صحافی نجومی نہیں ہوتا۔ سیاسی منظر نامہ کا تجزیہ کرتا ہے اور اسی کے حساب سے اپنا اندازہ قارئین کے سامنے پیش کرتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں یہ اندازہ کرنا اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف ہے۔ اس لئے کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ جمعہ کو چئیرمین سینیٹ کے انتخاب میں کون کامیاب ہوگا۔ یہ مقابلہ برابری کا نہیں ہے۔ یہ اصولوں کے درمیان جنگ بھی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک ہی اصول پر دو دھڑے بنے ہیں ۔ ایسے میں سنجرانی کامیاب ہوں یا گیلانی ، اصول تبدیل نہیں ہوگا ۔ تبدیلی کا اختیار کب کا عوام سے لے کر اس سرد خانے میں ’محفوظ‘ کیا جاچکا ہے جس پر قومی مفاد کے محافظ پہرہ دار ہیں۔
بطور قوم ہمیں اس صورت حال کو تسلیم کرلینے میں کوئی دقت بھی نہیں ہے ۔ مسئلہ صرف اس وقت پیدا ہوتا ہے جب سراب سے پانی کی ایک بوند بھی دستیاب نہیں ہوتی۔ پھر لوگ لکیر پیٹتے اور اپنے نصیب کو روتے ہیں۔ عمران خان اور تحریک انصاف کے ساتھ یہی معاملہ ہؤا ہے۔ اسی لئے پاکستان میں اگر لوگ حکومت کی ناقص کارکردگی، معاشی ناکامی اور سیاسی بے حسی سے نالاں ہیں تو بیرون ملک مقیم پاکستانی اب بھی ملکی سیاست میں دیانت کا انقلاب برپا کرنے کی اسی دیرینہ خواہش کو سینچ رہے ہیں جو انہوں نے کرکٹ کے میدان میں جادو جگانے والے ہیرو عمران خان سے وابستہ کررکھی ہے۔ اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے ۔ امریکہ ، یورپ یا آسٹریلیا جیسے ملکوں میں رہنے والے پاکستانیوں کا مستقبل پاکستان سے وابستہ نہیں ہے۔ پاکستان ان کے لئے ایک ناسٹلجیا ہے۔ وہ اس خواب کی تکمیل عمران خان کے پرفریب دعوؤں میں تلاش کرکے میزبان ملکوں کی آرام دہ فلاحی زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
یہ سابقہ پاکستانی یا دوہری شہریت کے حامل لوگ پاکستان اور اس کے باشندوں پر بیتنے والے حالات کا نہ تو اندازہ کرسکتے ہیں اور نہ ہی انہیں وہ تمام غیر جمہوری ہتھکنڈے دکھائی دیتے ہیں جو کسی بھی نظام کو کھوکھلا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ ان کے لئے سب سے بڑی جمہوریت یہی ہے کہ ان کا ہیرو اس وقت برسر اقتدار ہے۔ یہ جانے بغیر کہ جب وہ ہیرو تھا تو وہ خود بھی جوان تھے اور کچھ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی صلاحیت کو ملک میں تبدیلی کے لئے وقف کرنے کی بجائے اپنے اور اپنے خاندان کا مستقبل محفوظ کرنے پر صرف کیا۔ وہ مطمئن ہیں لیکن بدقسمتی سے یہ اطمینان اہل پاکستان کو نصیب نہیں ہے۔
اسی بدنصیبی کا اظہار کبھی’ پی ڈی ایم ‘کی صورت میں ہوتا ہے اور کبھی ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ منزل مقصود ٹھہرتا ہے۔ عمران خان یہ سادہ سی بات سمجھنے سے قاصر رہے ہیں کہ اگر وہ عوام کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کا اہتمام کرسکتے اور اگر بھوک، احتیاج اور مسائل سے عاجز لوگوں کو سرنگ کے آخری کنارے پر روشنی کی معمولی سی کرن بھی دکھائی دے تو انہیں عمران خان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ عمران خان اپنے اقتدار کی نصف مدت میں یہ واضح کرچکے ہیں کہ وہ اس حقیقت کو سمجھنے کی صلاحیت سے بہرہ ور نہیں ہیں۔ کسی کو اس پر حیران بھی نہیں ہونا چاہئے۔ عمران خان کرکٹ کے کھلاڑی ہیں اور سیاست و معیشت کسی کھیل کا میدان نہیں ہے۔ اس کے لئے جس ہنر، تدبر اور مصلحت کوشی کی ضرورت ہے، فاسٹ بالر کا مزاج رکھنے والے عمران خان ان سے نابلد ہیں۔
جمعہ کو چئیرمین سینیٹ کے انتخاب کے لئے جس ’کانٹے دار‘ مقابلہ کی نوید دی جارہی ہے، وہ ملک کی سیاسی قوتوں کے درمیان متبادل سیاسی پروگرام نافذ کرنے کی خواش کا مقابلہ نہیں ہے۔ یہ اقتدار کی بند بانٹ میں زیادہ چالاکی دکھانے والے ہنر مند کا کرتب دیکھنے اور اس پر واہ واہ کرنے کا کھیل ہے۔ عوام کی بھوک اور ملک کو درپیش مسائل، اس کھیل میں رونق لگانےاور ناظرین اکٹھے کرنے کا طریقہ ہیں۔ اس لئے کامیاب کوئی بھی ہو ، تالی کی گونج برابر سنائی دےگی۔ ہارنے والا دوسرے کو چور کہے گا لیکن عوامی مینڈیٹ میں نقب لگانے والوں کے ساتھ اپنائیت میں گلے شکوے کا رشتہ استوار رکھا جائے گا۔ تاکہ کسی اگلے موڑ پر اس تعلق کو کسی دوسری صورت میں استعمال کرنے کا امکان باقی رہے۔ کہتے ہیں سیاست امکانات کا کھیل ہوتا ہے لیکن پاکستان میں ان امکانات کی تلاش کسی عوامی بہبود کے منصوبے کے لئے نہیں کی جاتی بلکہ کسی منصب پر ایک خاص ڈھب سے سرفراز ہونے کا راستہ تلاش کرنے کو سیاسی ہنر مندی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسی لئے سینیٹر کے طور پر یوسف رضا گیلانی کی کامیابی پر افتخار کی پگڑی آصف علی زرداری کے سر باندھی گئی ہے اور جمعہ کو گیلانی ہار گئے تو خفیہ نمبروں سے آنے والی کالز اس کا سبب قرار پائیں گی۔
ملکی سیاست میں امکانات اور ممنوعات کی تخصیص کردی گئی ہے۔ ایسے رہنما اصولوں کا سرکاری نوٹی فیکیشن جاری نہیں ہوتا لیکن سب کو ان کی خبر ہوتی ہے اور سب ان کا احترام کرتے ہیں۔ ایسے میں صرف ایک استثنیٰ ہے: وہ ملک کے سادہ دل اور مجبور عوام ہیں۔ انہیں جس پارٹی یا لیڈر سے کسی خیر کی امید ہوتی ہے، ان کا جھکاؤ اسی کی طرف ہوجاتا ہے۔ یا عوامی مفاد کے لئے ظلم برداشت کرنے والے کو عام لوگوں کی تائد و حمایت حاصل رہتی ہے۔ کوئی دھوکہ دے لیکن پاکستان کا عام آدمی کبھی کسی مظلوم کو دھوکہ نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے جاں نثار موجود ہیں کیوں کہ پاکستان کے عوامی شعور میں یہ بات راسخ ہے کہ انہوں نے غریب عوام کو وقار دلانے کے لئے نہ صرف اپنی سہولتیں قربان کیں بلکہ جان کی بازی بھی لگادی۔
اب یہی امتیاز نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نوازکو حاصل ہے۔ عوام کو جب تک دکھتا رہے گا کہ یہ دونوں عوامی بالادستی کی جد و جہد میں ظلم اور ناانصافی کا سامنا کررہے ہیں، عوام ان کو سر آنکھوں پر بٹھاتے رہیں گے۔ عدالتی فیصلے یا بدعنوانی کے سرکاری اعلانات اس مزاج کو تبدیل نہیں کرسکتے۔ یہی رویہ دراصل طاقت کے مراکز کےلئے درد سر بنا ہؤا ہے۔ اقتدار کا راستہ ان مراکز کی نگرانی ہی میں طے کرنے کی ریت اتنی راسخ ہوچکی ہے کہ اسے تبدیل کرنے کا کوئی طریقہ فی الوقت کارگر نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چئیرمین سینیٹ کے مقابلے میں بظاہر برسر پیکار تو اپوزیشن اور حکومت ہے لیکن داؤ پر ریاست کے مفاد ات لگے ہیں۔ اسی لئے وزیر داخلہ شیخ رشید نے صادق سنجرانی کو حکومت اور ریاست کا مشترکہ امید وار قرار دے کر گویا ان کی فتح کی نوید پہلے سے عام کردی ہے ۔
تحریک انصاف نئے انتخاب کے بعد سینیٹ کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی ہے لیکن وزیر اعظم عمران خان کو چئیرمین کے عہدے پر اپنی پارٹی کا امیدوار کھڑا کرنے کا حوصلہ نہیں ہؤا کیوں کہ ایسے امید وار کو شاید شیخ رشید کے بقول ریاست و حکومت کا مشترکہ امیدوار ہونے کا اعزاز نہ مل سکتا۔ 3 مارچ کو حفیظ شیخ کی شکست اور 6 مارچ کو اعتماد کا ووٹ لینے کے دوران ہونے والے تجربات سے عمران خان کو یہ سبق پھر سے یاد کرنا پڑا ہے کہ امید وار وہی تگڑا ہے جسے پہلے سے چھان پھٹک لیا جائے۔ صادق سنجرانی اسی چھان پھٹک کا نتیجہ ہیں۔ اسی لئے جو سنسنی خیز مقابلہ دیکھنے کے لئے پوری قوم نے سانس روک رکھی ہے، فیصل وواڈا اسے یک طرفہ مقابلہ کہتے ہیں۔ ظاہر ہے فیصل واوڈا سے زیادہ کون اس بات کو جانتا ہوگا کہ کامیابی ہر صورت میں کس کا مقدر ہوتی ہے۔ درست ٹیم چن کر بندہ قومی اسمبلی کی رکنیت چھوڑے تو سینیٹر منتخب ہوجاتا ہے۔
عمران خان کی مجبوری دیکھئے کہ چئیرمین کے لئے ایسے شخص کی پشت پر ہاتھ رکھنے پہ مجبور ہیں جو بلاول بھٹو زرداری کے بقول 2018 میں چئیرمین منتخب ہو کر پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کا وعدہ کرکے گیا تھا لیکن بعد میں منحرف ہوگیا۔ بلاول نے یہ تو نہیں بتایا کہ پیپلز پارٹی نے کیوں صادق سنجرانی کو جتوانے کا ارادہ کیا تھا اور ان سے پارٹی میں شامل ہونے کا صرف وعدہ لے کر ہی کیوں انہیں ووٹ دے دیا گیا ؟اور پارٹی وفادار رضا ربانی کو نواز شریف کی حمایت کے باوجود منتخب کروانے کا جتن کیوں نہیں کیا گیا؟ لیکن یہ طے ہے کہ آصف زرداری نے جو گیم 2018 میں لگائی تھی اور ناکام رہے تھے ، اب وہی کھیل ذرا مختلف طریقے سے کھیلے ہیں۔ 2018 میں بلوچستان کی حکومت گرانے کے بعد سینیٹ میں کردار ادا کرنے پر آصف زرداری نے جس انعام کی توقع کی تھی، وہ تو انہیں نہیں ملا ۔ دیکھنا ہے کہ اب وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوں گے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ 2018 میں مسلم لیگ (ن) کو چوٹ دینے کے لئے زرداری استعمال ہوئے، اب وہ مسلم لیگ (ن) کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلا رہے ہیں۔ اس کی ضمانت البتہ نہیں ہے کہ اس بار بھی نشانہ نہیں چوکے گا۔
جمعہ کو سینیٹ میں جو میچ ہوگا اس میں ممنوعات کا اعلان ہوچکا ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز ان’ نو گوز ‘ میں سر فہرست ہیں۔ یہ بات پنجاب کے ان کروڑوں لوگوں تک تو نہیں پہنچائی جا سکتی جو اب بھی نواز شریف کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کوووٹ دیں گے لیکن جیتی ہوئی گیم تبدیل کرکے، ان کے سیاسی حلیفوں کو ضرور سمجھایا جائے گا کہ کامیابی کا راستہ نواز شریف کی تقریروں اور مریم نواز کے ٹوئٹ سے ہوکر نہیں گزرتا۔ نمبر گیم میں ہارنے کے بعد سرکاری امید وار کے طور پر صادق سنجرانی کی جیت کا یہی ایک طریقہ باقی بچاہے۔ اگر اس موقع پر بھی ماضی قریب کی طرح اوپن ووٹنگ کی دہائی دی جاتی تو صادق سنجرانی اس وقت تک شکست تسلیم کرکے کوئٹہ واپسی کا ٹکٹ بک کروا چکے ہوتے۔ پاکستانی سیاست میں نمبر اہمیت نہیں رکھتے۔ انہیں تبدیل کرنے کا ہنر اہم ہے۔
دو باتیں البتہ واضح ہیں: مان لیا جائے کہ صادق سنجرانی جیت گئے تو عمران خان کس منہ ’این آر او نہیں دوں گا‘ کا نعرہ لگائیں گے ۔ اور وہ مریم نواز کی اس بات کا کیا جواب دیں گے کہ’ اب عمران کے این آر او مانگنے کاوقت آگیا ہے‘۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ نمبروں کی ہیرا پھیری کبھی عوامی مقبولیت کا متبادل نہیں ہوسکتی۔ اسی لئے نواز شریف کی سیاسی طاقت کو ختم کرنے کا یہ طریقہ بھی ناکام رہے گا۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ