’ہمالہ سے بلند پاک چین دوستی‘ کے دعوؤں کو رواں ہفتے کے دوران سامنے آنے والے تبصروں نے دھندلایا ہے۔ آج وزارت خارجہ نے اس ہفتے کے شروع میں اسلام آباد میں چینی سفیر کے بیان کو غیر سفارتی طریقہ قرار دیا۔ البتہ بعد میں سوشل میڈیا پر جاری ان خبروں کی تردید کی گئی کہ چینی سفیر سے ناراضی کا اظہار کرنے کے لیے انہیں وزارت خارجہ طلب کیا گیا تھا۔
دفترخارجہ نے سکیورٹی صورتحال پر چینی سفیر کے بیان پر احتجاج کی تردید کی۔ دفترخارجہ کےبیان میں کہا گیا ہے کہ ’بعض ذرائع ابلاغ پر چینی سفیر کی دفتر خارجہ طلبی کی خبر چلائی گئی جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ چینی سفیر معمول کے مطابق وزارت خارجہ کا دورہ کرتے رہتے ہیں‘۔ البتہ اس سے قبل آج ہونے والی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے چینی سفیر کے ایک بیان کو حیران کن قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا بیان پاک چین سفارتی روایات کی عکاسی نہیں کرتا۔ پاکستان میں چینی باشندے ہمارے اہم مہمان ہیں، پاکستان چینی باشندوں، منصوبوں اور کمپنیوں کو بھرپور تحفظ و سلامتی کی فراہمی کے لیے پُرعزم ہے۔ پاکستانی قیادت نے چین کی اعلی قیادت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کے شہریوں اور منصوبوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔ پاکستان کی سرزمین پر چینی شہریوں پر حملے افسوس ناک ہیں جس پر ہم چینی عوام اور حکومت کی تشویش سے آگاہ ہیں۔ پاکستان نے چینی شہریوں پر ہونے والے حملوں کی تحقیقات سے متعلق چینی حکام کو آگاہ رکھا ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’چینی سفیر کا نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحٰق ڈار کو جواب سفارتی آداب کے خلاف نہیں تھا‘۔
یہ تنازع درحقیقت سینیٹر مشاہد حسین کے قائم کردہ پاکستان چین انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام کانفرنس کے دوران کی گئی تقریروں کی وجہ سے شروع ہؤا۔ سوموار کو چین کے یوم آزادی کے حوالے سے ’چین کے 75سال‘ کے عنوان سے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس میں دیگر لوگوں کے علاوہ نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار، چینی سفیر جیانگ زائی ڈونگ اور ماہر معیشت ڈاکٹر عشرت حسین شریک تھے۔ اسحاق ڈار نے مہمان خصوصی کے طور پر تقریر کرتے ہوئے چین میں معاشی اصلاحات، ماحولیات کی بہتری کے لیے اقدامات، اور ڈیجیٹل ایجادات کی تعریف کی۔ تاہم اس کے ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ ’وزیر اعظم شہباز شریف کو دورہ چین کے موقع پر صدر زی جن پنگ نے یقین دلایا تھا کہ پاکستان کو چین کی سفارتی ترجیحات میں خصوصی مقام حاصل ہے، حالانکہ پاکستان میں چینی کارکن سکیورٹی خطرات کا سامنا کرتے ہیں‘۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ اس موقع پر صدر زی جن پنگ نے پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا تھا کہ ’چین پاکستان میں سرمایہ کاری جاری رکھے گا۔ یہ جذبات پاکستان کی طرف سے چین کے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے اور سی پیک کی حمایت کو مستحکم کرنے کا سبب بنے ہیں‘۔
چینی سفیر جیانگ زائی ڈونگ اگرچہ اسحاق ڈار سے پہلے تقریر کرچکے تھے لیکن ملک کے نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ کی باتوں پر ردعمل دینے وہ مائک پر واپس آئے اور انہوں نے منتظمین سے مزید بات کرنے کی اجازت چاہی۔ جیانگ زائی ڈونگ نے کہا کہ ’ چین دنیا بھر میں چینی باشندوں کی حفاظت کو ترجیح دیتا ہے۔ پاکستان میں چینی شہریوں اور منصوبوں کو لاحق خطرات سے پاکستان میں چین کی سرمایہ کاری متاثر ہوسکتی ہے‘۔ انہوں نے پاکستانی حکام پر زور دیا کہ انہیں بہتر حفاظتی انتظامات کرنے چاہئیں۔ ’اگر سکیورٹی کے بارے میں اندیشے ختم نہ ہوئے تو ہم اپنے منصوبوں پر کام جاری نہیں رکھ سکیں گے۔ چینی شہریوں کی سکیورٹی سی پیک کو آگے بڑھانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ چھ ماہ میں چینی شہریوں پر دو مہلک حملے ناقابل قبول ہیں‘۔ چینی سفیر کا یہ بیان مقامی ذرائع ابلاغ میں زیر بحث رہا اور ذرائع بتاتے ہیں کہ پاکستان کے حکومتی حلقوں میں چینی سفیر کے بیان پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ۔
دیکھا جاسکتا ہے کہ یہ تنازعہ اسحاق ڈار کی طرف سے الفاظ کے غیر محتاط الفاظ اور وزیر اعظم شہباز شریف اور صدر زی جن پنگ کے درمیان ہونے والی گفتگو کا غیر ذمہ دارانہ حوالہ دینے کی وجہ سے پیدا ہؤا۔ اگرچہ چینی سفیر نے براہ راست پاکستانی نائب وزیر اعظم کو دروغ گو نہیں کہا لیکن ان کے فوری رد عمل اور سکیورٹی کے حوالے سے ایک پبلک پلیٹ فارم پر دو ٹوک انداز میں بات کرنے سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اسحاق ڈار نے چینی صدر کے جذبہ خیر سگالی کو نامناسب انداز میں غیر ذمہ دارانہ طریقے سے پیش کیا۔ چینی سفیر اس ’حوالہ‘ کو غلط کہنے ہی کے لیے دوبارہ مائک پر آئے اور اسحاق ڈار کی لن ترانی کی تردیدکرنا ضروری سمجھا۔ اگرچہ انہوں نے اپنے جوابی تبصرے میں اسحاق ڈار کا نام نہیں لیا اور نہ ہی ان کی باتوں کا حوالہ دیا لیکن پاکستانی وزیر خارجہ جو کہ تقریب کے مہمان خصوصی بھی تھے، کی تقریر کے بعد مائک پر آکر سکیورٹی کے حوالے سے بات کرنا اور سی پیک کی کامیابی کے لیے چینی کارکنوں کی حفاظت کو اہم قرار دینے سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اسحاق ڈار کی باتوں میں کسی سقم یا غلط بیانی ہی کی طرف اشارہ کررہے تھے۔
سفارتی معاملات میں غیر پیشہ وارانہ افراد کو عہدے عطا کرنے کا ایسا نتیجہ نکلنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ اسحاق ڈار کو شہباز شریف کی موجودہ حکومت میں وزارت خزانہ کا قلمدان نہیں مل سکا تھا لیکن چونکہ انہیں نوازنا مطلوب تھا لہذا انہیں پہلے وزیر خارجہ بنایا گیا پھر نائب وزیر اعظم کا اضافی عہدہ بھی ان کے حوالے کردیا گیا۔ حالانکہ پاکستان میں نائب وزیرا عظم کے عہدے کی نہ تو کوئی طویل روایت موجود ہے اور نہ ہی آئین میں اس کا ذکر ہے۔ اس کے باوجود حکومت آج تک یہ وضاحت نہیں کرسکی کہ اسحاق ڈار کو یہ عہدہ کن حالات اور مجبوریوں یا ضرورت کی وجہ سے عطا کیا گیا ہے۔ اسحاق ڈار کی پیشہ وارانہ ناکامی کا اندازہ تو اسی حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ مالی امور کو اپنی مہارت کا شعبہ سمجھنے کے باوجود وزیر خزانہ نہیں بنائے گئے۔ کیوں کہ شہباز شریف کی سابقہ حکومت میں انہوں نے اپنی آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات خراب کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ بعد میں شہباز شریف کو عبوری امدادی پیکیج لینے کے لیے خود آئی ایم ایف کی سربراہ سے مل کر براہ راست ضمانتیں فراہم کرنا پڑی تھیں۔
جو شخص اپنے خصوصی شعبہ میں ہی ناکام ہوچکا ہو، اسے وزارت خارجہ کا قلمدان سونپنا قومی المیہ سے کم نہیں ہے ۔ لیکن ملک کو بحران سے نکالنے کے دعوے کرنے کے باوجود شہباز شریف میں شاید اتنا حو صلہ یا ہمت نہیں ہے کہ وہ نواز شریف کے معتمد اور سمدھی کو ان کی مرضی کا عہدہ دینے سے انکار کرسکیں۔ لیکن وزیر اعظم کو بہر حال یہ سمجھنا ہوگا کہ حکومتی عہدے کسی کی ذاتی میراث نہیں ہوتے کہ انہیں عزیزوں اور دوستوں کو خوش کرنے کے لیے بانٹا جائے۔ یہ اہم قومی ذمہ داری ہے اور اہم عہدوں پر صرف ان لوگوں کو فائز ہونا چاہئے جو اس شعبہ کی حساسیات اور باریکیوں کو سمجھتے ہوں۔ سفارت کاری ایک مشکل شعبہ ہے۔ منہ سے نکلا ہؤا ایک لفظ ممالک کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرسکتا ہے اور اس سے ہونے والا نقصان کئی نسلوں تک اثر پذیر رہتا ہے۔
پاکستان اور چین کے تعلقات گہرے اور قریبی ہیں۔ تاہم پاکستانی حکومت کو یہ سمجھنا چاہئے کہ ممالک کے درمیان تعلقات دو خاندانوں کی قرابت داری نہیں ہوتی کہ تعلق توڑا نہیں جاسکتا بلکہ دونوں ملکوں کو باہمی تعلقات استوار رکھنے اور آگے بڑھانے کے لیے مسلسل کام کرنے اور مثبت اقدامات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ موجودہ معاشی بحران کے دوران چین نے پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے ملک میں سیاسی چپقلش کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری کا سلسلہ بند ہے لیکن چین نے سی پیک منصوبوں کے تحت پاکستان میں سرمایہ لگانے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ اس کے علاوہ عالمی مالی اداروں اور دیگر فورمز پر بھی پاکستان کو چین کی معاونت حاصل رہتی ہے۔ چینی سرمایہ کاری کے حوالے سے مختلف آرا ضرور سامنے آتی ہیں اور امریکہ اس سرمایہ کاری کے بارے میں پاکستان کو متنبہ کرنے کے لیے اپنی تمام سفارتی صلاحیتیں استعمال کرتا ہے۔ تاہم یہ فیصلہ پاکستانی حکومت نے ہی کرنا ہے کہ اسے کہاں سے کس وقت امداد لینے اور کس حد تک خود کو کسی ملک کے ساتھ وابستہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے اہم ترین نکتہ البتہ یہ ہے کہ دو ملکوں کے تعلقات کو سیاسی نعرے بازی کی بجائے سفارتی اقدار و روایات کے تناظر میں پرکھا جائے۔
اسی لیے چین کے ساتھ تعلقات کو مبالغہ آمیز اصطلاحات اور نعروں سے ہٹ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ دو ملکوں کی دوستی کو ہمالہ سے بلند اور سمندر سے گہری قرار دینے سے یا کسی ملک کے لیڈر کو بھائی کہنے سے دو ملک قریب نہیں آسکتے۔ اس قرب اور تعاون کے لیے ایک دوسرے کی ضرورتوں کو پورا کرنا اہم ہے۔ جیسے پاکستان کو اس وقت چینی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے ۔ البتہ چین یہ سرمایہ فراہم کرنے کے لیے اپنے کارکنوں کی حفاظت کا متمنی ہے۔ ایسے میں ملک کے وزیر خارجہ کا یہ تاثر دینے کی کوشش کرنا گمراہ کن اور غیر ذمہ دارانہ طریقہ ہےکہ ’پاکستان میں سکیورٹی کے حالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں، چینی صدر نے کہہ دیا ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری جاری رہے گی‘۔اسی لیے چینی سفیر کو ایسا تردیدی بیان جاری کرنا پڑا جس پر وزارت خارجہ کو دونوں ملکوں کے تعلقات میں سفارتی آداب کا حوالہ دینے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے۔
تاہم دفتر خارجہ کی وضاحت سے زیادہ یہ اہم ہے کہ اسحاق ڈار اپنے طرز گفتگو کا جائزہ لیں۔ اگر انہیں حساس معاملات میں بات کرنے کا طریقہ نہیں آتا تو وہ وزارت خارجہ کے ماہر سفارت کاروں کی مدد حاصل کریں۔ یا پھر انہیں چین کے حوالے سے غیر ذمہ دارانہ بیان دینے کے بعد خود ہی اپنے عہدے کے بارے میں جائزہ لینا چاہئے۔ اگر وہ سفارتی نزاکتوں کو سمجھنے کے اہل نہیں ہیں تو انہیں یہ عہدہ چھوڑ دینا چاہئے۔ کیوں کہ ان کی غیر ذمہ داری پاک چین تعلقات میں دراڑ ڈال سکتی ہے۔
( بشکریہ :کاروان ۔۔ناروے )
فیس بک کمینٹ