پاکستان کا بچہ بچہ صرف سچ جاننا چاہتا ہے۔ اس خواہش میں عام آدمی سے لے کر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تک سب ہی شامل ہیں لیکن کسی طور یہ خواہش پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ پاتی۔ قصور میں سات سالہ زینب کے اغوا، اس کے ساتھ زیادتی کے بعد بہیمانہ قتل کے سانحہ سے پاکستانی قوم کی سچ جاننے کی شدید خواہش اور اس کی تلاش میں ہر طرح کے ہتھکنڈے اختیار کرنے کی کوششوں کا ایک نیا روپ سامنے آیا ہے۔ اس کا ایک رخ آج سپریم کورٹ کے سہ رکنی بنچ کے سامنے پیش ہؤا جب اس معاملہ کے بعض ’خفیہ پہلوؤں‘ کا علم رکھنے والے ٹیلیویژن اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود نے اہم معلومات کا امین ہونے کا دعویٰ برقرار رکھا اور چیف جسٹس کو بتایا کہ’ ابھی تو اس بارے میں کام ہو رہا ہے۔ وہ اپنی اسٹوری پر قائم ہیں ۔‘
ڈاکٹر شاہد مسعود نے اس کے ساتھ ہی ایک بار پھر کسی ثبوت کے بغیر یہ دعویٰ کیا کہ زینب کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی تھی اور پولیس نے صرف ایک ملزم پکڑا ہے۔ اس گھناؤنے جرم میں ملوث باقی لوگوں کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہےکیوں کہ ان کی برس ہا برس سے سرپرستی کی جاتی رہی ہے۔ اس پاکستانی صحافی اور اینکر کا دعویٰ ہے کہ زینب کیس میں گرفتار ملزم عمران دراصل ایک بین الاقوامی چائیلڈ پورنو گرافی گینگ کا حصہ ہے اور اس کے درجنوں اکاؤنٹ ہیں جن میں کروڑوں روپوں کا لین دین ہوتا ہے۔ تاہم اس معاملہ پر سپریم کورٹ کے نوٹس لینے کے بعد سٹیٹ بنک نے واضح کیا ہے کہ عمران کا کوئی بنک اکاؤنٹ نہیں ہے۔ یہ معلومات سامنے آنے کے بعد ڈاکٹر شاہد مسعود نے مؤقف اختیا رکیا تھا کہ تحقیقات کرنا ان کا کام نہیں ہے، اس کام پر مامور ادارے یہ کام کریں۔ میں نے تو خبر دی اور بعض اوقات خبر غلط بھی ہو جاتی ہے۔
سپریم کورٹ نے معاملہ کی حساسیت کا اندازہ کرتے ہوئے اتوار کو چھٹی ہونے کے باوجود اس مقدمہ کی سماعت کرنے کا فیصلہ کیا اور ڈاکٹر شاہد مسعود کی بے سر و پا باتوں سے جھنجلا کر ایف آئی اے کے ڈائیریکٹر جنرل بشیر احمد کی سربراہی میں ایک نئی جے آئی ٹی بنا کر اسے ملزم عمران کے مبینہ لوکل اور فارن کرنسی اکاؤنٹس کے بارے میں تحقیقات کرکے حقائق منظر عام پر لانے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے ڈاکٹر شاہد مسعود کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ اس نئی جے آئی ٹی سے تعاون کریں اور ان اکاؤنٹس کے بارے میں سارے ثبوت فراہم کریں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ ٹیلیویژن اینکر مطلوبہ ثبوت فراہم کردیں گے یا اپنی معلومات کے ناقص ہونے کا باقاعدہ اعتراف کرلیں گے۔ کیوں کہ آج عدالت میں انہوں نے جو رویہ اختیار کیا ہے اس سے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ یہ معاملہ دراصل سچ کی تلاش اور ایک گھناؤنے جرم میں ملوث لوگوں کو سزا دینے سے زیادہ اپنی نیک نامی کی حفاظت کرنا ہے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود اس معاملہ سے یوں باہر نکلنا چاہتے ہیں کہ وہ چند ہفتے یا ماہ بعد کسی نئے ٹی وی ٹاک شو میں یہ دعویٰ کرسکیں کہ انہوں نے تو قوم کو سچ بتا دیا تھا اور وہ اس سچ پر سپریم کورٹ کے دباؤ کے باوجود قائم بھی رہے تھے لیکن ’بااثر‘ لوگوں نے اس معاملہ کو دبا دیا۔ یوں وہ اس قوم کے اس طبقہ کو اس کا پسندیدہ سچ فراہم کرتے رہیں گے جو اس نام نہاد انوسٹیگیٹو جرنلسٹ کی اصلیت سامنے آنے کے بعد بھی یہ مؤقف اختیار کرتے ہیں کہ ’ پاکستان میں کوئی تو ہے جو سسٹم کو چیلنج کرنے کا حوصلہ کرتا ہے ۔ اور سچ کے لئے کھڑا رہنے کو تیار ہے‘۔
اسی مخصوص سچ کی تلاش میں یہ قوم ماری ماری پھرتی ہے۔ وہ اندرونی تنازعات ہوں، ساجی معاملات ہوں ، بین الصوبائی لین دین ہو یا عالمی سطح پر دوسرے ملکوں کے ساتھ تعلقات کا معاملہ ہو ۔۔۔ پاکستان اور اہل پاکستان اس مخصوص سچ کے سحر سے باہر نکلنے کے لئے تیار نہیں ہوتے جسے ان کی آنکھوں کے علاوہ دوسرا دیکھنے سے معذور ہوتا ہے۔ کیوں کہ اکثر صورتوں میں یہ سچ نہیں سچ کے نام پر سراب ہوتا ہے جسے تھامے ہم ایک خوابناک دنیا کی تعمیر میں سرگرم رہتے ہیں۔ اس سحر زدہ کیفیت میں سب سے آسان طریقہ یہ تسلیم کرنا ہے کہ ’میرے سوا باقی سب جھوٹے ہیں‘۔ اسی لئے سیاست اور سماجیات کی ہر سطح پر الزام تراشی اور سازشوں کی تلاش معمول بن چکا ہے، زینب کیس میں کئی کردار اس مزاج کی بخوبی عکاسی کرتے ہیں۔ ہر شخص اپنا پنا سچ اٹھائے اسے تسلیم کروانے کی مہم پر روانہ ہے۔ ایسے میں کسی کو اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ زینب کے ساتھ ہونے والے ظلم میں ملوث شخص اور اس کے معاونین کو سزا مل سکے یا اس مزاج اور منفی سماجی رویہ کی بیخ کنی کے لئے کام کیا جاسکے جس کی وجہ سے بچوں کے ساتھ دست درازی اور ظلم کے واقعات پیش آتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ تحقیق و تفتیش کا جو کام ایک تھانے کی سطح پر مکمل ہو کر مقامی عدالت سے ملزموں کو سزا ملنی چاہئے تھی، اس میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ملوث ہے اور ہر مرحلے کی خود نگرانی کرنا ضروری سمجھتی ہے۔اسی لئے ایک ٹی وی اینکر ایک خود ساختہ سچ کو فروخت کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہے۔ اور اسی وجہ سے مقتول زینب کا باپ کبھی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ملزم کو اس کے خاندان نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا تھا اور کبھی پولیس، حکومت اور تمام اداروں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے مطالبہ کرتا ہے اس معاملہ کی تحقیقات کسی حاضر سروس فوجی افسر سے کروائی جائے۔ اب کون پوچھے کہ ایک حاضر سروس فوجی افسر کسی ریٹائرڈ فوجی افسر یا دوسرے سرکاری اداروں سے متعلق افسروں سے کیوں کر مختلف، قابل یا ایماندار ہو سکتا ہے۔ اس قوم کو جب کسی کھوٹے سچ پر مہر تصدیق ثبت کروانا ہوتی ہے تو آخری سہارے کے طور پر فوج کو سچ کی سب سے بڑی علامت کے طور پر سامنے لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
کوئی نہیں جانتا کہ سچ کی تلاش میں بھٹکتی اس قوم کی تلاش کیسے پوری ہوگی۔ اس کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم اپنے اپنے سچ کو ایک عالمی طور سے تسلیم شدہ سچ میں تبدیل کرنے کی کوشش کریں جو واقعی حقیقی واقعات کو بیان کرتا ہو۔ ورنہ سچ کی تلاش بھی جاری رہے گی اور سماج میں حاوی ظلم بھی ختم نہیں ہوگا۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )