دنیا میں تین طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ کامیاب لوگ وہ ہیں جو خود بھی اپنی زندگی سے مطمئن ہوتے ہیں اور دوسرے لوگ بھی انہیں کامیاب سمجھتے ہیں۔ سرمایہ کاری کریں تو مٹی بھی سونا بن جائے، ملازمت کریں تو ادارے کا نام بھی روشن ہو جائے، گھر والے اور دوست اقارب بھی خوش۔ دنیا بھی راضی اور رب بھی راضی۔ ناکام لوگ وہ ہوتے ہیں جو خود بھی اپنی زندگی سے مطمئن نہیں ہوتے اور دنیا کی نظروں میں بھی ناکامی ان کا مقدر ہوتی ہے۔ سرمایہ کاری کریں تو سرمایہ ڈوب جاتا ہے، ملازمت کریں تو بڑی سے بڑی صنعت نقصان کا شکار ہو جاتی ہے۔ عزیز و اقارب اور گھر والے ان سے ناخوش رہتے ہیں، یار دوست پیچھا چھڑانے لگ جاتے ہیں۔ ایسے لوگ خود بھی اپنے آپ کو ناکام تصور کرتے ہیں اور دنیا کی نظر میں بھی وہ ناکام ہوتے ہیں۔ تیسری طرح کے لوگ شاعر اور ادیب ہوتے ہیں۔ وہ گزر اوقات کے لیے ملازمت اور کاروبار بھی کرتے ہیں مگر تعارف کے لیے شاعر اور ادیب کہلانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ان تینوں اقسام میں تفریق یوں کی جا سکتی ہے کہ کامیاب لوگ خود بھی اپنی کامیابی کا ادراک رکھتے ہیں اور دوسرے لوگ بھی انہیں کامیاب سمجھتے ہیں۔ ناکام لوگ اپنی ناکامی سے واقف ہوتے ہیں اور دوسرے لوگ بھی انہیں ناکام سمجھتے ہیں۔ شاعر اور ادیب خود اپنے آپ کو دنیا کا کامیاب ترین انسان سمجھتے ہیں جبکہ دنیا کی رائے ان کے بارے میں مختلف ہوتی ہے۔ کامیاب بزنس مین اور اعلیٰ عہدےدار عام طور پر شعر و ادب سے دور رہتے ہیں مگر ہر قانون اور اصول میں استثنیات (Exceptions) بھی ہوتی ہیں۔ لہٰذا وہ ادبی شوق کو ایک کیفیت سمجھتے ہوئے ترقی کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیتے۔ شاکر حسین شاکر نہ صرف اچھے شاعر اور ادیب ہیں بلکہ ایک کامیاب شخصیت بھی ہیں۔
شاکر حسین شاکر سے پہلی بار کب ملاقات ہوئی یہ ٹھیک سے یاد تو نہیں مگر ربع صدی سے ان کے ساتھ راہ و رسم ہے۔ اکثر ادبی اور چند دیگر محفلوں میں انہیں میرِ مجلس کے طور دیکھا اور سنا تھا۔ گاہے بگاہے ان کی نظمیں اور غزلیں اخبارات کے ادبی صفحوں کی زینت بنتی رہیں۔ ادبی محافل میں اکثر ان کا ذکر سنا تھا مگر سب سے مستند حوالہ ”کتاب نگر“ اور ”Feelings“ کا رہا۔ مجھے کتب بینی کا شوق اکثر ”کتاب نگر“ کھینچ لاتا تھا جہاں معروف مصنفین کی کتابوں کے نئے ایڈیشن دستیاب ہوجاتے تھے۔ خود شاکر حسین شاکر کتابوں کے چنا¶ میں مدد کرتے اور مشورہ دیا کرتے تھے۔ کبھی کبھار ان کی دکان کا بارونق حصہ Feelings اپنی طرف متوجہ کر لیتا تھا۔ یہاں کے خریدار اکثر و بیشتر شاکر حسین شاکر کی ضروری اور غیر ضروری رائے کے طلبگار ہوا کرتے تھے۔ شاکر حسین شاکر کی پُرسکون گھریلو زندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ مخمور آنکھوں والا یہ حسین نوجوان خریداروں کو درست مشورہ دیتا رہا ہے۔ شاکر حسین شاکر اور رضی الدین رضی کی جوڑی ادبی حلقوں میں بیحد مقبول تھی۔ نامور شاعروں اور ادیبوں کو ملتان آنے کی دعوت دینا، ان کے رہن سہن اور آ¶ بھگت کا خیال رکھنا، ان کے پروگرام منعقد کرنا اور روانگی کے وقت تحفے تحائف دینا انہی دونوں دوستوں کا خاصہ تھا۔ شاکر حسین شاکر اور رضی الدین رضی نے سینئر شاعروں اور ادیبوں کی ادبی چشمک میں نہ صرف ان کے مقام کو ملحوظ خاطر رکھا بلکہ اپنا شملہ بھی بلند رکھا اور ان کی تعظیم بھی قائم رکھی۔ ان دونوں دوستوں نے اپنا ادبی سفر پودے کی جڑ سے شروع کیا اور ترقی کرتے کرتے ایک خوشنما گلاب بن کر نمودار ہوئے۔ شاکر حسین شاکر کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ دوستوں کے مسائل کے حل کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ اِدھر آپ نے مسئلہ بیان کرنا شروع کیا، اُدھر شاکر حسین شاکر کی انگلیاں موبائل کے keypad پر چلنے لگیں۔ آپ نے بیان ختم کیا اور ادھر مطلوبہ شخص سے آپ کے کام کی بابت گفتگو شروع ہو گئی۔ نہ صرف یہ کہ کام کی سفارش ہو گئی بلکہ اس کی یاد دہانی اور آپ کو کام کے Status کے بارے میں اطلاع کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔
خطہ¿ ملتان کے لیے شاکر حسین شاکر کی ادبی خدمات بے بہا ہیں۔ ادب کی ترویج کے علاوہ نئے لکھاریوں کی حوصلہ افزائی ان کی شخصیت کا ایک اہم پہلو ہے۔ ملتان کے بہت سے شاعر اور ادیب شاکر حسین شاکر کی حوصلہ افزائی کے باعث ترقی کا زینہ چڑھے ہیں اور کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں۔ ان کی دکان ہمیشہ سے نامور ادیبوں اور شاعروں کی بیٹھک بنی رہی ہے جہاں ادبی سرگرمیوں کے لیے منصوبے بنے اور پایہ¿ تکمیل تک پہنچے ہیں۔ خود میری ادب دوستی کا شوق شاکر حسین شاکر کے مشوروں اور مدد سے پروان چڑھا تھا۔
یہ 2002ءکا ذکر ہے مجھے بھی اپنی شاعری کی کتاب چھپوانے کا شوق لاحق ہو گیا۔ لگ بھگ 150 غزلوں اور نظموں کا ذخیرہ تھا جو کالج کے دور سے لکھا اور چُھپایا جا رہا تھا اور ان کے لکھے جانے کا عرصہ تیس برس سے زیادہ تھا۔ بزمِ ادب سے یہ شوق شروع ہوا اور گاہے بگاہے اس میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یہ شاعری 1969-70ءسے لے کر 2002ءتک کی گئی تھی۔ ابتدائی رنگ پرانے شاعروں والا تھا پھر یہ دورِ حاضر کے مطابق ہوتا گیا۔ یہ شاعری انتہائی راز میں رکھی گئی تھی۔ شاکر حسین شاکر سے تعلق کی بنیاد پر اور آئے دن ان کے پبلشنگ ادارے سے نت نئی کتابوں کی اشاعت پر مجھے بھی تحریک ہوئی اور مَیں نے اشارةً ان سے تذکرہ کیا۔ وہ مجھے ایک چارٹرڈ اکا¶نٹنٹ کے طور پر جانتے تھے میرا شاعری کا شوق ان کے لیے اچنبھے کا باعث لگا بہرحال میری حوصلہ افزائی کے طور پر بولے:
”مسودہ دکھا دیں اس پر غور کر لیتے ہیں۔“
مَیں نے اپنے طور پر چنا¶ کر کے خوش خطی سے مسودہ دوبارہ تحریر کیا اور شاکر حسین شاکر کو پیش کر دیا۔ ساتھ ”پیش لفظ“ کا مضمون بھی شامل کر دیا۔ مجھے یاد ہے اس روز شاکر دکان کے کا¶نٹر پر کھڑے تھے۔ علیک سلیک کر کے وہیں مسودے کے صفحے پلٹنے لگے اور پیش لفظ بغور پڑھا۔ مَیں اس دوران بے یقینی کے عالم میں ان کے چہرے کے تاثرات پڑھتا رہا۔ دو تین بار صفحے پلٹ کر مسودہ کی صحت کا جائزہ لیا۔ اس دوران میری حالت ”میٹرنٹی روم“ سے باہر کھڑے شخص جیسی تھی جو کسی بھی صورتحال کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار کر رہا ہو۔
”یہ مقطع میں آپ نے جو نام استعمال کیا ہے اب اس کا رواج نہیں رہا۔“
شاکر حسین شاکر گویا ہوئے۔
”جی ٹھیک ہے مَیں اسے درست کر لوں گا۔“
مَیں نے مری ہوئی آواز میں کہا۔ شاکر نے میری ہمت بندھاتے ہوئے کہا:
”ویسے آپ نے پیش لفظ بہت اچھا لکھا ہے، آپ نثر اچھی لکھ لیتے ہیں۔“
بادی النظر میں اس مسودہ کو قبول نہ کیے جانے کے لیے مَیں ذہنی طور پر تیار ہو گیا۔ مَیں اپنی متوقع ہزیمت سے بچنے کی خاطر بولا:
”شاکر صاحب کیا یہ مسودہ اس قابل ہے کہ اسے چھپوا دیا جائے؟“
”جی ہاں! چھپ جائے ایک بار ڈاکٹر امین صاحب کو دکھائے لیتے ہیں ذرا نوک پلک درست ہو جائے گی۔“
شاکر بولے۔ میری اُمیدوں پر اوس پڑ گئی۔ دل میں سوچا کہ جب ڈاکٹر محمد امین اس کا جائز لیں گے تو نجانے کیا تبصرہ کریں۔ انسان جب ذہنی دبا¶ میں ہوتا ہے تو لایعنی اور بلا ضرورت سوال بھی کر دیتا ہے۔ سو ہم نے بھی کیا۔
”شاکر صاحب کیا یہ کتاب بِک جائے گی؟“
شاکر حسین شاکر ایک پختہ کار پبلشر کی طرح بولے:
”دیکھیں آپ اچھے چارٹرڈ اکا¶نٹنٹ ہیں، آپ کا نام بھی ہے، مگر آپ احمد فراز تو نہیں ہیں نا۔“
ساتھ ہی شاکر حسین شاکر نے کتابوں کے خریداروں کی عدم دستیابی اور پبلشنگ کے ٹھنڈے کاروبار کا تفصیلی ذکر کیا اور چھپنے کی صورت میں فروخت کی کوشش کی یقین دہانی کرائی۔
شاکر حسین شاکر سے گفتگو کے بعد مَیں سوچتا رہا کہ ان کا تبصرہ کہ مَیں نثر اچھی لکھ لیتا ہوں کیا میری شاعری پر عدم اطمینان ہے۔ ابھی یہ دھڑکا بھی لگا ہوا تھا کہ نجانے ڈاکٹر محمد امین کیا رائے دیں۔ ڈاکٹر محمد امین نے بلا ترمیم نہ صرف مسودہ کی صحت کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا بلکہ بکمال مہربانی اس پر اپنی رائے کا ایک مضمون بھی لکھ دیا …….. مسودہ منظور ہو گیا تھا اور شاکر حسین شاکر نے نہایت خوبصورتی سے، اس میدان میں نوارد ہونے کے ناتے باور بھی کرا دیا کہ مَیں اس کتاب کی اشاعت سے زیادہ اُمیدیں وابستہ نہ کر لوں۔ ڈاکٹر محمد امین کا مضمون میرے حوالے کرتے ہوئے شاکر حسین شاکر نے مشورہ دیا کہ اس کی اصل کاپی مَیں حفاظت سے رکھ لوں۔ اس بات نے مجھے اور مخمصے میں ڈال دیا کہ اس کتاب کی اشاعت کے بعد بھی یہ خوف رہے گا کہ یہ ادبی نقص امن کا باعث نہ بن جائے۔ یہ مسودہ آج بھی میرے پاس جوں کا توں محفوظ ہے۔ کتاب چھپ گئی اور پسند بھی کی گئی۔ اس کے بعد شاعری کی ایک اور کتاب کی اشاعت ہوئی اور بلا رد و قدح شائع ہو گئی۔ اس بات کا تذکرہ شاکر حسین شاکر کی اپنے پبلشنگ ادارے میں چھپنے والی کتابوں کے معیار قائم رکھنے کی خواہش کا غماز ہے۔
شاکر حسین شاکر کے ساتھ مکالمے نے میری سوچ کو ایک نئی جہت دی، نثر لکھنے کی۔ شاعری کے ساتھ ساتھ مَیں نے افسانہ نگاری پر بھی طبع آزمائی شروع کر دی اور یوں ان کے تعاون سے 2008ءمیں افسانوں کی پہلی کتاب ”پیش رفت“ کی اشاعت ہوئی۔ یہ کتاب ادبی حلقوں میں پسند کی گئی اور اس کی تقریب رونمائی کی تمام تر کاوش اور اس کا سہرہ انہی کے سر جاتا ہے۔ اس تقریب میں جناب ڈاکٹر اسد اریب، عاصی کرنالی (مرحوم)، پروفیسر حفیظ الرحمن، ڈاکٹر محمد امین، رضی الدین رضی اور خود شاکر حسین شاکر نے اپنے مضامین پڑھے اور میری حوصلہ افزائی کی۔ اس کے نتیجے میں میرے شوق کو مہمیز ملی اور 2013ءمیں میرے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ”شہرِ خلش“ شائع ہوا۔ اس کتاب کی اشاعت خود شاکر حسین شاکر کی تجویز پر سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور سے ہوئی۔ اس دوران شاکر حسین شاکر متواتر مجھے خاکہ نگاری پر توجہ دینے کی رائے دیتے رہے۔ مَیں ان کی ادبی دنیا میں آگے بڑھتے رہنے کی تلقین اور کوشش کا قائل ہوں کہ بہانے بہانے سے انہوں نے میرے لیے راستہ متعین کیا اور ہاتھ پکڑ کر چلنے میں مدد کی۔
2014ءمیں مجھے اپنے والد مرحوم پروفیسر خدا بخش آسی (ریٹائرڈ پرنسپل میونسپل کالج میاں چنوں) کی دستاویزات میں ان کی نوجوانی میں لکھی ہوئی شاعری اور مضامین دستیاب ہوئے۔ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے اپنی شاعری کو کتابی شکل دینے کی خواہش کا اظہار کیا تھا مگر وہ اسے پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔ مَیں نے شاکر حسین شاکر سے تذکرہ کیا تو انہوں نے اسے کتابی شکل دینے کی تجویز دی بلکہ اسے میرے لیے فرض قرار دے دیا اور یوں مَیں ایک اور پراجیکٹ کی تکمیل کے لیے کوشاں ہو گیا۔ ان کے شاگردوں، دوستوں اور ہم منصبوں سے (جو حیات تھے) مواد اکٹھا کیا۔ ان کے مضامین اور منظومات کو جو کاغذ کے پرزوں پر درج تھے محفوظ کیا، کچھ اپنی یادداشتیں درج کیں اور مارچ 2015ءمیں ”یہی ہے رختِ سفر“ کے نام سے ایک کتاب کی تدوین مکمل کر لی۔ ان تمام مراحل میں کمپوزنگ، ٹائیٹل اور چھپائی کے دوران شاکر حسین شاکر کی مسلسل راہنمائی اور مدد میسر رہی۔
شاکر حسین شاکر کا تعلق زرگروں کے خاندان سے ہے۔ ان کے والد معروف زرگر ہیں۔ کتابیں چھاپنا، کتابیں بیچنا، کالم نگاری، شعر و شاعری کرنا، ٹیلیویژن کے پروگراموں کی میزبانی کرنا، میرِ محفل کے فرائض سرانجام دینا، ادبی سرگرمیاں پایہ¿ تکمیل تک پہنچانا، ان کے کسی بھی کام یا مشغلے کا تعلق ان کے آبائی پیشے سے نہیں ہے۔ ممکن ہے ان کے والد گرامی نالاں ہوں کہ ان کے بیٹے نے کاغذ کو سونے پر ترجیح دی ہے یا ممکن ہے شاکر حسین شاکر نے انہیں باور کرا دیا ہو کہ کاغذ کو سونے پر برتری حاصل ہے۔ بہرحال ان کے عالم فاضل، ملنسار اور وجیہہ چچا پروفیسر حسین سحر (جن کو مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے) کی واضح جھلک ان کی شخصیت میں نظر آتی ہے۔ سونے سے کاغذ کے کاروبار میں آنے کی داستان ابھی تشنہ ہے۔ سونے کے ایک منافع بخش خاندانی کاروبار کو چھوڑ کر سخن کی انجانی راہوں میں خاک چھاننا ایک مشکل فیصلہ تو ضرور تھا مگر شاکر حسین شاکر غالباً ان لوگوں میں سے ہیں جو زندگی کے اہم فیصلے دماغ سے نہیں بلکہ دل سے کرتے ہیں اور کامیاب ہو جاتے ہیں۔
شاکر حسین شاکر سرائیکی نہ ہونے کے باوجود پکے ملتانی ہیں۔ سنا ہے نوجوانی میں حصولِ رزق کی خاطر سعودی عرب بھی گئے تھے مگر جلد ملتان کی کشش انہیں واپس کھینچ لائی، اس میں ان کا قصور نہیں ہے ملتان کی مٹی ہی ایسی ہے۔
فیس بک کمینٹ