یوں تو سیاسی حدت کی وجہ سے پاکستان میں ہر روز ہی بھرپور اور دلچسپ ہوتا ہے لیکن سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کے ارکان کی ہاتھا پائی ، یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی پر ووٹوں کی سودے بازی کے الزامات اور الیکشن کمیشن کی طرف سے بدھ کو منعقد ہونے والے سینیٹ انتخاب سپریم کورٹ کے حکم کے بعد ’پرانی طرز‘ پر ہی کروانے کے اعلان نے آج خبروں میں خوب رونق لگائی۔
اس دوران سپریم کورٹ کے دس رکنی بنچ نے صدارتی ریفرنس کیس میں اپنے ساتھی جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ و دیگر کی نظر ثانی کی درخواستوں پر سماعت جاری رکھی۔ سپریم کورٹ اگرچہ گزشتہ سال جون میں جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو مسترد کرچکی ہے تاہم اس میں متعلقہ حکام کو ان کی اہلیہ کے مالی معاملات کی تحقیقات کرنے اور رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اسی لئے درخواست دہندگان نے اس کے مختلف پہلوؤں کو فیصلہ سے حذف کروانے کے لئے نظر ثانی کی درخواستیں دائر کررکھی ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی بنچ ان درخواستوں کی سماعت کررہا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اپنا مقدمہ خود پیش کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس طرح سپریم کورٹ کے ایک سینئیر جج جو اپنے عہدے پر برقرار رہنے کی صورت میں اگست 2023 میں چیف جسٹس بن سکتے ہیں، اس وقت عدالت عظمیٰ میں مدعی کے طور پر پیش ہورہے ہیں۔ یہ اپنی نوعیت میں ایک تاریخی واقعہ ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اپنا کیس خود پیش کرنے کی اجازت دینے سے پہلے جسٹس عمر عطا بندیال نے واضح کیا تھا کہ سپریم کورٹ کے قواعد کے مطابق صرف وہی وکیل نظر ثانی کی درخواستوں میں دلائل دے سکتا ہے جس نے اصل مقدمہ کی پیروی کی ہو۔ صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک تھے۔ تاہم وہ اپنی علالت کی وجہ سے نظر ثانی کی درخواست پر دلائل دینے عدالت میں حاضر ہونے سے قاصر ہیں۔ عدالت نے منیر اے ملک کی تحریری درخواست کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مقدمے میں دلائل دینے کی اجازت دے دی ہے۔ تاہم آج کا دن نظر ثانی پٹیشن میں اٹھائے گئے نکات پر دلائل کی بجائے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو وکالت کا حق دینے اور مقدمہ کی کارروائی براہ راست ٹیلی کاسٹ کرنے کی اجازت دینے کے بارے میں درخواست پر غور میں صرف ہؤا۔
جسٹس عیسیٰ نے ایک متفرق درخواست میں استدعا کی ہے کہ نظر ثانی کے مقدمہ کی عدالتی کارروائی کو براہ راست ٹیلی کاسٹ کرنے کا حکم دیا جائے تاکہ گزشتہ دو سال کے دوران ان کےاور اہل خاندان کے خلاف جو توہین آمیز پروپیگنڈا کیا گیا ہے، اس کا جواب سامنے آسکے۔ جسٹس عیسیٰ کا کہنا تھا کہ وہ بطور جج نہ تو بیان بازی کرسکتے ہیں اور نہ ہی پریس کانفرنس میں اپنا مؤقف دہرا سکتے ہیں لیکن وزیر اعظم سمیت تمام حکومتی عہدیدار ان کے خلاف بدترین پروپگنڈا میں مصروف رہے ہیں۔ عدالت نے درخواست دہندہ کو یاد دلایا کہ اس معاملہ میں سپریم کورٹ کو بہت غور کرنے اور تمام پہلوؤں کو دیکھنے کے بعد ہی فیصلہ کرنا ہوگا کیوں کہ مستقبل میں اس نظیر کو استعمال کرتے ہوئے دوسرے لوگ بھی براہ راست نشریات کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں حکومتی مؤقف اور تکنیکی سہولتوں کے بارے میں معلومات فراہم کریں۔
سماعت کے دوران کارروائی براہ راست ٹیلی کاسٹ کرنے کے سوال پر دلائل دیتے ہوئے قاضی فائز عیسیٰ آبدیدہ بھی ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ وہ یہ مقدمہ اپنے لئے نہیں بلکہ پاکستان کے مستقبل اور تمام ججوں کی عزت و وقار کے لئے لڑ رہے ہیں۔ اگر آج میرے ساتھ یہ سلوک کیا جاسکتا ہے تو کل کو کوئی دوسرا بھی نشانے پر ہوسکتا ہے۔ انہوں نے دلیل دی کہ ’پوری دنیا میں میرے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا۔ مجھے اور میرے اہلِ خانہ کو بدنام کیا گیا۔ میرا کریئر تو 65 سال کی عمر میں ختم ہوجائے گا لیکن شہرت قبر تک ساتھ چلے گی، میں نہیں چاہتا کہ میری شہرت پر حرف آئے۔ میرے نام پر داغ لگا ہوا ہے جسے صاف کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔ براہ راست کوریج میں ایڈیٹنگ کی گنجائش نہیں ہوتی، عدالت کا فیصلہ چاہے میرے خلاف آئے لیکن ٹی وی پر براہ راست آنا چاہئے‘۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اگر کوئی سانحہ مشرقی پاکستان پر بات کرے تو اسے خاموش کرا دیا جاتا ہے۔ صحافیوں کو اسلام آباد سے اغوا کیا جاتا ہے تو وزیرِ اعظم کہتے ہیں کہ مجھے کچھ معلوم نہیں۔’قائد اعظم اور میرے والد کی روح قبر میں تڑپ رہی ہو گی، لگتا ہے آج ہم پاکستان میں نہیں گٹر میں رہتے ہیں‘۔ بنچ کے ججوں نے جسٹس فائز عیسیٰ کو مشورہ دیا کہ وہ جذباتی نہ ہوں تاکہ اصل معاملہ پر توجہ مبذول کرسکیں۔ عدالت صرف اسی معاملہ پر فیصلہ کرسکتی ہے جو اس کے سامنے پیش ہو۔ جسٹس عیسیٰ کا کہنا تھا کہ’ انصاف ہونا ہی نہیں چاہئے بلکہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہئے‘۔
پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کے سامنے اس کا اپنا ہی ایک سینئیر جج انصاف کی دہائی دے رہا ہے۔ یہ دہائی دینے کی نوبت صرف اس لئے آئی ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد کیس میں عسکری اداروں کی مداخلت کی نشاندہی کرتے ہوئے اس سلسلہ کو بند کرنے کا حکم دیا تھا اور آرمی چیف سے کہا تھا کہ وہ ان تمام لوگوں کی سرزنش کریں جو نومبر 2017 کے دھرنے میں ملوث تھے۔ اس پاداش میں ان کے خلاف مئی 2019 میں ریفرنس دائر کردیا گیا ۔ جسٹس عیسیٰ کا کہنا ہے کہ انہیں اس ریفرنس کے حوالے سے میڈیا کے ذریعے خبر ملی تھی حالانکہ یہ معاملہ خفیہ ہونا چاہئے تھا۔ اس پس منظر میں عدالت میں دلائل دیتے ہوئے جسٹس عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اگر وہ ’ صحافیوں کو اٹھانے والوں کی نشاندہی کریں گے تو ان کے خلاف ریفرنس آجائے گا‘۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سائل کے طور پر جو صورت حال پیش کررہے ہیں، اس کی متعدد وجوہات ہیں لیکن اس کی سب سے بڑی وجہ ملکی عدلیہ کی مصلحت کوشی اور اداروں کے درمیان ’مفاہمت‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہونا ہے۔ اسی بالائے آئین پالیسی کی وجہ سے ’نظریہ ضرورت ‘ ایجاد کیا گیا جس نے اس ملک کو چار فوجی حکومتوں کا تحفہ دیا۔ آج جسٹس عیسیٰ نے ضرور المیہ مشرقی پاکستان کی دہائی دی ہے لیکن میمو گیٹ اسکنڈل کی سماعت و تحقیقات کے دوران ، وہ بھی اسی اسٹیٹس کو کو قائم رکھنے کا سبب بنے تھے جس نے ملک میں انصاف کو مشکل اور سیاسی نظام کو غیر جمہوری بنا دیا ہے۔ عدالتوں کے جج اپنی مجبوری اور سیاست دان ضرورت کے نام پر اسی دروازے سے آس لگائے رہتے ہیں جسے عرف عام میں پاکستان میں تمام تالوں کی کنجی یعنی حتمی مقتدرہ کا نا م دیا گیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بدھ کو سینیٹ کی نصف نشستوں پر منعقد ہونے والے انتخاب میں مقابلہ سیاسی جماعتوں سے زیادہ اس نکتہ پر ہورہا ہے کہ اسٹبلشمنٹ کس پلڑے میں اپنا وزن ڈالتی ہے یا ’غیر جانبدار‘ رہتی ہے۔ سیاست کو تمام غیر جمہوری اور غیر سیاسی عناصر سے پاک کرنے کے بلند بانگ نعرے پر شروع کی گئی ’پاکستان جمہوری تحریک‘ کی قیادت کا سارا زور اب اس بات پر لگا ہؤا ہے کہ کسی طرح طاقت کے اصل مراکز کو یہ یقین دلا دیا جائے کہ عمران خان کی شکل میں کیا جانے والا تجربہ ناکام ہوچکا ہے اور ماضی کی تمام ’غلط فہمیوں‘ کے باوجود اب بھی پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں ہی ’نظام‘ بچانے میں سب سے زیاددہ کارآمد ہوسکتی ہیں۔ ضمنی انتخابات کے بعد سینیٹ انتخابات میں شرکت دراصل ’ووٹ کو عزت دو‘ کی اسی ترمیم شدہ حکمت عملی کی شکل ہے۔ اسی لئے کبھی عدم اعتماد لانے کی بات ہوتی ہے ، کبھی راولپنڈی کا رخ کرنے والے لانگ مارچ کی منزل مقصود اسلام آباد ٹھہرتی ہے اور کبھی افق سے روشنی کی ایسی کرنیں دکھائی دینے لگتی ہیں کہ لانگ مارچ سے پہلے ہی ’مقصد‘ حاصل ہونے کی نوید دی جاتی ہے۔
ایسے میں علی حیدر گیلانی کی ایک ویڈیو اور سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کے ’باغی‘ ہوجانے والے تین ارکان اسمبلی کے ساتھ ہاتھا پائی ، ملک کا اہم ترین سیاسی وقوعہ قرار پاتے ہیں۔ وفاقی وزیروں کی سرکردگی میں ویڈیو میں ’ووٹ دینے کا طریقہ‘ سیکھنے والے قومی اسمبلی کے اراکین کی شناخت کا مشکل مرحلہ طے کیا جارہا ہے یا الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کو انتخابی اخلاقیات کی خلاف ورزی اور ووٹ خریدنے کے الزامات میں ’نااہل‘ قرار دیا جائے۔ یہ کوششیں اس حکمران جماعت کی طرف سے ہورہی ہیں جس کا لیڈر عوام کی طاقت سے عوام کے مسائل حل کرنے کا دعویدار ہے۔ اب عوام پر اس کا بھروسہ متزلزل ہے اور ’نظام‘ میں سرپرست قوتوں کے بارے میں بے یقینی روزافزوں ہے۔
سوال یہ نہیں ہے کہ علی حیدر گیلانی نے کچھ غلط کیا ہے یا نہیں۔ انہوں نے ووٹ خریدنے کی کوشش کی یا وہ محض معصومانہ کنویسنگ کررہے تھے۔ سوال تو یہ ہے کہ یوسف رضا گیلانی کی امید واری سے عمران خان کو کیوں اپنی حکومت ڈولتی دکھائی دیتی ہے کہ کسی بھی قیمت پر انہیں بدنام یا ناکام کرنا اہم ہوچکا ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام آباد کے علاوہ تمام صوبائی مراکز میں تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی ’بغاوت‘ پر کیوں اترے ہوئے ہیں۔ عمران خان ان کی بات سننے کی بجائے، دھمکیوں اور پروپیگنڈا کے ہتھکنڈوں سے کیوں سینیٹ انتخاب جیتنا چاہتے ہیں؟
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ