جسٹس قاضی فائز عیسی جمعہ کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہوجائیں گے۔ وہ گزشتہ سال ستمبر میں اس عہدے پر فائز ہوئے تھے ۔ تیرہ ماہ تک ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے سربراہ کے طور پر کام کرنے کے بعد 25 اکتوبر اس عہدے پر ان کا آخری دن ہوگا۔ یوں ایک ایسے جج کا دور اپنے انجام کو پہنچے گا جو اپنے متعدد فیصلوں کی وجہ سے احترام کی نگاہ سے دیکھے جائیں گے لیکن چند متنازعہ فیصلے ان کی شناخت بنیں گے۔
چیف جسٹس کے طور پر ان کا مختصر دور متلاطم اور متنازعہ رہا۔ تحریک انصاف انہیں اپنا دشمن قرار دے کر ان پر عدم اعتماد کا اظہار کرتی رہی۔ البتہ انہیں پارلیمنٹ کا احترام کرنے والے اور اصولوں پر کاربند ایک نفیس جج کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ چھبیسویں آئینی ترمیم کے تحت خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے ان کی جگہ جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس بنانے کی سفارش کی تھی۔ صدر کے دستخظ کے بعد اب جسٹس یحییٰ کی تقرری کا نوٹیفیکیشن جاری ہوچکا۔ ہفتہ کے روز ایوان صدر میں منعقد ہونے والی خصوصی تقریب میں وہ اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔
ملک میں سیاسی تقسیم کی وجہ سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی قانونی خدمات کو مناسب خراج تحسین سننے میں نہیں آسکے گا بلکہ انہیں ایک سیاسی پارٹی کے مخالف کے طور پر بدنام کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد نکتہ چینی اور حرف زنی زیادہ شدت اختیار کرے گی۔ البتہ چیف جسٹس کے طور پر متعدد اصولی فیصلے کرنے کا کریڈٹ انہیں ملنا چاہئے۔ ان میں سب سے اہم سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کا معاملہ تھا۔ بنچ سازی میں چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کرنے کے لیے پارلیمنٹ نے یہ ایکٹ منظور کیا تھا تاہم اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی قیادت میں 8 رکنی بنچ نے اسے عدالت عظمی کے کام میں مداخلت اور آئین پاکستان کے خلاف قرار دیتے ہوئے معطل کردیا تھا۔ البتہ اس معاملہ پر سماعت کرنے اور حتمی فیصلہ صادر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کے طور پر عہدے کا حلف اٹھانے کے پہلے ہی دن اس ایکٹ پر حتمی فیصلہ کرنے کے لیے فل کورٹ بنچ بنانے کا اعلان کیا، جس نے بعد میں اس ایکٹ کو جائز قانون قرار دیا۔ اس طرح سپریم کورٹ میں بنچ بنانے کا اختیار چیف جسٹس کی بجائے چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججوں کی کمیٹی کو تفویض ہوگیا۔ اس طرح قاضی فائز عیسیٰ خود اپنے اختیارات پر عائد قدغن ماننے والے پہلے چیف جسٹس کے طور پر سامنے آئے۔ اس رویہ کی بنیاد ان کا یہ اصول تھا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حتمی اختیار حاصل ہے اور سپریم کورٹ کو اس میں غیر ضروری مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔
پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے بی بی سی اردو کو 26 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے ایک طویل انٹرویو دیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اس طرز عمل کا ذکر کیا اور اس کی توصیف کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی موجودگی میں ہی انہیں یہ ترمیم لانے کا موقع ملا۔ اتنا بڑا کام کسی اور چیف جسٹس کی موجودگی میں ممکن نہیں تھا۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں صرف ایک شخص پارلیمنٹ کی اطاعت کرنے اور آئین کی پیروی کرنے کے لیے تیار تھا۔ چاہے یہ اُس کی ذاتی طاقت کی قیمت پر ہی کیوں نہ ہو۔ لہٰذا ہمارے پاس ایک موقع تھا۔ ہمارے پاس ایک چیف جسٹس تھا جو اپنے ساتھی ججوں کے دباؤ کا مقابلہ کر سکتا تھا۔ جو شاید اسے بھڑکانے کی کوشش کرتے کہ یہ آپ کا معاملہ نہیں بلکہ ججوں کی طاقت کا سوال ہے‘۔
سیاسی رائے کی بنا پر بلاول بھٹو زرداری کے اس بیان کو بھی قاضی فائز عیسیٰ کی مخالفت میں دلیل کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے کہ یہ ایسے چیف جسٹس تھے جو اسٹبلشمنٹ کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کام کررہے تھے لیکن حالات و واقعات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ26 ویں ترمیم کے ذریعے سیاست دانوں نے اپنی خود مختاری اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو ثابت کیا ہے۔ بصورت دیگر اس ترمیم میں فوجی عدالتوں میں شہریوں کے خلاف مقدمات سننے والی شق کو باہر نہ نکالا جاتا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پارلیمنٹ کو احترام دینے کی جو روایت قائم کی ہے، اس سے جمہوری بنیاد مضبوط ہوگی اور پارلیمنٹ عدلیہ کے علاوہ عسکری اسٹبلشمنٹ کو بھی سیاسی امور میں مداخلت سے اجتناب کرنے پر آمادہ کرسکے گی۔ اگرچہ اس مقصد کے لیے جوسیاسی اتفاق رائے اور باہمی تعاون درکار ہے، وہ دیکھنے میں نہیں آتا۔ لیکن امید کرنی چاہئے کہ تحریک انصاف بھی یہ تسلیم کرنے لگے گی کہ پارلیمنٹ کی بالادستی ہی حقیقی راہ نجات ہے۔ اسی طرح سیاسی پارٹیاں پارلیمنٹ کو مضبوط ادارہ بنا کر سب فیصلے عوامی نمائیندوں کے ذریعے کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہیں۔ البتہ سیاسی فیصلوں میں بیرونی مداخلت کی جد و جہد میں عدالتی اثر و رسوخ کم کرنے کے لیے قاضی فائز عیسیٰ کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔
اصولی اہمیت کے اس فیصلہ کے علاوہ قاضی فائز عیسیٰ نے متعدد ایسے معاملات پر سماعت کرائی جنہیں نظر انداز کردیا گیا تھا اور جن پر کسی قسم کی شنوائی کی کوئی امید نہیں تھی لیکن اس کی وجہ سے ملک کا نظام انصاف معتوب ٹھہرایا جاتا ہے۔ ان میں سب سے اہم بھٹو پھانسی کیس میں صدر آصف زرداری کا ریفرنس تھا۔ آصف زرداری نے یہ ریفرنس 20008۔2013 کے دوران اپنے پہلے دور صدارت میں بھجوایا تھا۔ سابق وزیر اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو لاہور ہائی کورٹ نے مارچ 1978 میں موت کی سزا دی تھی۔ فروری 1979 میں سپریم کورٹ نے چار تین کے منقسم فیصلہ میں اس سزا کو بحال رکھا۔ اس طرح انہیں 4 اپریل 1979 کو پھانسی دے دی گئی۔ قومی اسمبلی اس سزا کو عدالتی قتل قرار دے چکی تھی ۔ اسی لیے صدر زرداری نے قانونی حیثیت کی وضاحت کے لیے سپریم کورٹ کو ریفرنس بھجوایا تھا ۔ تاہم ایک دہائی سے زیادہ مدت تک یہ معاملہ سپریم کورٹ کے سرد خانے میں پڑا رہا ۔ البتہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس معاملہ پر بھی 9 رکنی بنچ کے ذریعے سماعت کی۔ اور بھٹو کو دی جانے والی سزا کے بارے میں رائے دی کہ یہ بنیادی حقوق کے مطابق نہیں تھی اور ملزم کو فئیر ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا۔ اس طرح بھٹو کو ناجائز طور سے پھانسی کی سزا دینے پر صدارتی ریفرنس میں ’رائے‘ کے طور پر ہی سہی لیکن سپریم کورٹ نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔
سابق فوجی آمر پرویز مشرف کی آئین شکنی اور خصوصی عدالت کی طرف سے انہیں پھانسی کی سزا دینے کا معاملہ بھی انہی اہم فیصلوں میں شامل ہے جنہیں قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں اٹھایا گیا اور ماضی کی غلطیوں کی اصلاح کی گئی۔ خصوصی عدالت نے دسمبر 2019 میں پرویز مشرف کو آئین شکنی کے الزام میں سزائے موت دی گئی تھی۔ اس سزا کے خلاف لاہور ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو ہی غیر آئینی قرار دے کر اس فیصلہ کو مسترد کردیا۔ لیکن اس کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں سماعت کی منظر رہی تاآنکہ قاضی فائز عیسیٰ نے اس معاملہ کو اٹھایا اور لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ مسترد کرکے پرویز مشرف کے خلاف موت کی سزا بحال کی۔ گو کہ اس وقت تک پرویز مشرف انتقال کرچکے تھے لیکن اس طرح یہ اصول متعین کیا گیا کہ اگر آئین شکنی کی جائے گی تو کسی نہ کسی مرحلہ پر عدالت اس پر جواب دہی کرے گی اور غلط فیصلوں کو مسترد کیاجائے گا۔ ملک میں بار بار فوجی حکومتیں قائم کرنے کی تاریخ کے تناظر میں یہ فیصلہ سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ کے فیصلوں میں فوجی حکمرانوں کے فیصلوں کو درست قرار دینے کی مثالیں ہی ملتی تھیں۔
یہ اور ایسے ہی متعدد دوسرے معاملات میں جرات مندانہ فیصلے دینے کے باوجود انتخابات میں تحریک انصاف کو انتخابی نشان سے محروم کرنے کا فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ’بدترین اور سیاسی تعصب سے لبریز‘ فیصلہ کے طور پر یاد کیاجائے گا۔ اس کے علاوہ مخصوص نشستوں کے معاملہ میں انہوں نے فل کورٹ بنچ کے اکثریتی فیصلہ سے اختلاف کیا اور تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کی مخالفت کی۔ قیاس ہے کہ اسی فیصلہ کی وجہ سے حکومت 26 ویں ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کرنے پر مجبور ہوئی۔ اس فیصلہ کی اصابت کے بارے اختلاف سے قطع نظر سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلہ پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ چیف جسٹس کے طور پر قاضی فائز عیسیٰ پر ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ اس عدالتی فیصلہ پر عمل درآمد کراتے۔ تاہم وہ اس بارے میں کوئی واضح رائے دینے کی بجائے آٹھ ججوں کی طرف سے وضاحتی نوٹس کو متعلقہ اصول و ضوابط کے معیار پر پرکھنے کی جد و جہد کرتے رہے۔
سیاسی فیصلوں کی بنیاد پر پرکھنے کے علاوہ مبارک ثانی کیس میں ان کی پسپائی اور مذہبی جماعتوں کے دباؤ پر حتمی عدالتی فیصلہ کو تبدیل کرنے کی افسوسناک روایت جج کے طور پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دامن پر بدنما داغ کے طور پر موجود رہے گی۔ مبارک ثانی کیس میں جسٹس فائز عیسیٰ کی قیادت میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے 6 فروری 2024 کو حکم دیا تھا کہ درخواست گزار کی مسلسل حراست آئینی حقوق کی شق 9 اور 10 اے کی خلاف ورزی ہے۔ کیوں کہ وہ متعلقہ قانون کے تحت مقررہ سزا پہلے ہی کاٹ چکا ہے۔ اس فیصلہ کے خلاف نظر ثانی اپیل پر عدالت عظمی کے تین رکنی بنچ نے عقیدے کے حق کو مانتے ہوئے وضاحت کی تھی کہ ’قانونی، اخلاقی اور امن و امان کی بندشوں کے اندر رہتے ہوئے عقیدے کا حق بنیادی اہمیت کا حامل ہے‘۔
گو کہ نظر ثانی کی درخواست پر فیصلہ کے بعد عدالتی ریویو کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا لیکن مذہبی حساسیت کی وجہ سے حکومت نے متفرق درخواست دائر کی ۔ ملک کے مذہبی رہنماؤں کے احتجاج اور دباؤ کے سبب چیف جسٹس ہی کی قیادت میں بنچ نے سابقہ حکم کی شق 7 اور 42 کو حذف کردیا ۔ حکم نامہ کے پیرا 7 کے تحت کہا گیا تھا کہ کسی ایف آئی آر میں دفعہ 295 بی کا اندراج کرنے سے جرم ثابت نہیں ہوجاتا۔ جبکہ پیرا 42 میں کہا گیا تھا کہ احمدیوں کے دونوں گروہوں کو غیر مسلم قرار دیے جانے کے باوجود آئین و قانون کے تحت اپنے عقیدے پر عمل کرنے اور اس کا پرچار کرنے کا حق حاصل ہے بشرطیکہ کہ وہ خود کو مسلمان ظاہر نہ کریں اور اسلامی اصطلاحات استعمال نہ کی جائیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ ایک مذہبی اقلیت کو ملکی آئین کے تحت حاصل اس تحفظ کی ضمانت فراہم کرنے میں ناکام رہی۔ ملک میں مذہبی جذبات کی بنیاد پر نفرت اور انتہا پسندی پھیلانے والی قوتیں جیت گئیں۔ قاضی فائز عیسی تمام تر اصول پسندی کے باوجود اس دباؤ کے سامنے دیوار نہیں بن سکے۔
قاضی فائز عیسیٰ نے سرکاری خرچ پر الوداعی ڈنر نہ لینے اور عہدے کے دوران ججوں کو ملنے والے پلاٹ وصول کرنے سے انکار کی مثبت اور خوش آئیند مثالیں بھی قائم کی ہیں۔ ان کے عہد کو البتہ ان کے فیصلوں پر سیاسی رائے کی بنیاد پر ہی پرکھا جاتا رہے گا۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )