جمیعت علمائے اسلام (ف) کے صدر مولانا فضل الرحمان نے گزشتہ چند دنوں سے مدرسوں کی رجسٹریشن کے حوالے سے قانون سازی پر حکومت کو دھمکیاں دینے اور احتجاج کرنے کے اعلانات کا سلسلہ شروع کیا ہؤا ہے۔ شہباز شریف کی حکومت اگر اپنی اتھارٹی قائم کرانا چاہتی ہے اور ملک میں اعتدال اور توازن پر مبنی تعلیمی نظام کی خواہاں ہے تو اسے ان دھمکیوں کے سامنے جھکنے سے انکار کرنا ہوگا۔حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی شرائط پر مدارس یا تعلیمی اداروں کا انتظام چلانے کے لیے قواعد و ضوابط تیار کرے۔ ان حکومتی اختیارات کو چیلنج کرنے والے خواہ پرائیویٹ اسکولوں کے مالکان ہوں یا دینی مدارس کے مہتممین ، حکومت کو ان کے دباؤ میں آنے اور تعلیمی نظام پر سیاسی سودا بازی سے باز رہنا چاہئے۔ یہ کہنے کی ضرورت یوں بھی پیش آرہی ہے کیوں کہ سرکاری ذرائع کی طرف سے اس بارے میں مولانا فضل الرحمان کے غم و غصہ کے سامنے مفاہمت و مصالحت کا بند باندھنے کے اشارے دیے گیے ہیں۔ واضح ہونا چاہئے کہ اس ملک کے عوام کی بہبود، سلامتی اور بھلائی پر کوئی مفاہمت قابل قبول نہیں ہوسکتی۔ مدارس کا نظام درست کرنے ، ان کے مالی معاملات کو مناسب آڈٹ کے ذریعے کنٹرول کرنے، وہاں ہونے والی بے اعتدالیوں کی نگرانی کرنے اور یہ جانچنے کی شدید ضرورت ہے کہ مختلف مکاتیب فکر کے مدارس میں کیا پڑھایا جاتا ہے اور یہ تدریس دینے پر کون لوگ متعین ہیں۔
حیرت انگیز طور پر عام اسکولوں میں اساتذہ کی تعلیمی قابلیت اور پیشہ وارانہ استعداد کی جانچ پر تو زور دیا جاتا ہے لیکن کسی مدرسے میں دینی علوم کے ماہر بنانے والے استادوں سے کسی قسم کی اہلیت کا تقاضہ نہیں کیا جاسکتا۔ مدارس میں اصلاح کا مسئلہ گزشتہ کئی دہائیوں سے کھٹائی میں پڑا ہؤا ہے۔ مدرسے چلانے والے علما اپنی مذہبی پوزیشن اور سیاسی دباؤ کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے ہر حکومت کو کسی نہ کسی مفاہمت پر مجبور کرتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ تو سابق فوجی آمر پرویز مشرف دہشت گردی میں دینی مدرسوں کے منفی کردار کے باوجود کوئی قابل قدر انتظامی ڈھانچہ استوار کرسکے اور نہ ہی بعد میں آنے والی حکومتیں اس بارے میں کسی ٹھوس پیش رفت میں کامیاب ہوئیں۔ 2014 میں سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد حکومت نے ایک بیس نکاتی قومی ایکشن پلان تیار کیا تھا جس میں مذہبی منافرت، انتہاپسندی کی روک تھام کے علاوہ مدارس کی رجسٹریشن کرنے کا عہد کیا گیا تھا۔ لیکن ایک دہائی بیت جانے کے باوجود ابھی تک قومی ایکشن پلان کی ان شقات پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ اس ایکشن پلان کے باقی نکات کے بارے میں بھی حکومتیں اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ لیکن مدارس کی رجسٹریشن ایک ایسا موضوع ہے جس پر کوئی اختلاف رائے نہیں ہونا چاہئے تھا البتہ دیکھا جاسکتا ہے کہ اس وقت ملک میں اسی نکتہ کو لے کر سیاست کی جارہی ہے۔ تحریک انصاف کے دباؤ میں آئی ہوئی شہباز حکومت سے مولانا فضل الرحمان مدارس کی رجسٹریشن کے بارے میں ایسا طریقہ وضع کرانا چاہتے ہیں جس کے تحت کاغذی کارروائی تو ہوجائے لیکن عملی طور سے مدارس کی انتظامیہ کو جواب دہ نہ بنایا جائے۔
اول تو شہباز شریف اور ان کی حکومت کے ارکان کو یہ سمجھنا چاہئے کہ ملک میں صرف تحریک انصاف کا راستہ روک کر ہی حکومت سرخرو نہیں ہوسکتی بلکہ اسے ہر اس شعبہ میں کارکردگی دکھانے کی ضرورت ہے جو براہ راست عوام کی جان و مال کے علاوہ ان کی بہبود و فلاح کے لیے ضروری ہے۔ ملک اس وقت ایک بار پھر شدید مذہبی شدت پسندی اور دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر عسکری اداروں سے وابستہ اہلکار دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے اقدام کرتے ہیں اور اس کارروائی میں خود بھی جام شہادت نوش کرتے ہیں۔ حکومت سے زیادہ کسی پر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ اس راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دور کیا جائے اور شدت پسندانہ مذہبی رجحانات ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں کیوں کہ دہشت گردی بنیادی طور پر مذہبی جنونیت سے ہی جنم لیتی ہے۔
مدارس کا انتظام کرنے والے بجا طور سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مذہبی انتہاپسندی صرف مدارس ہی میں فروغ نہیں پاتی بلکہ جدید طرز پر چلائے جانے والے تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں بھی ایسا نصاب اور اساتذہ موجود ہیں جو نوجوان طالب علموں کے اذہان کو آلودہ کرتے ہیں اور انہیں عقیدے کے نام پر انتہائی اقدام کی طرف مائل ہونے کے لیے راہ ہموار کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے باوجود مدارس کے برعکس نام نہاد دنیاوی تعلیم دینے والے ادارے سرکاری قواعد و ضوابط کے تحت رجسٹریشن کرانے یا نصاب کے حوالے سے سرکاری ہدایات کو نظر انداز کرنے کا حوصلہ نہیں کرتے۔ اگر ان اداروں میں کسی قسم کی کمزوری پائی جاتی ہے تو وہ حکومت کے کمزور انتظامی ڈھانچے، کنٹرول کے ناقص طریقوں اور ہمہ قسم قومی بیانیہ میں مذہب کو دخیل کرنے کے رویہ کی وجہ سے پید ا ہوتی ہے۔ ان تعلیمی اداروں کی برائیوں کومدارس میں پائی جانے والی بے اعتدالیوں اور ناقص کارکردگی کے مقابلے میں آسانی سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ لیکن دینی مدارس تو ابھی تک رجسٹریشن کے مناسب میکنزم کو ماننے اور اس کے تحت خود کو جواب دہ بنانے کے اصول کو تسلیم کرنے پر ہی آمادہ نہیں ہیں۔ یہ ایک ناقابل قبول معاشرتی علت ہے ۔ بدقسمتی سے سیاسی ضرورتوں کے تحت مولانا فضل الرحمان جیسے لیڈر اس علت کو جاری رکھنے اور فروغ دینے کی خواہش رکھتے ہیں۔
کسی بھی ملک میں دیگر تمام تعلیمی اداروں کی طرح مدارس کو بھی ایک نظام کا حصہ ہونا چاہئے لیکن دینی مدارس کا اہتمام کرنے والے متعدد علما اپنی مذہبی حیثیت کا فائدہ اٹھا کر حکومت کو دباؤ میں لانے میں کامیاب رہے ہیں۔ اس وقت مولانا فضل الرحمان اس مہم کی قیادت کررہے ہیں اور ایسے اشارے موجود ہیں کہ حکومت ان کے سامنے کمزور پڑنے پر آمادہ ہے۔ اس کا پہلا مظاہرہ اکتوبر کے دوران 26 ویں آئینی ترمیم کے موقع پر دیکھنے میں آیا جب حکومت نے مولانا فضل الرحمان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے یکم جنوری 2028 تک ملک میں ’سودی نظام‘ ختم کرنے کا وعدہ کیا ۔ اس کے علاوہ مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے شرائط مانی گئیں۔ مولانا فضل الرحمان اس سے پہلے 2019 میں منظور کیے گئے طریقے کے مطابق بھی اپنے مدارس کی رجسٹریشن کرانے پر تیار نہیں تھے۔ کسی بھی گروہ، مذہبی و سیاسی لیڈر کو ایسا اختیار، حق یا موقع دینا ایک قومی سانحہ سے کم نہیں ہے۔
ملک سے سودی نظام ختم کرنے کا نعرہ محض عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے لگایا جاتا ہے۔ اس کا مطالبہ کرنے والے علما اور اس پر عمل کا وعدہ کرنے والے سیاست دان، دونوں ہی بخوبی جانتے ہیں کہ اس قسم کے لایعنی مطالبات پر عمل نہیں ہوسکتا۔ مذہبی رہنماؤں کو اس کے برعکس موجودہ بنکاری نظام اور سود کی حرمت کے حوالے سے اجتہاد کرنے اور مسلمانوں کی حقیقی رہنمائی میں کردار ادا کرنا چاہئے۔ اس کے برعکس ملک کے بعض نامور علما ’اسلامی بنکاری‘ کے طریقے متعارف کرا کے اور اسے جائز قرار دے کر دنیا بھر کے مالی اداروں سے بھاری مشاہرے وصول کرتے رہے ہیں۔
مدارس کی رجسٹریشن کے ذریعے نہ صرف یہ معلوم ہوسکے گا کہ ملک میں کتنے مدارس کن تنظیموں یا لوگوں کی نگرانی میں کام کررہے ہیں بلکہ ان کے ذرائع آمدنی اور انتظامی ڈھانچے کے بارے میں بھی معلومات ریکارڈ کا حصہ بن سکیں گی۔ اگر سلیبس اور مدرسین کی صلاحیت و قابلیت کا معاملہ فوری طور سے نظر انداز کر بھی دیا جائے اور صرف مدارس کے انتظامی ڈھانچے اور مالی معاملات کا کنٹرول ہی ممکن بنا لیا جائےتو اصلاح احوال کا آغاز ہوسکتا ہے۔ ملک میں لگ بھگ بیس ہزار مدارس موجود ہیں۔ انہیں عام طور سے ذکواۃ، صدقہ و خیرات سے حاصل ہونے والے وسائل میسرہوتے ہیں۔ کچھ غیرملکی معاونین بھی ضرور مدد کرتے ہوں گے لیکن زیادہ تر مالی وسائل ملک کے تاجر، صنعتکار اور صاحب حیثیت لوگوں سے ہی وصول ہوتے ہیں۔ حکومت اگر ان وسائل کا جائزہ لینے اور یہ جاننے میں کامیاب ہوجائے کہ کن لوگوں نے کتنی رقم ذکواۃ یا صدقات کی مد میں مدارس کو فراہم کی ہے تو اسے یہ اندازہ کرنے میں دیر نہیں لگے گی کہ اپنے ٹیکس گوشواروں میں آمدنی و اثاثوں کے بارے میں غلط معلومات فراہم کرنے والے لوگوں کی اصل مالی حیثیت کیا ہے۔
مدارس اپنے مالی وسائل بتانے سے گریز کرکے درحقیقت ملک میں کالے دھن کے فروغ اور غیر قانونی کاروبار کی سرپرستی کا سبب بنتے ہیں۔ اس طریقہ سے مدارس کے مہتممین درحقیقت سرکاری خزانے کو پہنچنے والے نقصان کے بھی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر علمائے کرام اگر ٹھنڈے دل سے اس پہلو پر غور کریں تو انہیں اندازہ ہوسکتا ہے کہ نام نہاد خود مختاری اور اخفائے راز کا مطالبہ درحقیقت ملک میں غیر قانونی معیشت کے فروغ کا سبب بن رہا ہے ۔ یہ ایک ایسا دھندا ہے جسے ختم کیے بغیر ملکی نظام ٹھوس معاشی بنیادوں پر استوار نہیں ہوسکتا۔
یہ بھی کوئی راز نہیں ہے کہ دینی مدارس میں عام طور سے کن گھروں سے طالب علم آتے ہیں۔ غریب گھروں کے والدین اپنی اولاد کی کفالت کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہوتے تو وہ اپنے بچوں کو مدارس میں روانہ کردیتے ہیں جہاں انہیں دینی تعلیم کے علاوہ مفت رہائش و کھانا بھی مہیا کیا جاتا ہے۔ مدارس کی سماجی بہبود کے لیے اس خدمت کی اہمیت و ضرورت کو نظر انداز تو نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کے ساتھ ہی مدارس کو یہ اجازت بھی نہیں دی جاسکتی کہ وہ طالب علموں کو غیر انسانی ماحول میں رکھیں، انہیں ناقص یاغیر صحت مند غذا دی جائے یا طالب علموں کے ساتھ غیر قانونی سلوک روا رکھا جائے۔ بعض مدارس میں طالب علموں کی حالت استادوں اور منتظمین کے غلاموں جیسی ہوتی ہے۔ اس صورت حال کی نگرانی حکومت کا فرض ہے اورکسی لیڈر کو اس کام میں رکاوٹ ڈالنے کا حق نہیں دیا جاسکتا۔
مولانا فضل الرحمان سوجھ بوجھ رکھنے والے زیرک سیاست دان ہیں ۔ وہ بھی مدارس کے ان منفی پہلوؤں سے بخوبی آگاہ ہوں گے۔ ان برائیوں کو دور کرنے میں حکومت سے تعاون کی بجائے اگر وہ سیاسی ضرورتوں کے لیے حکومت کو دھمکیاں دیں گے تو اسے نہ تو دین کی خدمت کہا جائے گا اور نہ ہی اس طریقے سے مدارس پر عوام کے اعتبار میں اضافہ ہوگا۔ اسی طرح حکومت اس مرحلے پر کمزوری کا مظاہرہ کرے گی تو ایک طرف سرکاری اتھارٹی چیلنج ہوگی تو دوسری طرف یہ طریقہ معاشی بحالی کے قومی منصوبے کے برعکس ہوگا۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ناروے )
فیس بک کمینٹ