وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر اپوزیشن پر روپے دے کر ووٹ لینے کی کوشش کا الزام لگایا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اب اپوزیشن چئیرمین سینیٹ کے لئے دولت صرف کررہی ہے۔ دوسری طرف پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) کے اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمان نے یوسف رضا گیلانی کو چئیرمین سینیٹ کے لئے اپوزیشن کے متفقہ امیدوار کے طور پر پیش کیا ہے۔ گیلانی حال ہی میں وزیر خزانہ حفیظ شیخ کو ہرا کر سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔
قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے باوجود وزیر اعظم عمران خان ، حفیظ شیخ کی شکست سے پہنچنے والی سیاسی ہزیمت پر سخت رنجیدہ ہیں۔ اس کا اظہار ہفتہ کے روز قومی اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد کی گئی تقریر میں بھی ہؤا تھا اور آج پی ٹی آئی کے اجلاس میں بھی انہوں نے اس شکست پر دکھ کا اظہار کیا ۔ اس سیاسی ناکامی کی ذمہ داری قبول کرنے اور پارٹی کی صفوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی بجائے وزیر اعظم اپوزیشن اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنا کر خود کو سرخرو ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے ایک بار پھر کہا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات الیکشن کمیشن کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ الیکشن کمیشن پر پے در پے حملوں کا ایک مقصد اسے دباؤ میں لا کر تحریک انصاف سے متعلق متعدد معاملات میں ’نرم ‘ رویہ اختیار کرنے پر مجبور کرنا بھی ہوسکتا ہے۔
حکمران تحریک انصاف کا فارن فنڈنگ کا معاملہ ابھی تک الیکشن کمیشن کے زیر غور ہے۔ اپوزیشن کی قیادت بار بار اس کیس کا فیصلہ کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔ اس کیس میں اگر الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے خلاف فیصلہ دے دیا تو اس کی نمائیندہ حیثیت خطرے میں پڑ سکتی ہے اور یہ مطالبہ سامنے آسکتا ہے کہ عمران خان سمیت تحریک انصاف کے سب ارکان اسمبلی کو نااہل قرار دیا جائے۔عملی طور سے ایسا ناخوشگوار فیصلہ عمران خان کے لئے اپنی زندگی کی سب سے بڑی سیاسی شکست ہوگی۔ ایک تو انہیں پارٹی کی نمائیندہ حیثیت بچانے کے لئے سخت تگ و دو کرنا پڑے گی ۔ دوسرے سیاست میں مالی بدعنوانی کا جو الزام وہ اپوزیشن پارٹیوں اور لیڈروں پر لگاتے ہیں، ان کا جواز ختم ہوجائے گا۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ یہ واضح کرسکتا ہے کہ تحریک انصاف نے چندہ جمع کرنے اور اسے استعمال کرنے کے حوالے سے سنگین خلاف ورزیاں کی تھیں۔ اور اگر اس معاملہ میں درخواست دہندہ کی دلیل اور شواہد کو اہمیت دی گئی تو اس میں عمران خان کی مالی بدعنوانی کا ثبوت بھی سامنے آ سکتا ہے۔
اس پس منظر میں الیکشن کمیشن پر عمران خان کی براہ راست نکتہ چینی ، دراصل خود کو اس بے پایاں دباؤ سے نکالنے کی غیر شعوری کوشش بھی ہوسکتی ہے۔ تاہم اس طرح ملک کا وزیر اعظم ایک آئینی ادارے کے وقار، خود مختاری اور قانونی حیثیت کو مشکوک کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ حکومت نے ایسی بیان بازی کبھی احتساب بیورو کے بارے میں نہیں کی کیوں کہ موجودہ چئیر مین نیب عمران خان کی خواہش و ضرورت کے مطابق اپوزیشن لیڈروں کے خلاف مقدمے قائم کرنے، اہم لیڈروں کو گرفتار کرکے طویل مدت تک حراست میں رکھنے کے علاوہ وقفے وقفے سے جسٹس (ر) جاوید اقبال یہ بیان بھی جاری کرتے رہے ہیں کہ بدعنوانی میں ملوث بڑی مچھلیوں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ اس قسم کے بیان کسی اہم آئینی ادارے کے چئیرمین کو زیب تو نہیں دیتے لیکن حکومت وقت کے اینٹی کرپشن بیانیے کو سہارا ضرور دیتے ہیں جس سے عمران خان پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی لئے انہیں نیب کی کوئی ناکامی یا احتساب قوانین کی کوئی کمزوری دکھائی نہیں دیتی حالانکہ ایک طرف نیب عدالتوں میں مقدمات ثابت کرنے میں مسلسل ناکارہ ثابت ہورہی ہے تو دوسری طرف اعلیٰ عدالتوں میں ججز احتساب بیورو پر سخت نکتہ چینی بھی کرتے رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 4 مارچ کو قوم سے وزیر اعظم کے خطاب کے بعد ایک غیر معمولی بیان میں ناقص انتخاب منعقد کروانے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ انتخاب میں ہار قبول کرنے کا حوصلہ ہونا چاہئے۔ حکومت اسلام آباد سے ہارنے والی نشست پر دھاندلی کا الزام لگاتی ہے لیکن جیتنے والی نشست کے نتیجہ کو خوش دلی سے قبول کرتی ہے۔ حالانکہ ان دونوں نشستوں کے لئے پولنگ ایک ہی طریقہ کے تحت ایک ہی عملہ نے کروائی تھی۔ عمران خان نے اس خطاب میں الیکشن کمیشن پر جمہوریت کو نقصان پہنچانے کا الزام لگایا تھا جس کا جواب ایک تحریری بیان کی صورت میں دیا گیا تھا۔ وفاقی وزیروں نے الیکشن کمیشن کے بیان کو یہ کہہ کر مسترد کرنے کی کوشش کی تھی کہ الیکشن کمیشن کو وزیر اعظم کی تقریر پر تبصرہ نہیں کرنا چاہئے تھا لیکن سرکاری جماعت کے کسی معتبر کو اپنے لیڈر کو یہ بتانے کا حوصلہ نہیں ہؤا کہ چیف ایگزیکٹو کے عہدے پر فائز ہو کر الیکشن کمیشن پر حرف زنی انہیں زیب نہیں دیتی۔
عمران خان نے الیکشن کمیشن کی وضاحت پر کان دھرنے اور اپوزیشن کی سیاسی پیشقدمی کا جواب دینے کے لئے اسے فریق بنانے سے گریز کرنے کی بجائے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر الیکشن کمیشن کی کارکردگی کو ناقص قرار دیا اور مشورہ دیا کہ الیکشن کمیشن کو ایجنسیوں سے خفیہ بریفنگ لینی چاہئے تاکہ اسےپتہ چلے کی سینیٹ الیکشن میں کتنا پیسہ چلا ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی قومی ادارہ جو خاص قاعدہ و ضابطے کے طور پر کام کرتا ہو، ایک ایسے وزیر اعظم کے ہر بیان کا نوٹس نہیں لے سکتا جو اپنے ایک مخصوص سیاسی ایجنڈے کے لئے ہر روایت ختم کرنا اور کسی بھی انتہا تک جانا درست سمجھتا ہو۔ عمران خان نے آج بھی اسی جارحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایک طرف اپوزیشن پر یوسف رضا گیلانی کو چئیر مین سینیٹ بنوانے کے لئے سینیٹرز خریدنے کاالزام لگایا تو دوسری طرف الیکشن کمیشن کو ناکام اور ناقص قرار دیا ہے۔
وزیر اعظم کا دعویٰ تھا کہ ان کی پارٹی کے سینیٹرز سے رابطہ کرکے انہیں چئیر مین شپ کے لئے اپوزیشن کے امید وار کو ووٹ دینے کے لئے کئی کئی کروڑ روپے کی پیش کش کی گئی ہے تاہم عمران خان نے ان سینیٹرز کے نام نہیں بتائے جنہیں روپوں کی پیش کش کی گئی ہے۔ حیرت البتہ اس بات پر ہے کہ اپوزیشن نے یوسف رضا گیلانی کو اپنا امید وار آج نامزد کیا ہے لیکن اس کے ’کیشئیر‘ روپوں کی تھیلیاں لے کر پہلے ہی تحریک انصاف کے معصوم سینیٹرز کے پاس جا پہنچے۔ یہ معاملہ بھی قابل غور ہونا چاہئے کہ اپوزیشن کو آخر تحریک انصاف کے سینیٹرز سے ہی کیوں ووٹ خریدنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اس ماہ کے شروع میں ہونے والےانتخاب کے بعد تحریک انصاف اگرچہ سینیٹ کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی ہے لیکن اس کے ارکان کی تعداد پھر بھی 26 ہے۔ یعنی سینیٹ کے تین چوتھائی ارکان کا حکمران جماعت سے تعلق نہیں ہے۔ متعدد چھوٹی پارٹیوں کے نمائیندے سینیٹر ہیں۔ اس کے علاوہ اس وقت ایوان بالا میں چھ ارکان آزاد رکن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کوئی بھی خریدار پہلے ایسے کمزور اہداف کی ہمدردیاں حاصل کرنے یا انہیں ’خریدنے ‘ کی کوشش کرے گا۔
اس حوالے سے یہ نکتہ بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ تمام تر سیاسی مشقت اور الزام تراشی کا طوفان بپا کرنے کے باوجود حکومت اور اس کی حلیف جماعتوں کو سینیٹ میں اکثریت حاصل نہیں ہوسکی۔ اس وقت سینیٹ میں حکمران اتحاد کی کل نشستیں اپوزیشن سے کم ہیں۔ پاکستان جمہوری تحریک میں شامل جماعتوں کو ایوان بالا میں اب بھی اکثریت حاصل ہے۔ اس صورت حال میں اضافی ووٹوں کی ضرورت اپوزیشن کی بجائے حکومت کو ہوگی تاکہ وہ اپنے امید وار صادق سنجرانی کو کامیاب کروا سکے۔ 12 مارچ کو سینیٹ کی موجودہ سیاسی پوزیشن کے مطابق چئیرمین اور ڈپٹی چئیرمین کا انتخاب ہونے کی صورت میں یہ دونوں عہدے اپوزیشن کو حاصل ہوں گے۔
اسی لئے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدرمریم نواز نے آج کی پریس کانفرنس میں سوال کیا ہے کہ جب حکومت کو سینیٹ میں اکثریت ہی حاصل نہیں ہے تو کس برتے پر اس نے چئیر مین کی پوزیشن کے لئے اپنا امید وار نامزد کیا ہے۔ کیا اس کا مطلب ہے کہ حکومت اس انتخاب میں بھی دباؤ، دھاندلی اور رشوت کے ذریعے کامیابی حاصل کرنے کی خواہش مند ہے۔ یہ ایک جائز اور مناسب سوال ہے کیوں کہ حساب کتاب بالکل واضح ہے۔ حکومتی اتحاد کے سینیٹرز 45 کے لگ بھگ ہیں۔ پھر عمران خان نوشتہ دیوار دیکھ کر صبر کرنے کی بجائے کس بنیاد پر اپوزیشن پر ووٹ خریدنے کاالزام لگارہے ہیں؟ اس صورت میں تو حکومت کا امید وار کامیاب ہؤا تو اسے بے ایمانی سمجھنا درست اور جائز ہوگا۔
پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمان نے الزام لگایا ہے کہ حکومت ایجنسیوں کے ذریعے سینیٹرز کو ہراساں کررہی ہے۔ ان پر سرکاری امیدوار کو ووٹ دینے کے لئے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ اگست 2019 میں عمران خان کی حکومت صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن کی واضح اکثریت کےباوجود ’خفیہ ووٹ‘ میں ان پر اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ اپوزیشن کے 14 ’باضمیر‘ سینیٹرز اس موقع پر حکومت کے کام آئے تھے۔ اب بھی کوئی ایسا ہی کرشمہ صادق سنجرانی کو دوبارہ چئیر مین سینیٹ منتخب کروا سکتا ہے۔ دیانت داری سے یہ انتخاب جیتنے کے لئے حکومت کے پاس نمبر پورے نہیں ہیں۔
(بشکریہ:کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ