وزیراعظم عمران خان نے اڑھائی برس کی مختصر مدت میں چھٹی بار کابینہ میں تبدیلی کرتے ہوئے شوکت ترین کو وزیر خزانہ مقرر کیا ہے۔ یہ عہدہ صرف سترہ روز پہلے حماد اظہر کو اس امید کے ساتھ دیا گیا تھا کہ وہ ’مہنگائی پر قابو پانے کے لئے وزیر اعظم کے ایجنڈے کو پورا کریں گے‘۔ حیرت ہے کہ وہ کون معجزہ نما ہے جو دو ہفتے کی مختصر مدت میں پاکستان جیسی معیشت میں قیمتوں کو ایسی سطح پر لاسکتا ہے جس سے عمران خان بھی راضی ہوجائیں اور عوام بھی ان کی توصیف میں رطب اللسان ہوں۔
اس دوران عمران خان نے آج ٹوئٹ پیغامات کے ایک سلسلہ میں کہا ہے کہ ’تحریک لبیک پر ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے کی وجہ سے انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت پابندی لگائی ہے۔ اس گروہ نے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملے کئے اور تشدد کااستعمال کیاتھا۔ کوئی بھی قانون سے بالا نہیں ہے‘۔ اپنے ٹوئٹ پیغامات کے سلسلہ میں وزیر اعظم نے لبیک تحریک پر پابندی کا جواز فراہم کرتے ہوئے یہ جتانا ضروری سمجھا ہے کہ ’ میں اہل پاکستان کے علاوہ بیرون ممالک میں لوگوں کی اطلاع کے لئے یہ واضح کررہا ہوں‘ ۔ یہ ناقابل فہم ہے کہ وزیر اعظم کو خاص طور سے کن لوگوں کے لئے یہ وضاحت کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی کیوں کہ اہل پاکستان نے تو اس ہفتے کے شروع میں تحریک لبیک کی قانون شکنی اور تشدد کے مظاہرے دیکھ بھی لئے تھے اور کسی حد تک ان کے اثرات سے متاثر بھی ہوئے تھے۔
جہاں تک دوسرے ممالک کا تعلق ہے تو فی زمانہ مواصلت اس حد تک ترقی کرچکی ہے کہ وہ خبریں بھی عام ہوجاتی ہیں جنہیں پاکستان جیسے ملک کی حکومتیں میڈیا کو ’اخلاقی حدود ‘میں رکھنے کے زعم میں نشر و شائع کرنے کی اجازت نہیں دیتیں۔ لبیک تحریک کے احتجاج، اس کے کارکنوں کی غنڈہ گردی اور پھر اس پر پابندی کے بعد ہونے والی کارروائی کے حوالے سے یہ صورت احوال دیکھی جاسکتی ہے۔ لوگوں تک وہ خبریں بھی پہنچیں جو حکومت پہنچانا چاہتی تھی لیکن ان واقعات تک بھی عوام کی رسائی رہی جنہیں کنٹرول کرنے کے جنون میں حکومت وقت پیمرا جیسے اداروں کو استعمال کرتی ہے۔ اگر وزیر اعظم کا مخاطب خاص طور سے فرانس، اس کی حکومت اور وہاں کے عوام تھے تو اس بارے میں بھی عمران خان کو چنداں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ اسلام آباد میں فرانس کا سفارت خانہ چار پانچ روز پہلے ہی اپنے شہریوں اور کمپنیوں کو پاکستان چھوڑنے کا مشورہ دے کر یہ واضح کرچکا ہے کہ اسے حالات کی سنگینی کا پاکستانی حکومت کے اعتراف حقیقت سے پہلے ہی ادراک تھا۔
تاہم عمران خان کے یکے بعد دیگرے جاری کئے گئے ٹوئٹ پیغامات میں تحریک لبیک کے حوالے سے ٹوئٹ پیغام کا اصل مقصد واضح ہوگیا۔ گو کہ اس سے پہلے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی علامہ طاہر اشرفی ، عمران خان کے حب رسولﷺ اور حکومت کے اسلاموفوبیا مخالف ایجنڈے کے بارے میں زور دار بیان جاری کرچکے تھے۔ لیکن عمران خان کے باقی ماندہ ٹوئٹ پیغامات کا مطالعہ کیا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ ان ٹوئٹ پیغامات کے ذریعے دراصل اس سیاسی نقصان کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو تحفظ ناموس رسالتﷺ کی دعویدار ایک تنظیم پر پابندی لگانے کی وجہ سے عمران خان کی شہرت اور تحریک انصاف کی سیاسی پوزیشن کو پہنچنے کا امکان ہے۔ اسی لئے بعد کے ٹوئٹ پیغامات میں رسول پاک ﷺ کے ساتھ مسلمانوں کی عقیدت و احترام کا خاص طور سے ذکر کرتے ہوئے یورپ کے ان انتہا پسند عناصر سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جو اپنے غیر ذمہ دارانہ بیانات کی وجہ سے دنیا کے سو ا ارب سے زائد مسلمانوں کی دل شکنی کا سبب بنتے رہے ہیں۔
عمران خان نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مغربی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ جیسے یورپ میں ہالوکاسٹ پر منفی تبصروں کی پابندی عائد ہے، اسی طرح مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور توہین رسالتﷺ پر بھی پابندی لگائی جائے۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ’آزادی رائے کا دعویٰ کرتے ہوئے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے عناصر میں اتنی اخلاقی جرات ہونی چاہئے کہ وہ دنیا کے ایک ارب 30 کروڑ مسلمانوں سے معافی مانگیں‘۔ وزیر اعظم نے یہ سارے ٹوئٹ پاکستانی شہریوں کو مخاطب کرتے ہوئے جاری کئے ہیں۔ عمران خان کو بھی اتنا اندازہ تو ہوگا کہ جو انتہا پسند عناصر مسلمانوں اور اسلام کے خلاف منفی بیان دیتے ہیں، وہ اسے غلطی نہیں سمجھتے اور نہ ہی مسلمانوں کی بطور گروہ دل آزاری کو ناقابل قبول سیاسی، سماجی یا صحافتی رویہ سمجھا جاتا ہے۔
یورپ میں آزادی رائے اور توہین مذہب کی موجودہ بحث چار دہائی پرانی ہے۔ اس کا آغاز سلمان رشدی کے ناول ’شیطانی آیات‘ کو بنیاد بنا کر ایران کے آیت اللہ خمینی کے فتوی سے ہؤا تھا۔ اس فتویٰ میں سلمان رشدی کو واجب القتل قرار دے کر اسے ہلاک کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی۔ بعد میں متعدد ایرانی تنظیموں نے سلمان رشدی کو قتل کرنے والے شخص کے لئے انعامات کا اعلان بھی کیا۔ یہ بات بھی پاکستانی وزیر اعظم کے علم میں ہونی چاہئے کہ پاکستان سمیت کسی مسلمان ملک یا کسی دوسرے دینی رہنما نے کبھی آیت اللہ خمینی کے اس فتویٰ کی توثیق نہیں کی۔ یہ بحث 2005 میں ڈنمارک کے روزنامہ ای لاند پوستن میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے بعد شدت اختیار کرگئی۔ مسلمانوں کے شدید رد عمل اور بعض ملکوں میں تشدد کے واقعات کی وجہ سے اسلام دشمن عناصر کو مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا موقع ملا۔ اسی پس منظر میں فرانسیسی جریدے چارلی ہیبڈو نے جنوری2015 میں ای لاند پوستن والے خاکوں کے علاوہ اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے بار ے میں گستاخانہ خاکے شائع کئے۔
اسی سال چارلی ہیبڈو پر دہشت گرد حملہ میں درجن بھر افراد ہلاک ہوئے جس پر فرانس کے علاوہ دنیا بھر میں شدید رد عمل سامنے آیا اور اس دہشت گردی کو شدید الفاظ میں مسترد کیا گیا۔ اس حوالے سے پیرس میں منعقد ہونے والے خاموش احتجاجی مارچ میں ساٹھ سے زائد ملکوں کے رہنما شریک ہوئے جن میں متعدد مسلمان لیڈر بھی شامل تھے۔ ان سب نے ’ ہم سب چارلی ہیں‘ کے بینر تلے مارچ کیا تھا۔ چارلی سے مراد چارلی ہیبڈو نامی فرانسیسی جریدہ تھا جس کے خلاف خاکے شائع کرنے کی وجہ سے دہشت گرد حملہ کیا گیا تھا۔ توہین مذہب کی بحث نے گزشتہ برس پیرس کے نواح میں ایک استاد کے قتل کی وجہ سے نیا رخ اختیار کیا۔ سیموئیل پیٹی پر الزام تھا کہ اس نے چارلی ہیبڈو کے شائع شدہ خاکے کلاس میں دکھائے تھے۔ ایک مسلمان نوجوان نے اس کا سر قلم کرکے دن دہاڑے اسے ہلاک کیا تھا۔ اس بہیمانہ واقعہ سے پیدا ہونے والے حالات اور جذبات کی وجہ سے فرانسیسی سیاست میں متعدد انتہائی اقدام دیکھنے میں آئے ہیں۔
فرانس کے صدر میکرون نے اس واقعہ کے بعد آزادی رائے کو فرانسیسی ثقافت بتاتے ہوئے ، توہین مذہب کو آزادی رائے کا لازمی جزو قرار دیا تھا۔ فرانسیسی صدر کے ایسے ہی الفاظ کی وجہ سے دنیائے اسلام میں غم و غصہ کا اظہار بھی کیا گیا تھا۔ تاہم وزیر اعظم پاکستان جب پس منظر کو نظر انداز کرتے ہوئے اسلامو فوبیا کی بات کرتے ہیں اور توہین مذہب کو ہالوکاسٹ کے ساتھ ملاتے ہیں تو دنیا میں کوئی اس جواز کو تسلیم نہیں کرتا کیوں کہ پاکستانی رہنما مذہب کے نام پر تشدد، دہشت گردی یا قتل و غارت گری کی اتنی ہی شدت سے مذمت کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ یورپی تناظر میں دیکھا جائے تو مٹھی بھر انتہا پسندوں نے ’مذہب دوستی‘ کے نام پر دہشت گرد حملوں سے یورپ میں مسلمانوں کی پوزیشن خراب کرنے میں سنگین کردار ادا کیا ہے۔ یہ دہشت گرد عناصر اور مذہب کو تشدد کے لئے استعمال کرنے والے لوگ مسلمانوں کے مفادات اور اسلام کے بارے میں ہونے والے منفی مباحث کے حقیقی ذمہ دار ہیں۔ یورپ کے اسلامو فوبیا کو مسترد کرتے ہوئے ان عناصر کی خوں ریزی کو فراموش کرنے سے کبھی مکالمہ کی صورت پیدا نہیں ہوسکتی۔
عمران خان کے آج جاری ہونے والے ٹوئٹ تحریک لبیک کے نعروں کو اپنانے کی افسوسناک کوشش ہیں۔ وزیر اعظم نے ان ٹوئٹس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان میں اور تحریک لبیک میں صرف یہ فرق ہے کہ وہ تشدد پر اتر آئے جبکہ عمران خان عالمی سطح پر اسلام اور حرمت رسولﷺ کے سب سے بڑےوکیل ہیں۔ کسی کی نیت پر رائے زنی کا محل نہیں لیکن دنیا کا کوئی بھی مسلمان حرمت رسولﷺ کے بارے میں یکساں طور سے گہری عقیدت و محبت کے جذبات رکھتا ہے۔ تاہم جب کوئی سربراہ حکومت مذہب کے نام پر تشدد کا پرچار کرنے والی ایک تنظیم کو مسترد کرتے ہوئے ویسے ہی جذبات انگیختہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی حکمت اور بصیرت پر غور کرنا چاہئے۔ عمران خان کو تحریک لبیک پر پابندی کی بات کرتے ہوئے سب سے پہلے اس بات کا جواب دینا چاہئے کہ فرانسیسی سفیر کو ملک بد کرنے کے لئے ان کی حکومت نے تحریک لبیک کے ساتھ پہلے گزشتہ سال نومبر اور پھر اس سال فروری میں جو معاہدے کئے تھے، وہ درست تھے یا جو مؤقف وہ اب اختیار کررہے ہیں، وہ جائز اور ٹھیک ہے؟
عمران خان سب کے لئے یکساں قانون کی بات کرتے رہتے ہیں۔ امید کرنی چاہئے کہ وہ خود کو بھی قانون کےسامنے اسی طرح جواب دہ سمجھتے ہوں گے جیسے وہ دوسروں کو گرادنتے ہیں۔ کابینہ میں بار بار تبدیلیوں کے دوران یہی دیکھا گیا ہے کہ چہرے وہی ہیں لیکن وزارتیں تبدیل کردی جاتی ہیں۔ مثلاً شبلی فراز کہاں کے سائنسدان ہیں کہ وہ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی میں کوئی معرکہ سرانجام دے لیں گے۔ اتنے وزیر اور قلمدان تبدیل کرنے پر بھی عمران خان کی حکومت کارکردگی دکھانے میں بدستور ناکام ہے۔ سب کے ساتھ مساوی سلوک کے اصول کے تحت انہیں ایک بار وزارت عظمی کسی دوسرے کے حوالے کرکے دیکھ لینا چاہئے ۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی پارٹی کا کوئی دوسرا لیڈر بطور وزیر اعظم ان مسائل کو بہتر طور سے سمجھ پائے جو بوجوہ عمران خان کی فہم سے بالا ہیں۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ