فرانس کے شہر نیس کے ایک چرچ میں چاقو سے حملہ کرکے دو خواتین سمیت تین افراد کو ہلاک کردیا گیا ہے۔ حملہ آور نے ایک خاتون کا سر تن سے جدا کردیا۔ یہ واقعہ دو ہفتے قبل پیرس کے نواح میں ایک استاد کا سر قلم کرکے اسے بہیمانہ طریقے سے قتل کرنے کے واقعہ کے دو ہفتے بعد ہؤا ہے۔ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت یا فرانسیسی صدر کے متنازعہ بیانات پر ردعمل دینے والے مسلمان لیڈروں نے فی الوقت اس اذیت ناک سانحہ پر کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔
مسلمان ملکوں نے 16اکتوبر کو سیموئیل پیٹی کے قتل پر فرانسیسی حکومت کے اقدامات اور صدر میکرون کے بیانات کے خلاف سخت مؤقف اختیار کیا تھا۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے ان حالات اور فرانسیسی صدر کے بیانات کو اسلامو فوبیا کے فروغ کا سبب قرار دیا تھا۔ ترک صدر طیب اردوان نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی اور واضح کیا تھا کہ فرانس کے صدر کو اپنا دماغی معائینہ کروانا چاہئے۔ فرانس نے اس بیان پر احتجاجاً انقرہ سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔ صدر اردوان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فرانسیسی حکومت کے اقدامات اور ردعمل کی وجہ سے فرانس میں آباد مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو ان کی مدد کے لئے کمر بستہ ہوجانا چاہئے۔
فرانس ہو یا ترکی و پاکستان، سیاسی لیڈروں کے بیانات کو خالص واقعاتی یا مذہبی حرمت کی بنیاد پر جانچنا مشکل ہے۔ سب لیڈروں کے سیاسی مقاصد ہیں۔ فرانس کے صدر دو سال بعد ہونے والا انتخاب جیتنا چاہتے ہیں اور انہیں قوم پرست لیڈر مارین لی پین سے مقابلہ درپیش ہوگا لہذا ایک استاد کے قتل پر وہ سخت مؤقف اختیار کرکے خود کو ایک پر عزم لیڈر اور اسلامی انتہا پسندی کے خلاف دیوار کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ فرانس میں اگرچہ دس فیصد کے لگ بھگ مسلمان آباد ہیں لیکن فرانسیسی قیادت کے پیش نظر صرف سفید فام آبادی اور اس میں ابھرنے والے تعصبات ہی ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیکولر ازم کو تقدیس کے اس مقام پر فائز کردیا گیا کہ اسے ایک سیاسی اصول کی بجائے کسی مقدس عقیدہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ سب کو مساوی حق دینے کے اصول کو ملک میں آباد مسلمانوں کو تنہا اور بے بس کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ماہرین اس طرف نشاندہی کرتے رہے ہیں کہ اگرچہ ملک کے سیکولر قوانین مذہب اور ریاست کو علیحدہ کرنے کے لئے وضع کئے گئے تھے تاکہ سب شہری اپنے عقیدہ کے مطابق آزادی سے زندگی گزار سکیں لیکن گزشتہ چند برس کے دوران فرانس میں سیکولر اقدار کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور یوں لگتا ہے کہ ریاست ایک خاص عقیدہ کے خلاف برسر پیکار ہے۔
اس ماحول میں پیرس میں ایک استاد کا وحشیانہ انداز میں قتل ایک افسوسناک سانحہ تھا۔ فرانسیسی حکومت کو اس موقع پر ہوشمندی سے اقدام کرنے کی ضرورت تھی۔ تاہم بظاہر کورونا وائرس کی وجہ سے سامنے آنے والے معاشی چیلنجز اور رائے عامہ کے جائزوں میں قوم پرست لیڈر مارین لی پین سے مقبولیت میں کمی کی وجہ سے صدر میکرون سخت گیر مؤقف اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ انہوں نے نہ صرف مقتول استاد کو قومی ہیرو اور فرانسیسی اقدار کا نمائیندہ قرار دیا بلکہ اسلام کو بحران کا مذہب کہہ کر مسلمان لیڈروں کو ناراض کیا۔ اس قتل کے بعد فرانس میں متنازعہ اور گستاخانہ خاکوں کی سرکاری طور سے نمائش کرکے عام طور سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی۔ صدر میکرون نے گستاخانہ خاکوں کو ’ہماری میراث اور اثاثہ‘ قرار دیتے ہوئے ، یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ ان کے الفاظ صرف محدود سیاسی ماحول پر اثر انداز نہیں ہوں گے بلکہ اس سے فرانس کے لئے اندرونی طور پر اور دنیا میں مسائل میں اضافہ بھی ہوگا۔
سیکولر ازم کو اصول ماننے والے صدر اور حکومت کو یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ کسی عقیدہ کو بنیاد بنا کر جرم کرنے والے چند افراد کی وجہ سے ملک میں آباد ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ مسلمانوں کی ضروریات اور بہبود کو فراموش کردیں۔ اگر اس موقع پر صدر میکرون جذباتی بیانات دینے کی بجائے انتہا پسندی کے خلاف سخت انتظامی اقدامات کرتے لیکن اس کے ساتھ ہی مسلمان تنظیموں اور گروہوں سے مواصلت کا اہتمام بھی کرتے تاکہ حکومت اور اقلیتی عقیدہ کے لوگ مل کر معاشرے میں امن و سکون بحال کرنے کے لئے کام کرسکتے۔ فرانس میں سیاسی شدت پسندی کے فروغ کی وجہ سے مفاہمت اور خاص طور سے مسلمان اقلیت کی ضرورتوں کو سمجھنے کا مزاج ختم ہورہا ہے۔ کسی ایک واقعہ کے بعد مسلمانوں کو عام طور سے ٹارگٹ کرنے کا رویہ دراصل فرانس میں سماجی بے چینی اور گروہی کشیدگی میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔ یکے بعد دیگرے افسوسناک حملوں کے بعد بھی فرانسیسی حکمران اس پہلو پر توجہ دینا ضروری نہیں سمجھتے۔
نیس میں تین افراد کے قتل کے علاوہ ایک دوسرے شہر میں ایک شخص نے گشت پر موجود پولیس افسروں پر چاقو سے حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن پولیس نے اسے موقع پر ہی ہلاک کردیا۔ اسی حوالے سے جدہ میں ایک سعودی شہری نے فرانس کے قونصلیٹ میں ایک اہلکار کو چاقو سے حملہ کرکے زخمی کردیا۔ ان واقعات سے ایک طرف فرانس میں مذہبی بنیادوں پر فروغ پانے والی نفرت و غصہ کا اندازہ ہوتا ہے تو دوسری طرف یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ مسلمان ملکوں میں بھی وسیع طور سے ناراضی پیدا ہورہی ہے اور بعض اوقات اس کا اظہار جارحانہ ہوتا ہے۔ سیموئیل پیٹی کے قتل کے بعد متعد د مسلمان ملکوں میں مظاہرے کئے گئے ہیں اور فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلانے کی کوششیں ہوئی ہیں۔ ان اقدامات کا فرانس کے ساتھ مسلمان ملکوں کے تعلقات پر کوئی فوری اثر تو مرتب نہیں ہوگا لیکن اس کے دوررس اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
فرانس میں یکے بعد دیگرے ہونے والے ان دہشت گرد حملوں کا یہ پہلو بہت اہم ہے کہ یہ حملے فرانس میں ہی آباد مسلمانوں نے کئے ہیں۔ اس سے پہلے یورپی ملکوں میں ہونے والے حملوں کا تعلق القاعدہ یا داعش سے جوڑتے ہوئے یورپ میں آباد مسلمان اقلیتیں براہ راست موضوع بحث نہیں ہوتی تھی بلکہ سمجھا جاتا تھا کہ دہشت گرد تنظیمیں سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے یورپ کے نوجوان مسلمانوں کو گمراہ کرتی ہیں۔ عالمی سطح پر دہشت گرد تنظیموں کا زور ٹوٹنے کے بعد ان کی یہ صلاحیت بھی متاثر ہوئی ہے۔ البتہ مقامی سطح پر حالات و واقعات ان ملکوں میں آباد مسلمانوں کے طرز عمل پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کو درپیش سماجی، معاشی اور سیاسی مسائل پر غور کئے بغیر انہیں صرف اسلامی انتہا پسندی سے منسلک کرنے کے سیاسی فوائد تو ہوسکتے ہیں لیکن اس سے ایک سنگین سماجی مسئلہ کو سمجھنا ممکن نہیں ہوگا۔
فرانس میں ہونے والے تازہ ترین حملہ میں بھی ایک خاتون کا سر قلم کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ یہ کسی شخص کا انفرادی اور اضطراری فعل نہیں تھا بلکہ سیموئیل پیٹی کے قتل کی طرح اس حملہ کی بھی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ اغوا کئے جانے والے لوگوں کا سر قلم کرنے اور اس کی ویڈیو نشر کرنے کا سلسلہ داعش نے اپنے عروج کے زمانے میں شروع کیا تھا۔ اس طریقہ کا مقصد درحقیقت خوف پھیلانا تھا۔ اب فرانس میں ہونے والے دونوں واقعات میں اسی طریقہ کو اختیار کرنے سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ایک خاص طریقہ سے حملہ کرنے اور مقتول کا سر قلم کرنے سے کوئی خاص گروہ خوف و ہراس کی کیفیت پیدا کرنا چاہتا ہے۔ ایسے کسی بھی گروہ کا مقصد اسلام کی سربلندی کی بجائے سماجی انتشار پیدا کرنا ہے ۔ فرانس کے علاوہ دنیا بھر میں ایسے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے سیاسی سطح پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے یا اسے ووٹ بنک میں اضافہ کے لئے استعمال کرنے کی بجائے مکالمہ شروع کرنے اور انتہاپسند گروہوں سے مل کر نمٹنے کا عزم کرنے کی ضرورت ہے۔
اس پس منظر میں صرف فرانسیسی حکومت یا لیڈروں پر ہی حالات بہتر بنانے کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی بلکہ مسلمان لیڈروں کو بھی اپنے اپنے ملکوں کے علاوہ عالمی سطح پر بین المسلکی مفاہمت کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم سب سے پہلے یہ لازم ہے کہ مختلف اور بظاہر متصادم اقدار میں کوئی قدر مشترک تلاش کرنے کوشش ہو۔ یہ کام اسی صورت میں ہوگا جب مسلمان مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث لوگوں کو ہیرو کا درجہ دینے سے گریز کریں اور سیکولر ازم کو لادینیت قرار دیتے ہوئے خود کو فرانس یا اسی اصول کو ماننے والے دوسرے ملکوں و لوگوں سےبرتر ثابت کرنے کا طریقہ ترک کریں۔ اسی طرح سیکولر ازم کو قومی ورثہ قرار دینے والے لیڈروں کو اپنے قول و فعل سے ثابت کرنا ہوگا کہ یہ اصول سب مذاہب کے احترام کا نام ہے اور ریاست صرف عقیدہ کی بنیاد پر کسی ایک گروہ کو نشانے پر نہیں لے سکتی۔
فرانس میں استاد کے قتل کا عذر گستاخانہ خاکوں کی نمائش کو بنایا گیا تھا لیکن آج جن لوگوں کو ہلاک کیا گیا ہے، وہ تو اس قسم کی کسی کاوش کا حصہ نہیں تھے۔ کسی اشتعال کے بغیر ایک شہری نے دوسرے شہریوں پر حملہ کیا اور اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر اسے اسلام کی سربلندی کا پیغام بنانے کی کوشش کی۔ دنیا بھر کے مسلمانوں اور ان کے لیڈروں پر لازم ہے کہ وہ اس واقعہ کی مذمت کریں اور واضح کیاجائے کہ ان کا عقیدہ ہلاکت خیزی کی اجازت نہیں دیتا۔ اور وہ دہشت گردی جیسے جرم میں ملوث ہونے والے کسی شخص کی حمایت نہیں کرتے۔
افسوس کا مقام ہے کہ فرانس میں دو ہفتے پہلے ہونے والے قتل کے بعد مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے الزامات تو زور شور سے عائد کئے گئے اور فرانسیسی صدر کو ’ولن‘ بنا کر پیش کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں لیکن انہی مسلمان لیڈروں نے آج کے سانحہ کے بعد اس کی فوری مذمت کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ نہ ہی کسی لیڈر یا عالم دین کو اس واقعہ کی بربریت اور مسلمانوں کی بہبود پر اس کے منفی اثرات پر غور کرنے اور اس سے مسلم امہ کو آگاہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے۔ قول و فعل کا یہی تفاوت مسلمانوں کے خلاف تعصبات اور نفرت کے فروغ کا سبب بنتا ہے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )