہ کرلیا ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ کرسی بھی محفوظ ہے اور فوج کے سربراہ ابھی وزیر اعظم کو بریگیڈ 111 کے حوالے کرنے کے موڈ میں بھی نظر نہیں آتے۔
سارا معاملہ ویسے ہی طے ہو گیا جیسے کہ اس کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ پاک فوج زندہ باد کے نعرے بلند ہونے کے بعد دھرنا والوں نے ڈی جی رینجرز کے ساتھ سیلفیاں لے کر فوج کے ساتھ ہونے والے نئے نویلے اتحاد کا جشن منایا۔ اب کسی کو فوج کی نیت اور اس کے اس عزم کے بارے میں شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ وہ ملک میں امن و امان قائم رکھنا چاہتی ہے۔ اب تو تین ہفتے سے فساد برپا کرنے والے لبیک تحریک کے لیڈروں نے بھی مان لیا ہے کہ وہ پر امن لوگ ہیں اور صرف اس وقت آمادہ بہ تصادم ہوتے ہیں جب ان کے سامنے ایسی حکومت کے نمائیندے ہوں جس کا حکم اس کے زیر نگیں ادارے بھی ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ مسلم لیگ (ن) تو اس بات پر بھی خوش ہو سکتی ہے کہ نواز شریف کی نااہلی کی صورت میں عدالتی وار کے بعد اب فیض آباد دھرنا کی صورت میں فوج کا وار بھی ناکارہ بنا دیا ہے۔ تھوڑی ذلت برداشت کرنا پڑی لیکن حکومت تو برقرار ہے، جھنڈے والی گاڑیوں کا اپنا ہی لطف ہوتا ہے۔ وقت سے پہلے اسے کھنڈت میں ڈالنے کا کیا فائیدہ۔
اس سارے تماشہ میں البتہ باہر کھڑی نظارہ کرنے والی سیاسی قیادت کو ضرور غور کرنا چاہئے کہ اسے اس کھیل میں کیا حاصل ہؤا۔ جو کھیر پکانے کے لئے چرخا جلایا گیا تھا، اسے کھانے والے اور پیا من بھاتے تو کوئی اور نکلے۔ اب ہاتھ ملیں اور 2018 کے انتخاب تک یہ دیکھنے کا انتظار کریں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ اگر حالات کی چال یوں ہی بے ڈھب رہی تو یہ بہر حال پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سازی اور پیپلز پارٹی کو جوڑ توڑ سے حکومت بنوانے میں مدد فراہم کرنے کی منزل تک ہرگز نہیں جائیں گے۔ نواز شریف کی دشمنی اور مسلم لیگ (ن) سے عناد کی سیاست کے نتیجہ میں ان سب کے حصہ میں بالآخر پشیمانی ہی آئے گی۔ پھر کسی نئے میثاق جمہوریت کی تلاش ہوگی اور قربانی کے لئے نئی بھیڑوں کو پکڑا جائے گا۔ تب تک اپنے ہاتھوں اپنی ہی ہزیمت کا ڈھول بجانے میں کوئی ہرج نہیں ہے ۔ لیکن ملک کے ہونہار سیاست دان اگر اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے والے ہوتے تب ہی وہ ناکامی میں بھی افتخار کا کوئی پہلو تلاش کرتے اور مستقبل میں ہٹ دھرمی اور ضد کا راستہ چھوڑ کر واقعی جمہوریت اور پارلیمانی نظام کی کامیابی کے لئے مصروف عمل ہوتے۔ اس لئے اغلب گمان یہی ہے کہ ان ہارے ہوؤں کی قسمت میں ڈھول بجانے کا حظ اٹھانے کا حوصلہ اور ذوق بھی نہیں ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج البتہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آئن کے تحت فوج کا کام تو حکم بجا لانا ہوتا ہے۔ اسے ثالثی کا کردار کس نے عطا کیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ردالفساد والوں کو فیض آباد میں اکیس روز تک جاری رہنے والا فساد دکھائی نہیں دیا۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے یہ استفسار بھی کیا ہے کہ فوج قانون توڑنے والوں اور قانون نافذ کرنے کی ذمہ دار انتظامیہ کے درمیان ثالث کیسے بن سکتی ہے۔ وہ تو خود انتظامیہ کا حصہ ہے اور اس کا کام حکومت کو مدد بہم پہنچانا تھا۔ اتنا سخت سست بولنے کے بعد جسٹس صاحب کو بھی اندازہ ہو گیا کہ وہ جج کی کرسی کے زور پر یہ سب کچھ کہہ تو گئے لیکن اس کا انجام کیا ہوگا، اس پر غور نہیں کیا۔ تو انہوں نے اپنے ہی الفاظ میں اس بارے میں بھی بتا دیا تاکہ سند رہے۔ جسٹس شوکت صدیقی نے کہا: ’ان سب باتوں کے بعد میری زندگی کو خطرہ ہے۔ مار دیا جاؤں گا یا غائب کردیا جاؤں گا‘۔
لیکن ملک کے مفاد کا تحفظ کرنے والے اور قوم کی نیّا پار لگانے کے ذمہ دار، ان معمولی اندیشوں پر پریشان نہیں ہوتے ورنہ وہ اپنا فرض کیسے ادا کریں گے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ