"لاڈلے تم نے خبر میں پھر لفظ "چیلنجز” لکھ دیا؟ عمران عثمانی اور تمہیں کتنی با ر سمجھایا ہے کہ یہ اردو اخبار ہے اور اس میں ” چیلنجوں ” لکھا کرو۔” یہ آواز روزنامہ خبریں کے ڈپٹی ایڈیٹر نیوز قمر الحق قمر کی تھی جو ایک خبر ہاتھ میں لیے اس کے ایک لفظ کے حوالے سے بات کرتے کرتے نیوز روم سے متصل اپنے کیبن نما آفس سے باہر نکل کر سٹی ڈیسک کے انچارج کے پاس پہنچ چکے تھے۔سٹی ڈیسک کے انچارج اقبال مبارک تھے جسے قمر الحق قمر پیا ر سے” لاڈلا "کہتے تھے۔اقبال مبارک احترام میں کھڑے ہو گئے، خبر پکڑی اور لاڈ سے کہا ” بس اتنی سی بات ہے؟میں تو پریشان ہو گیا تھا کہ پتہ نہیں کیا ہو گیا۔” اور قمر الحق قمر اقبال مبارک کے شانے پر ہلکی سی چپت لگاتے ، مسکراتے ہوئے واپس اپنے کیبن میں چلے گئے۔
یہ 13 جنوری 2003 کی شام تھی اور روزنامہ خبریں میں بطور سب ایڈیٹر میرا پہلا دن۔ نئے صحافیوں کے سیکھنے کےلیے ایک اکیڈمی کا درجہ رکھنے والے اس اخبار میں مَیں نے تقریباً 6 سال کام کیا۔ آغاز سَیمی لوکل ڈیسک( جسے ڈسٹرکٹ ڈیسک بھی کہا جاتا ہے) سے کیا جہاں مجھےصحافت کی ابجد سکھانے والےچودھری سلیم سندھو جیسے شفیق استاد ملے۔ چودھری صاحب کچھ سنجیدہ طبیعت کے مالک تھے،ہمارے ڈیسک کے ساتھ ہی سٹی ڈیسک تھا جس کے انچارج اقبا ل مبارک کے نیوزروم میں داخِل ہوتے ہی ماحول میں ایک ہلچل مچ جاتی تھی۔اقبال مبارک کے لطیفے ، چٹکلے اور پھر پورے نیوز روم میں سب کے بلند قہقہے۔ وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا تھا۔وہ جتنا بذلہ سنج، حاضر جواب اور باتونی تھے، اس سے کہیں زیادہ حساس طبیعت کے مالک۔ ایک بار کنٹین سے لڑکا چائے دینے آیا، واپس جاتے ہوئے، مانیٹرنگ ڈیسک کے شیشے کے کیبن کے باہر کھڑے ہو کراند ر رکھے ہوئے ٹیلی ویژن پر چلنے والا کوئی پروگرام دیکھنے کے لیے رُک گیا۔ فیکس آپریٹر نے قریب سے گزرتے ہوئے از راہ ِ مذاق ایک چپت لگائی تو اس لڑکے کا سر کیبن کے شیشے سے جا ٹکرایا۔ اقبال مبارک نے یہ منظر دیکھا تو بہت جذباتی ہو گئے، کہا” اگر شیشہ ٹوٹ کر اس لڑکے کے سر کو زخمی کر دیتا تو۔۔۔۔۔؟ ” بس پھر کیا تھا، غصے اور حساسیت کا ملا جلا ایک سیلاب تھا جو اُمڈے چلا آ رہا تھا۔فیکس آپریٹر بے چارہ اپنی جگہ شرمندہ، بار بار کنٹین والے لڑکے اور اقبال مبارک سے معذرت کیے جائے۔
اقبال مبارک کے ساتھ میری بہت اچھی دوستی ہو گئی ۔ مختلف تہواروں پر اخبارات میں کم ہی چھٹیاں ہوتی ہیں ، ہم نیوز روم والے اور کمپیوٹر سیکشن کے لوگ 14 اگست کی چھٹی پر اکثر فورٹ منرو کا پروگرام بنا لیتے۔اقبال مبارک کو پنجابی گیت بہت پسند تھے، وہ اپنے ساتھ بہت ساری سی ڈیز لے آتے ۔ سارا راستہ وہ پنجابی گیت سنتے اور ہم اُن کا جوش،جذبہ دیکھ کر محظوظ ہوتے۔
وقت نے کروٹ لی، میں نے پرنٹ میڈیا کو الوداع کہا، پہلے ایک نیوز چینل اور پھر بعد میں درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو گیا۔ ملتان چھوڑنے کی وجہ سے اقبال مبارک سے ملاقاتوں کا سلسلہ آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا، فیس بک اور وٹس ایپ ہی رابطے کا ذریعہ رہ گیا۔ چند روز پہلے جمعرات 14 فروری کی صبح برسوں بعدان کا فون آیا ۔میں نے ہیلو کہا تو بولے ” اوہو! رؤف ساجد! یہ تمہارا نمبر مل گیا؟ میں تو ہیپی ویلینٹائن کہنے کے لیے ” کسی اور ” کو کال کر رہا تھا۔” یہ کَہہ کر انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں ایک قہقہہ لگایا اور بولے یار مذاق کر رہا تھا۔کافی عرصے سے تم سے بات نہیں ہوئی تو سوچا کال کر لوں، اسی شام مَیں اپنے دوستوں ضیغم عباس اور ساجد ریاض کے ساتھ ملتان پہنچا ۔پہلے ” خبریں ” کے چیف نیوز ایڈیٹر ضیاء بلوچ سے ملاقات ہوئی پھر اقبال مبارک کو ملنے اُن کے آفس پہنچ گیا۔ وہ مجھے نیوز روم میں لے گئے کہ آؤ تمہیں پرانے دوستوں سے ملواتا ہوں ۔نیوز روم میں ندیم عالم، عاطف اعوان، اظہار عباسی ، عمران حیدراور غلام مصطفیٰ سمیت کئی دوستوں سے ملاقات ہو گئی، کافی گپ شپ ہوئی، چائے پی اور اقبال مبارک ہمیں دفتر کے باہر تک چھوڑنے آئے۔ گلے ملے، اللہ حافظ کہا اور بولے ” زندگی رہی تو تمھارے پاس مظفر گڑھ ضرورچکر لگاؤں گا۔”
18 فروری کی رات ساڑھے نو بجے فون کی گھنٹی بجی ،ایک صحافی دوست عبدالرؤف نے بتایا کہ اقبال مبارک اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ وہ حسب ِ معمول شام چھے بجے ڈیوٹی پر پہنچے ، دِل کی تکلیف ہوئی ،ہسپتال پہنچے لیکن جانبر نہ ہو سکے۔ ۔۔۔۔۔۔یہ افسوس ناک خبر سماعتوں سے تو ضرور ٹکرائی لیکن دل و دماغ نے اسے ابھی تک تسلیم نہیں کیا۔ آہ!!! شعبہ صحافت کا ایک درخشندہ ستارہ، ایک مخلص دوست اور ان سب سے بڑھ کر، ایک روشن خیال ،ترقی پسندانسان 45 سال کی عمر میں ہی یوں ایکا ایکی ہم سب کو سوگوار چھوڑ گیا۔ بطور صحافی سب کی خبریں بناتا بناتا آخر خود ایک خبر بن گیا۔ اقبال مبارک!آپ کو اپنی آخری منز ِ ل مبارک ہو،