پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری نے اعلان کیا ہے کہ 17 جنوری سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور وزیر قانون رانا ثنا اللہ کے خلاف مہم اب صرف ماڈل ٹاؤن کے سانحہ میں جاں بحق ہونے والے لوگوں کے لئے انصاف کی مہم نہیں ہوگی بلکہ یہ قصور میں ظلم کا نشانہ بننے والی بچی زینب کے لئے انصاف کا تقاضا بھی کرے گی۔ علامہ طاہرالقادری نے یہ اعلان پنجاب حکومت کے خلاف تحریک کے لئے قائم ایکشن کمیٹی کے اجلاس کے بعد کیا ہے۔ اس کمیٹی کا اجلاس لاہور میں منعقد ہؤا اور اس میں پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے نمائیندے بھی شریک ہوئے۔ اس دوران عمران خان نے میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ان کی پارٹی ڈاکٹر طاہرالقادری کی حکومت مخالف تحریک کا حصہ ہوگی کیوں کہ یہ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے اور ان کی حفاظت کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ اس سے پہلے 2014 میں بھی پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے اور دھرنا دینے کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کرچکے ہیں ۔ اس موقع پر دونوں جماعتوں نے علیحدہ علیحدہ اسٹیج بنا کر احتجاج کیا تھا لیکن وہ ایک دوسرے کی مکمل حمایت بھی کررہے تھے۔ تاہم ڈاکٹر طاہر القادری نے اچانک دھرنا ختم کرنے کا اعلان کرکے عمران خان کو تنہا چھوڑ دیا تھا جس کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان تناؤ پیدا ہو گیا تھا۔البتہ نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف مہم میں دونوں لیڈر اب بھی ہم آواز ہیں ۔ نواز شریف کی نااہلی کے بعد چونکہ بدستور ملک میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت برقرار ہے اور پنجاب میں بھی شہباز شریف کی حکومت کو بھی کوئی خطرہ دکھائی نہیں دیتا ، اس لئے شریف خاندان کے خلاف مہم جو ہر سیاسی جماعت اور گروہ تنکے کا سہارا بھی ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ علامہ طاہر القادری کی بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت اور حکومت کے خلاف احتجاج اور مظاہرہ کا نیا سلسلہ شروع کرنے میں تعاون کرنے کا فیصلہ بھی کسی اصول کی حمایت یا طاہر القادری کی ’ اولالعزم ‘ قیادت پر یقین کا شاخسانہ نہیں ہے بلکہ بغض معاویہ کے مصداق پنجاب کی سیاست پر شریف خاندان کا کنٹرول کم کرنے کی خواہش کا اظہار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی پارٹیوں کے پلیٹ فارم سے ایک دوسرے کو مغلظات سنانے والی دو پارٹیاں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف طاہر القادری کے ساتھ مل کر ایک نئی حکومت مخالف تحریک کا حصہ بننے کا اعلان کررہی ہیں۔ اس قسم کی مہم جوئی کا مقصد خبروں میں جگہ بنائے رکھنے کے علاوہ حکومت کو مصروف رکھنے اور اس سال کے دوران ممکنہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی پوزیشن کو کمزور کرنے کی کوشش ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ ملک کی تین بڑی سیاسی پارٹیوں میں شامل دو جماعتیں یعنی پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف براہ راست ووٹروں کو متاثر کرنے اور پارٹی پروگرام یا اپنے لیڈروں کی سیاسی شخصیت کے بل بوتے پر انتخابات جیتنے کا حوصلہ کرنے کی بجائے مستقل اس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح شریف خاندان کو سیاست سے باہر کیا جاسکے یا انہیں بدنام کرکے اس پارٹی کے ووٹروں کو منتشر کیا جاسکے۔ اسی لئے بعض تجزیہ نگار اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ ایک طرف ملی مسلم لیگ اور تحریک لبیک جیسی کٹر مذہبی جماعتیں نواز لیگ کے خلاف مہم جو ہیں تو دوسری طرف ایک واضح سیاسی ایجنڈے پر اقتدار کی کوشش کرنے والی مسلمہ سیاسی جماعتیں بھی تخریبی سیاست پر عمل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتیں۔ اس وقت اپوزیشن کی تمام جماعتوں اور گروہوں کا اس ایک نکاتی ایجنڈے پر اتفاق دکھائی دیتا ہے کہ کسی طرح نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف مہم کو زندہ رکھا جائے۔ یہ جماعتیں طویل عرصہ تک یہ امید لگائے بیٹھی رہی ہیں کہ کسی طرح مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا بستر گول کرکے کوئی عبوری سیٹ اپ سامنے لایا جائے گا۔ اس طرح ملک کی سب سے بڑی جماعت میں پھوٹ پڑ جائے گی اور اس انتشار کی حالت میں پیدا ہونے والی بندر بانٹ میں وہ بھی اقتدار میں اپنا حصہ وصول کرسکیں گی۔گزشتہ جولائی میں سپریم کورٹ کی طرف سے نواز شریف کو نااہل قرار دیئے جانے کے بعد سے یہ امید قوی ہو گئی تھی اور یہ توقع کی جارہی تھی کہ مسلم لیگ (ن) کے اکثر ارکان اب نواز شریف بلکہ شریف خاندان کے خلاف ’بغاوت ‘ کردیں گے اور اس بحران میں عبوری حکومت معرض وجود میں آئے گی۔ اس کے بعد یہ باتیں بھی زور شور سے کی جاتی رہی ہیں کہ ملک میں ٹیکنوکریٹ حکومت قائم کی جارہی ہے یا کی جانی چاہئے، تاکہ سیاسی حکومتوں نے جو مسائل پیدا کئے ہیں ، ان سے ماہرین کی حکومت کے ذریعے نمٹا جا سکے۔ تاہم یہ دونوں امیدیں کسی نہ کسی وجہ سے پوری نہ ہو سکیں۔ اس کی اہم ترین وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کسی غیر جمہوری طریقہ کی حمایت پر راضی نہیں ہیں۔ اس کی ایک وجہ جمہوریت کے لئے ان کی کمٹمنٹ بھی ہو سکتی ہے ۔ لیکن دوسری طرف یہ حقیقت بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ جولائی میں نواز شریف کی نااہلی کے تھوڑی دیر بعد ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کے بارے میں اپنی حکومت کی نئی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔پالیسی تو وہ یہ بیان کرنا چاہ رہے تھے کہ امریکی حکومت کس طرح افغانستان میں ہاری ہوئی جنگ کو جیت لے گی لیکن وہ امریکہ کی ناکامی کا سارا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے پاکستان سے یہ مطالبہ کررہے تھے کہ وہ حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کے خلاف کارروائی کرے۔ نئے سال کے موقع پر ٹرمپ کے پاکستان دشمن اور جارحانہ ٹویٹ کے بعد سامنے آنے والی اطلاعات میں اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ٹرمپ حکومت دراصل پاکستانی فوج کو پوری طرح افغان جنگ میں جھونک دینا چاہتی ہے۔ اسی لئے پاکستان کی عسکری امداد معطل کرکے دراصل پاک فوج پر دباؤ میں اضافہ کیا گیا ہے۔ ان حالات میں پاک فوج کے بعض ادارے گو کہ ملکی سیاست میں مرضی کے مہرے چلنے میں مصروف رہے ہیں لیکن فوج کی قیادت کو یہ خبر ہے کہ اس وقت امریکہ جیسی سپر پاور کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لئے ملک میں سیاسی حکومت کا برقرار رہنا ضروری ہے۔ موجودہ حالات میں یہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ سیاسی منظر نامہ میں نواز شریف ناکامی کے باوجود شکست خوردہ دکھائی نہیں دیتے اور بظاہر کمزور اور غیر مقبول حکومتیں خواہ وہ مرکز میں ہو یا پنجاب میں ۔۔۔ لشٹم پشٹم چل رہی ہیں۔یہ صورت حال اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ درپردہ ڈوریاں ہلانے والے عناصر کے لئے بھی خوش آئیند نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ معاملات مشہور زمانہ ’اسکرپٹ‘ کے مطابق نہیں ہیں۔ لیکن اچھا اسکرپٹ رائٹر کہانی ناکام ہونے کی صورت میں بھی اسے نیا موڑ دے کر آگے بڑھانے کو کوشش کرتا ہے تاکہ ہیرو غیر ضروری طور پر پر اعتماد نہ ہو جائے اور ولن کے لئے بھی کہانی میں گنجائش باقی رہے۔ کیوں کہ وقت آنے پر ولن کے ہی کسی کردار سے ہیرو تراشنا بھی اچھے کہانی کار کا کمال ہوتا ہے۔ اس پس منظر میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو علامہ طاہر القادری سے زیادہ کارآمد کردار نہ تو اسٹیبلشمنٹ کو دستیاب ہوسکتا ہے اور نہ ہی اپوزیشن کی سیاسی پارٹیوں کو اس وقت ان کی سیادت قبول کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ سبھائی دیتا ہے۔ امریکہ کی منہ زوری اور سیاسی حکومت کی دلیری کے اس ماحول میں اگر ملک کی تمام سیاسی قوتیں ایک پیج پر اکٹھا ہو سکتیں تو یہ ایک ایسا انہونا موقع ضرور تھا کہ وہ سیاسی اور قومی منظرنامہ میں فوج کی مداخلت کا راستہ تنگ کرنے کے لئے مؤثر اقدام کرسکتی تھیں۔ کیوں کہ جس وقت ملک کی سیاسی حکومت امریکہ کو چیلنج کرنے اور جوابی کارروائی کے لئے پر تولے دکھائی دیتی ہے تو اسی لمحے یہ بات بھی نوٹ کی جاسکتی ہے کہ فوج اس وقت تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرنے اور امریکہ کے ساتھ کسی درپردہ مفاہت تک پہنچنے کو ہی قومی مفاد کے لئے نسخہ کیمیا سمجھ رہی ہے۔ دیوار سے لگی فوج کے مقابلے میں سیاسی قوتوں کی کامیابی کے اس مرحلے میں البتہ نان اشوز کو بنیاد بنا کر مسلسل ہنگامہ آرائی اور سیاسی شور و غل فوج کے لئے نہایت کارآمد ثابت ہوگا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی زیر قیادت اپوزیشن کے تمام سیاسی لیڈر یہی کارنامہ سرانجام دینے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ ان کی معاونت کے لئے سرگودھا کے پر حمید الدین سیالوی ہفتہ کے روز سے داتا دربار لاہور سے پنجاب کے وزیر قانون کے استعفی ٰ کے لئے احتجاج کا سلسلہ شروع کرنے والے ہیں۔ موجودہ حالات میں البتہ بظاہر یہ امکان نہیں ہے کہ مرکز یا پنجاب کی حکومت کو گرایا جاسکے۔ تاہم د باؤ جاری رکھ کر انہیں مسلسل دفاعی پوزیشن میں ضرور رکھا جاسکتا ہے تاکہ مسلم لیگ (ن) غیر ضوری طور پر پراعتماد نہ ہوجائے اور نواز شریف تقریروں میں جو زہر اگل رہے ہیں ، اسے نظام میں منتقل کرنے کی کوشش نہ کرسکیں۔17 جنوری سے شروع ہونے والے احتجاج کا اس کے سوا کوئی دوسرا مقصد نہیں ہو سکتا۔ اسی لئے طاہر القادری یہ اعلان کررہے ہیں کہ یہ احتجاج قانون کے دائرے میں رہ کر کیا جائے گا اور آصف علی زرداری نے بھی یہ بیان دینا ضروری سمجھا ہے کہ آئین میں کسی ٹیکنوکریٹ حکومت کی گنجائش نہیں ہے، اس لئے پیپلز پارٹی کسی غیر آئینی طریقہ کی حمایت نہیں کرے گی۔ حالانکہ بات اب ٹیکنوکریٹ حکومت اور غیر آئینی اقدام کے امکان سے آگے نکل چکی ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ دوبارہ ایسے حالات کب پیدا ہوں گے جب ’ آئین ‘ کو اپنے ہی محافظوں سے خطرہ لاحق ہوجائے۔ فی الوقت تو حالات کو بھانپتے ہوئے آصف زرداری نے نہ صرف سینیٹ کے انتخابات برقت ہونے کی پیشگوئی کی ہے بلکہ خود بھی ان انتخابات میں امیدوار بننے کا اعلان کیا ہے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ