( گزشتہ سے پیوستہ )
ایک اور کم ہمتی کا مظاہرہ میں نے اپنی شادی کے موقع پر کیا …. میں نے ہرلے کو اپنی شادی سے مطلع نہیں کیا تھا۔ وہ میری کمپنی کے ہیڈ آفس میں ترقی کرتے کرتے ایک اہم عہدے پر فائز ہو گئی تھی۔ اکثر اس کے سرکاری خطوط اور ای میلز آتی رہتی تھیں لیکن ان پچیس برسوں میں کبھی ہرلے سے ذاتی معاملات پر گفتگو نہیں ہوئی ۔ دفتر میں کسی کو علم نہیں تھا کہ ایک دور میں ہرلے اور میں اس قدر قریب رہ چکے ہیں دو برس قبل ایک انٹر نیشنل کانفرنس میں نیویارک جانے کا اتفاق ہوا تو کانفرنس کی ”کی نوٹ سپیکر“ Key Note Speaker ہرلے میکفرسن تھی وقفے میں مجھے دیکھا تو قریب آ گئی دو انگلیوں سے قریب کا چشمہ درست کرتے ہوئے مجھے غور سے دیکھا اور بے اختیار میرے ساتھ لپٹ گئی اور تمام سینئر عہدیداران سے میرا تعارف کرانے لگی۔ گھر والوں کی خیریت معلوم کی اور شکوہ کے انداز میں پوچھا کہ تم نے اپنی شادی کی اطلاع مجھے کیوں نہیں دی تھی؟…. میں نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا کہ ”انیسہ کا پچھلے سال انتقال ہو گیا ہے“۔ ”مجھے معلوم ہے“ ہرلے نے میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔ ”اور مجھے اس کا بیحد افسوس بھی ہے شاید میں تعزیتی پیغام بھیج دیتی مگر میں تم کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتی تھی تم نے جان بوجھ کر اپنی شادی کی اطلاع مجھے نہیں دی تھی۔“
جوں جوں ہرلے میکفرسن کے پاکستان آنے کے دن قریب آ رہے تھے مجھے بڑی بے چینی ہو رہی تھی شاید میں اس کے آنے سے خائف تھا وہ اب میری باس بن کر آ رہی تھی نجانے کیسا سلوک کرے کہیں اپنی سبکی کا بدلہ نہ لینے آ رہی ہو اب اس کو محبت کہاں رہی ہو گی اب تو وہ ایک جہاندیدہ بزنس پرسن ہے بھلا اسے کیا ضرورت تھی امریکہ جیسا ملک چھوڑ کر پاکستان آنے کی دفتر کے لوگ میرے اندر کے طوفان سے بے خبر اپنی نئی کنٹری لیڈر کے استقبال کی تیاریاں کر رہے تھے۔ اصولاً مجھے اپنی ٹیم کا لیڈر بن کر اپنی نئی باس کو تقویت دینا تھی مگر میں اپنے اندر ایک عجیب طرح کی کم ہمتی محسوس کر رہا تھا کاش زندگی کے بقیہ شب و روز اسی طرح گزر جاتے اور ہرلے پاکستان نہ آتی میں نے سوچا ۔
آنے سے ایک روز قبل کنٹری لیڈر کا ایک اور نیوز الرٹ آیا کہ کوئی اس کا استقبال کرنے نہیں آئے گا وہ ائرپورٹ سے خود ہی ہوٹل آ جائے گی اگلے روز صرف مسٹر شاہ انہیں ہوٹل سے لے کر دفتر آ جائیں۔ باقی تمام لوگ اپنی ذمہ داریاں معمول کے مطابق نبھائیں ۔ صرف سہ پہر کو تمام فنکشنل ہیڈز کے ساتھ میٹنگ ہو گی…. دفتر والوں کی استقبال کی تیاریاں دھری کی دھری رہ گئیں۔ میں نے ہرلے کو ایک فائیو سٹار ہوٹل میں بکنگ کی اطلاع دے دی تھی۔ ہرلے نے ہوٹل پہنچ کر مجھے موبائل پر مطلع کر دیا تھا۔ وہ رات انگاروں پر کٹی نجانے اب میرے ساتھ کیا ہونے والا تھا عین مقررہ وقت پر ہرلے لفٹ سے نمودار ہوئی نیلے رنگ کا سوٹ پہنے اور ٹائی لگائے ہوئے وہ واقعی کسی بڑی بین الاقوامی کمپنی کی کنٹری لیڈر لگ رہی تھی۔ ہرلے اگرچہ بیحد سنجیدہ اور مدبر خاتون لگ رہی تھی مگر وہ اب بھی پہلے کی طرح خوبصورت تھی اب وہ شوخ اور چلبلی نہیں رہی تھی۔ ایک ہاتھ میں موبائل دوسرے میں چرمی بیگ تھامے اس نے سر کے اشارے سے شکریہ ادا کیا اور خود ہی صدر دروازے کی طرف چل پڑی میں پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ شوفر نے گاڑی پورچ میں لگا دی تھی میں ڈرتے ڈرتے ہرلے کے ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا مگر ذہنی طور پر تیار تھا کہ ابھی باس کہے گی کہ تم ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ جاؤ۔ یہ شاید ممکن تو نہیں تھا مگر میرے خود اعتمادی کے غبارے میں جیسے سوئی لگ گئی تھی۔ راستے بھر ہرلے فلائٹ کی بے آرامی اور جیٹ لیگ کا ذکر کرتی رہی کمپنی کے آئندہ منصوبوں کے بارے میں پوچھتی رہی اور میں اسی طرح تمام تفصیلات سے آگاہ کرتا رہا جیسے تیس برس قبل انٹرنیشنل ہوٹل سے سوات جاتے ہوئے بتا رہا تھا۔ پاکستان میں دہشت گردی اور جرائم میں اضافے سے وہ پریشان لگ رہی تھی اپنی رہائش کی بابت بھی سوال کرتی رہی۔ دفتر کے صدر دروازے میں داخل ہوتے ہی تمام دفتر کے افسران اور نائبین نے ہرلے کو بھرپور انداز میں تالیاں بجا کر خوش آمدید کہا مگر مجھے قطعی نظر انداز کر دیا۔ ان کا خیال تھا کہ اب میرے دن گنے جا چکے ہیں۔
سہ پہر کو ہونے والی میٹنگ میں نئی کنٹری لیڈر کو کمپنی کے تمام پراجیکٹس کے بارے میں بریف کیا گیا۔ ہرلے نے بھانپ لیا تھا کہ دفتر والے مجھے زیادہ توجہ نہیں دے رہے لہٰذا اس نے خصوصی طور پر میری تعریف کی اور انتباہ کیا کہ ”تمام انتظام ویسے ہی چلے گا جیسے پہلے تھا اور اب بھی مسٹر شاہ آپ کے اصل باس ہیں فرق صرف یہ ہے کہ میں ان کی باس بن کر آ گئی ہوں یہ میرے اور مسٹر شاہ کے درمیان رشتہ ہے اور آپ سب لوگ بدستور مسٹر شاہ کو جوابدہ ہیں۔ “ کئی چہرے لٹک گئے۔ دفتر کے اختتام پر ہرلے میکفرسن نے کہا کہ ”مسٹر شاہ میں آپ کی بیگم کی تعزیت کے لیے آپ کے گھر آنا چاہتی ہوں کسی ڈرائیور کو کہہ دیجئے کہ وہ مجھے دو گھنٹے کے بعد ہوٹل سے لے کر آپ کے گھر پہنچا دے یہ اخلاقاً ضروری ہے کہ پہلے میں آپ کی مرحومہ بیگم کی تعزیت کر لوں باقی نظام و انصرام تو چلتا رہے گا ۔“
میں نے بہت کوشش کی کہ میرا اکلوتا بیٹا دانیال کہیں دستیاب ہو جائے تاکہ گھر میں میرے علاوہ کوئی اور تو موجود ہو لیکن اس کا کہیں پتہ نہ چلا نجانے وہ جِم میں تھا یا ڈرائیونگ کر رہا تھا اس کا موبائل مسلسل بج رہا تھا۔ ہرلے جب میرے گھر میں داخل ہوئی تو میں گھر میں تنہا تھا۔ دانیال کے سوا انیسہ سے میری کوئی اولاد نہ تھی والدین مدت ہوئی داغ مفارقت دے گئے تھے اس وقت دانیال کا کچھ پتہ نہ تھا۔ ملازم ڈرنکس لے آیا مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کیا بات کروں۔ ہرلے کافی دیر دوسرے اہل خانہ کے آنے کا انتظار کرتی رہی مگر جب میں نے اسے حقیقت حال سے آگاہ کیا تو وہ سناٹے میں آ گئی۔ ”مسٹر شاہ تنہا تو میں بھی ہوں مگر تمہاری تنہائی زیادہ ہولناک ہے۔ It is Horrible۔“ بہت دیر ہم خاموش بیٹھے رہے۔ یوں لگتا تھا کہ ہرلے میری تنہائی سے دکھی ہو گئی ہے۔ میں نے ہرلے کو کھانے کے لیے روک لیا تھا۔ کھانے کی میز پر بہت عرصے کے بعد کوئی دوسری کرسی استعمال ہوئی تھی۔ دانیال کبھی کھانے کے وقت گھر میں موجود نہ ہوتا تھا اس کے اپنے مشاغل تھے۔ ہرلے نے دو گھنٹے میں پچھلے 25 سالوں میں ہونے والے تمام واقعات سے مجھے آگاہ کر دیا تھا وہ اس وقت باس نہیں بلکہ ایک ہمدرد دوست لگ رہی تھی۔ وہی تیس برس قبل والی ہرلے مگر نہایت کم آمیز۔ اسے دانیال سے ملنے کا بے حد اشتیاق تھا مگر اس کے جانے تک ابھی دانیال گھر واپس نہیں آیا تھا۔
ہرلے نے اگلے چند روز میں دفتر میں بہت سی تبدیلیاں کیں فرنیچر تبدیل کر دیا اپنے دفتر کا دوبارہ پینٹ کرایا جب تک اس کی نئی گاڑی امریکہ سے نہیں آ سکتی تھی اس نے میری گاڑی استعمال کرنے کی خواہش ظاہر کی وہ آخر باس تھی مجھے کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ تمام ایگزیکٹوز کو ہدایت دی گئی کہ وہ سمارٹ کیثول زیب تن کریں ٹائی لگائیں سوٹ پہنیں اور اچھے ڈریس پہنا کریں چھوٹے ملازمین کے لیے نئی وردیاں سلوائی گئیں۔ اگرچہ میں اخراجات میں زیادتی سے خائف اپنے دفتر میں کسی تبدیلی کا خواہاں نہ تھا مگر ہرلے کے مطابق میرا دفتر اس حالت میں ناقابل برداشت تھا لہٰذا اس میں تبدیلیاں کی گئیں۔ نیا پینٹ، نیا قالین، نئے پردے اور نیا فرنیچر۔
ایک روز چھٹی سے قبل ہرلے کی سیکرٹری نے بتایا کہ باس مجھ سے اہم میٹنگ کرنا چاہ رہی ہیں۔ میں ہرلے کے دفتر میں گیا تو وہ کہنے لگی ”مسٹر شاہ آپ کو یاد ہے ایک ریستوران میں ہم پچیس برس قبل کھانا کھانے گئے تھے کیا اب ہم وہاں جا سکتے ہیں، آج رات ڈنر کے لیے ۔۔۔۔؟“ ”وہ ریستوران اب ختم ہو چکا ہے اور اب وہاں ایک بہت بڑا پلازہ بن گیا ہے۔“ میں نے بتایا تو ہرلے خاموش ہو گئی۔ ”تو آج تم ڈنر کے لیے میرے ہوٹل آ جاؤ وہاں تم سے ایک ضروری بات کرنا ہے۔“ ہرلے نے کہا ”رات 9 بجے شارپ انڈر سٹینڈ؟“ اس نے باس والا لہجہ استعمال کرتے ہوئے کہا۔ “یس میڈم “ میں نے کہا۔ مجھے پورا یقین تھا کہ ہرلے میکفرسن کہے گی کہ ”مسٹر شاہ آپ نے پوری زندگی کمپنی کے لیے وقف کر دی ہے اب آپ کو مکمل آرام کی ضرورت ہے۔ کام کے لیے میں خود پاکستان آ گئی ہوں آپ کو ریٹائر کیا جا رہا ہے“ …. ملٹی نیشنل کمپنیوں میں برخواستگی کا یہی طریقہ ہے۔
ہرلے میکفرسن نے اپنے سوِٹ Suit میں کھانے کا بندوبست کر رکھا تھا۔ کھانے کے بعد ہرلے میٹنگ روم میں آ گئی اور کافی کا آرڈر دے دیا۔ میں اب ذہنی طور پر اس کی بات سننے کے لیے تیار تھا وہ مناسب الفاظ تلاش کر رہی تھی۔ بالآخر ہرلے بولی۔ ”مسٹر شاہ پچیس برس پہلے میں نے جو خواہش ظاہر کی تھی میں آج بھی اس پر قائم ہوں اور آج تمہاری کوئی مجبوری نہیں ہے۔ میرے جذبے آج بھی اسی طرح سچے ہیں میں آج بھی تم سے اسی قدر محبت کرتی ہوں میری عمر کے ساتھ میری محبت بھی پختہ ہو گئی ہے۔ یاد رکھو یہ دوسری بار ہے کہ میں تمہارے ملک اور شہر میں کام کے بہانے سے آئی ہوں مجھے دراصل اس کی ضرورت نہ تھی …. مگر کچھ جذبے ضرورت سے بھی ماورا ہوتے ہیں۔ “ ہرلے نے درخواست نہیں کی تھی اور نہ جواب مانگا تھا، بس ایک وضاحت کی تھی اور وضاحت میں انکار کی گنجائش کہاں ہوتی ہے۔
اگلے روز ایڈمن منیجر نے جب ہرلے میکفرسن سے کہا کہ اس کی رہائش کے لیے ایک خوبصورت وِلا تلاش کر لیا گیا ہے تو وہ بولی کہ اب اس کی ضرورت نہیں میں اب مسٹر شاہ کے گھر میں رہ لوں گی۔ ایڈمن منیجر صاحب ہرلے کے سامنے سے تو ”یس میڈم“ کہہ کر اٹھ آئے۔ مگر چند لمحوں میں پورے دفتر میں خبر پھیل گئی کہ میں ملازمت سے برخواست کر دیا گیا ہوں اور اب میڈم ہرلے میرے بنگلے میں شفٹ ہونا چاہتی ہیں۔
یہ خبر کہ نئی باس ہرلے میکفرسن میرے ساتھ شادی کر رہی ہیں کسی کے لیے بھی قابل یقین نہ تھی۔ عجیب عجیب باتیں اور نئی نئی اختراہیں پھیل گئیں۔ ”کنٹری لیڈر چار روز قبل امریکہ سے آئی ہیں اور مسٹر شاہ نے انہیں شیشے میں اتار لیا ہے ۔“ ”نوکری بھی بچ گئی اور گھر بھی آباد ہو گیا ۔“کچھ کا خیال تھا کہ ”ہرلے میکفرسن بہرحال کمپنی کا نظام سمجھنے کے بعد مجھے مکھن میں سے بال کی طرح نکال دیں گی۔“ ”یہ سب عارضی انتظام ہے ان امریکنوں کا بھی کیا یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔“
ان سب باتوں کے باوجود ایک روز ہرلے میکفرسن میرے گھر منتقل ہو گئی ۔ بدخواہوں کا خیال تھا کہ دراصل میرا انجام نہایت عبرتناک ہوا ہے جو دفتر میں باس ہے وہی گھر میں بھی باس ہے۔ میرا پختہ یقین ہے کہ میری ازلی کم ہمتی کے باعث مجھے نہ صرف دفتر بلکہ گھر میں بھی ہرلے میکفرسن جیسی ایک باس کی ضرورت ہے۔
( مکمل )
فیس بک کمینٹ