تحریک انصاف کی حکومت شدید دباؤ اور بحران کا شکار ہے۔ اپوزیشن اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔
عمران خان کی کوتاہ اندیشی اور غلط پالیسیوں سے کلام نہیں ہے ، نہ ہی یہ سوال زیر بحث ہے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقرری کو پیچیدہ بنا کر وزیر اعظم نے غیر دانشمندانہ اقدام کیا ہے۔ ایسے موقع پر ملکی سیاسی جماعتوں سے ذمہ داری، ہوشمندی اور اعتدال کے ساتھ معاملات کو سمجھنے کی امید کی جاتی ہے۔ یہ ناقابل فہم ہے کہ پاکستان جمہوری تحریک یا پیپلز پارٹی ملک کو درپیش سنگین مسائل کو محض حکومت کی تبدیلی سے درست کرسکتی ہیں؟
کراچی میں پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے حکومت پر الزام لگایا ہے کہ تمام دیگر سرکاری اداروں اور میڈیا کی طرح اب فوج اور آئی ایس آئی کو بھی ’ٹائگر فورس ‘ میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی ان کا یہ خواب پورا نہیں ہونے دے گی۔ ان کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ تحریک انصاف نے ملک میں مہنگائی کو جس حد تک پہنچا دیا ہے اور ملکی معاشی حالات انتہائی ابتر ہوچکے ہیں۔ اس وقت صرف پیپلز پارٹی ہی پاکستانی عوام کی مشکلات حل کرسکتی ہے۔ اسی پارٹی کے پاس غریب کو مہنگائی کے طوفان سے بچا کر غربت ختم کرنے کا پلان ہے۔
گزشتہ روز فیصل آباد میں پی ڈی ایم کے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کچھ ایسی ہی باتیں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان ہر معاملہ میں ناکام ہوچکے ہیں اور اب ان سے نجات حاصل کئے بغیر چارہ نہیں ہے۔ آج اسلام آباد میں پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے شاہد خاقان عباسی اور محمود خان اچکزئی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف 20 اکتوبر سے احتجاجی مظاہرے کرے گی اور ملک گیر تحریک چلائی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ تین سالوں میں 20 ہزار ارب کے قرضوں کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ حکومت عوام کے بجائے آئی ایم ایف کی ترجمانی کررہی ہے۔ ’ موجودہ صورتحال میں سلیکٹر اور سلیکٹیڈ دونوں پر سوال آتا ہے‘۔
گویا اپوزیشن کے دونوں دھڑے اپنے اپنے طور پر یہ اعلان کررہے ہیں کہ اب حکومت کی تبدیلی کا وقت آگیا ہے اور اگر انہیں اقتدار مل جائے تو وہ تمام مسائل حل کردیں گے۔ یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جس کے حقیقت بننے کا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔ یوں بھی اپوزیشن لیڈروں کے پاس اگر مہنگائی پر قابو پانے کا کوئی قابل عمل اور مؤثر منصوبہ موجود ہے تو اسے خفیہ رکھتے ہوئے، احتجاج اور مہم جوئی کے ذریعے ملکی معیشت کو مزید زیر بار کرنے کی بجائے، ان بنیادی معاشی اصلاحات کا اعلان کرنا چاہئے جن پر عمل سے پاکستان کے غریب عوام کو ریلیف مل سکتا ہے۔ پی ڈی ایم میں شامل بیشتر جماعتوں کے علاوہ پیپلز پارٹی کو بھی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں مناسب نمائیندگی حاصل ہے۔ اس لئے بہتر ہوتا کہ وہ جلسوں میں نعروں کے ذریعے عوام کو ایک نئے سراب کا راستہ دکھانے کی بجائے پارلیمنٹ میں ٹھوس تجاویز کی صورت میں معاشی بے راہروی کو درست کرنے کا منصوبہ سامنے لاتے۔
دنیا بھر کے پارلیمانی نظام میں یہی طریقہ دیکھنے میں آتا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو اگر حکومتی پالیسیوں سے اختلاف ہوتا ہے تو وہ اس پر تنقید کے لئے ذاتی حملوں اور الزام تراشی سے پہلے ان معاشی فیصلوں کی کمزوریوں کی نشاندہی کرتی ہیں جو ان کے خیال میں کسی اقتصادی مشکل کا سبب بنے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی مسلمہ پارلیمانی طریقہ ہے کہ اپوزیشن پارلیمنٹ میں متبادل معاشی تجاویز پیش کرتی ہے تاکہ حکومت کی اصلاح ہوسکے۔ اس طرح عوام کو باور کروایا جاتا ہے کہ درپیش مسائل سے کیسے نمٹا جائے۔ تاہم پاکستان کی اپوزیشن انوکھی مثال قائم کررہی ہے۔ اسے حکومت کی ناکامیاں تو دکھائی دیتی ہیں لیکن ان غلطیوں کی اصلاح کے لئے ان کے پاس کوئی متبادل منصوبہ نہیں ہے۔ ایسے میں یہ سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ عوام کس بنیاد پر اپوزیشن لیڈروں کے دعوؤں پر اعتبار کرسکتے ہیں ۔ اور کیا وجہ ہے کہ اس تازہ مہم جوئی میں دیوار سے لگی ایک حکومت کو کمزور کرنے اور کسی بھی طرح اقتدار تک راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
کوئی پارٹی اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتی کہ وہ اقتدار سنبھال کر ملک سے مہنگائی کا خاتمہ کرسکتی ہے، سیکورٹی معاملات کو درست کردے گی، خارجہ امور میں پیش آنے والے اندیشے دور ہوجائیں گے ، ملک میں امن و امان بحال ہوجائے گا اور معیشت کو پھلنے پھلونے کا موقع ملے گا۔ بلکہ زیادہ تر اس بات کا امکان ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی کو کسی طرح اقتدار مل گیا تو وہ عوامی مسائل کی ذمہ داری عمران خان کی عاقبت نااندیشی پر ڈال کر خود اپنی ذمہ داری سے بچنے کی کوشش کریں گی۔ ملک میں سیاسی ہم آہنگی کا ماحول بدستور ناپید رہے گا کیوں کہ اقتدار سے باہر ہونے کے بعد عمران خان احتجاج کا وہی طرز عمل اختیار کریں گے جس پر اس وقت اپوزیشن عمل کررہی ہے۔ عمران خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اقتدار سنبھالنے کے باوجود یہی سمجھتے ہیں کہ وہ بدستور اپوزیشن میں ہیں۔ ان کا لب و لہجہ، بات کرنے کا انداز ، للکارنے کا طریقہ اور عدم مفاہمت کا رویہ اسی مزاج کی عکاسی کرتا ہے۔ اسی سے اندازہ کرلیا جائے کہ اگر تحریک انصاف کو کسی احتجاج کے سبب غیر قانونی طریقے سے اقتدار سے علیحدہ کیا جاتا ہے تو ان کا سیاسی رد عمل کیا ہوگا۔
یہ بات مانی جاسکتی ہے کہ جو ابن الوقت سیاسی عناصر محض اقتدار میں حصہ داری کے لئے عمران خان کے ساتھ مل گئے تھے، وہ اپوزیشن میں آنے کے بعد ان کے ہمراہ نہ رہیں۔ یہ بھی تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ فوج کے ساتھ پیدا ہونے والے موجودہ اختلاف کی صورت حال میں تحریک انصاف کی سیاسی وقعت میں کمی واقع ہوگی لیکن کسی کو اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے کہ عمران خان ایک مقبول لیڈر نہیں ہیں۔ ان کے چاہنے والے بڑی تعداد میں اس ملک میں آباد ہیں جو بہر صورت ان کے ساتھ کھڑے رہیں گے اور اقتدار سے علیحدگی کے بعد ان کی ہمدردیوں میں اضافہ ہوگا۔ عمران خان یہ نعرہ لگاتے ہوئے میدان میں نکلیں گے کہ بدعنوان سیاسی مافیا نے ان کی نیک دلانہ پالیسیوں پر عمل نہیں ہونے دیا ۔ اگر انہیں پانچ سال حکومت کرنے کا موقع مل جاتا تو وہ ملک کی تقدیر بدل دیتے۔یہ جاننے کے باوجود کہ یہ دعویٰ جھوٹ اور دھوکہ دہی کے سوا کچھ نہیں ہوگا لیکن یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ اس جھوٹ کو سچ ماننے والوں کی تعداد کیا ہوگی۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ اپوزیشن میں عمران خان اپنی موجودہ حیثیت سے زیادہ مہلک ثابت ہوں گے۔ اس لئے سیاسی لحاظ سے بھی اسی میں بہتری ہے اور جمہوری روایت اور آئینی ضرورتوں کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ تحریک انصاف کو اپنی مدت پوری کرنے دی جائے اور انتخابات میں حکومت کی غلطیوں کی نشاندہی کے ذریعے سیاسی تبدیلی کی کوشش کی جائے۔
ہوسکتا ہے اپوزیشن بھی درحقیقت اسی حکمت عملی پر کاربند ہو کیوں کہ یہ خبریں بھی سامنے آتی رہی ہیں کہ نواز شریف موجودہ حالات میں انتخابات سے پہلے کسی بھی طرح اقتدار کی بندر بانٹ میں شامل نہیں ہونا چاہتے۔ اس طرح موجودہ حکومت کی تمام ناکام پالیسیوں اور فیصلوں کا بوجھ انہیں برداشت کرنا پڑے گا۔ اگر یہی حقیقی حکمت عملی ہے تو بھی نعرے بازی کی سیاست سے ملک میں پائے جانے والے موجودہ بحران میں شدت پیدا کرنا کسی طور مناسب نہیں ہے۔ نہ ہی کوئی عبوری حکومت یا عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے متبادل حکومتی انتظام کسی طرح مسائل کا کوئی پائدار حل ہوگا۔ بہتر یہی ہوگا کہ حکومت اپنا وقت پورا کرے اور عام انتخابات کو شفاف اور غیر جانبدارانہ طور سے منعقد کروانے کی کوششیں جاری رکھی جائیں تاکہ عوام کی رائے سے حکومت تبدیل ہو اور وہی سیاسی جماعت درحقیقت اقتدار سنبھالے جسے عوام حق حکمرانی سے سرفراز کریں۔ اس طرح جمہوری دائرہ بھی مکمل ہوگا اور ’ووٹ کو عزت دو ‘کا اصول بھی تسلیم کروایا جاسکے گا۔
اس وقت حکومت کو آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقرری کے حوالے سے فوج کے ساتھ تصادم کی صورت حال کا سامنا ہے۔ بظاہر پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی سیاسی سرگرمی اور جوش و خروش کی یہی وجہ دکھائی دیتی ہے کہ وہ اس اختلاف سے اپنے لئے اقتدار کا راستہ تلاش کرنا چاہتی ہیں۔ ملک کے جمہوری حلقوں نے نوٹ کیا ہے کہ مریم نواز کے بعد اب بلاول بھٹو زرداری نے بھی بالواسطہ طور سے فوج کی حمایت کی ہے اور عمران خان کے مؤقف کو مسترد کرنا ضروری سمجھا ہے۔ اس سے جمہوریت کا دعویٰ کرنے والی ان پارٹیوں کے بارے میں یہ تاثر قوی ہو گا کہ ان کا مسئلہ جمہوریت یا سیاست میں فوج کی مداخلت نہیں ہے بلکہ وہ کسی بھی طرح اقتدار تک پہنچنے کی خواہاں ہیں۔ یہاں اس تاثر کے درست یا غلط ہونے سے بحث نہیں ہے بلکہ یہ جاننا اہم ہے کہ ملک میں گزشتہ تین برس کے دوران گزشتہ انتخابات میں دھاندلی سے تحریک انصاف کو اقتدار دلانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ اپوزیشن تسلسل سے مطالبہ کرتی رہی ہے شفاف انتخابات اور آئینی طریقے مروج ہوں اور فوج کا سیاست میں اثر ورسوخ ختم ہو۔ اپوزیشن سول وزیر اعظم کے مقابلے میں فوجی طریقہ کی حمایت کرتے ہوئے ان تمام دعوؤں اور سیاسی جد و جہد کی نفی کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ یہ رویہ کسی بھی صورت ملک میں جمہوری روایت کو مستحکم کرنے کے لئے خوش آئیند نہیں ہے۔
ملکی سیاست دانوں کو جان لینا چاہئے کہ فوج کو ان کی سیاسی حمایت کی ضرورت نہیں ہے۔ ملکی حکومتی انتظام میں اس نے جو دسترس بوجوہ حاصل کی ہوئی ہے، اس میں وہ کسی بھی حکومت سے اپنی بات منوانے اور وزیر اعظم کو دفاعی پوزیشن پر لانے کی صلاحیت سے مالا مال ہے۔ اپوزیشن اور حکمران جماعت کے پاس اس وقت موقع تھا کہ وہ ملٹری کے ساتھ’ ایک پیج ‘تلاش کرنے کی بجائے سیاسی و جمہوری اصول کی بنیاد پر کوئی باہمی اتفاق رائے پیدا کرتیں تاکہ ملک کو حقیقی جمہوریت کی طرف گامزن کیا جاسکتا۔ اور فوج کو یہ دوٹوک پیغام دیا جاسکتا کہ اگر وہ کسی سول حکومت کو ہراساں کرنے کا طریقہ اختیار کرے گی تو تمام سیاسی قوتیں ’ہم دم و ہمساز ‘ ہوں گی۔ ایسے سیاسی بحران میں کسی سیاسی حکومت کو تنہا نہیں کیا جائے گا۔
بد نصیبی سے ملک میں اقتدار کی چاہ یا عمران خان سے دشمنی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اپوزیشن کا کوئی لیڈر وسیع تر سیاسی ہم آہنگی کی بات کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ سب سیاسی عناصر موجودہ تصادم میں عمران خان کو کمزور ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ طرز عمل جمہوریت کش ہے اور اس سے کبھی بھی ملک کا آئینی انتظام یا منتخب ادارے مضبوط نہیں ہوں گے۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ ناروے)
فیس بک کمینٹ