یہ 24 اپریل 2015ءکا ذکر ہے۔ مَیں اور اہلیہ عمرہ کی غرض سے حجاز مقدس میں تھے اور مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کے لیے عازمِ سفر ہوئے تھے۔ سہ پہر کا وقت تھا موبائل پر میسج کی ٹون بجی دیکھا تو دم بخود سا رہ گیا۔ ڈاکٹر کلیم ارشد ایک روز قبل یعنی 23 اپریل 2015ءکو وفات پا گئے تھے۔ تلبیحات کے دوران اپنی اہلیہ کو ڈاکٹر کلیم ارشد کے سانحہ ارتحال کی خبر دی اور بہت دیر ہم دونوں غمزدہ ڈاکٹر کلیم ارشد کا ذکر کرتے رہے۔ ابھی دو ہفتے قبل ہی ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی تھی۔ اگرچہ ان کی صحت اچھی نہ تھی مگر ان کی وفات کی خبر نے دکھی کر دیا۔ راستے کے لق و دق صحرا اور سیاہ پہاڑوں کے نظارے ڈاکٹر کلیم ارشد کے سراپا اور ان کی یادوں کے ساتھ نگاہوں میں گھومتے رہے۔ اور ہم دُعاؤں کے ساتھ مسلسل ڈاکٹر کلیم ارشد کو یاد کرتے رہے۔
ہمارا کنبہ ہومیوپیتھی طریقہ علاج کا بہت معتقد ہے۔ بچے جب چھوٹے تھے تو ڈاکٹر مقصود زاہدی ہمارے معالج تھے۔ ان کے جانے کے بعد ڈاکٹر محسن ملک سے دوا لینے لگے۔ پھر ان کے انتقال کے بعد ڈاکٹر کلیم ارشد سے رجوع کیا۔ ڈاکٹر کلیم ارشد کی تعریف تو بہت پہلے سے سن رکھی تھی مگر ان کے کلینک پر مریضوں کے رش کا بہت چرچا تھا۔ بیماری کے دوران ایک تو مریض اپنے مرض کی وجہ سے پریشان ہوتا ہے دوسرا کڑوی دوائیاں، اینٹی بائیوٹک کیپسول اور انجکشن زندگی عذاب کر دیتے ہیں۔ اینٹی بائیوٹک کے استعمال سے مرض تو ایک آدھ ہفتے میں رفع ہو ہی جاتا ہے مگر دوائیوں کے مضر اثرات مہینہ بھر جاری رہتے ہیں۔ لہٰذا میرا نظریہ اور ذاتی تجربہ تو یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو کڑوی کسیلی دوائیوں سے پرہیز کیا جائے اور ہومیوپیتھک دوا استعمال کر لی جائے۔ مرض ٹھیک ہونے میں اسی قدر وقت لیتا ہے اور طبیعت بھی مکدر نہیں ہوتی۔ دوسرا خوش خلق اور خوش اخلاق ڈاکٹر اور میٹھی گولیاں۔ ہومیوپیتھک طریقہ علاج دراصل اُمید اور اس اخلاقی دباؤ کا ملغوبہ ہے جو ڈاکٹر دھیرے دھیرے بیماری پر ڈالتا ہے اور بیماری واقعی رفع ہو جاتی ہے۔
انہی باتوں نے ہمیں ڈاکٹر کلیم ارشد کا معتقد بنا رکھا تھا۔
ڈاکٹر کلیم ارشد سے پہلی بار کب ملاقات ہوئی تاریخ اور وقت تو درست طور پر یاد نہیں مگر اس دور کے واقعات یاد ہیں۔ دوا لینے کی ضرورت پڑی تو ڈاکٹر کلیم ارشد کے کلینک کے صدر دروازے کی تلاش شروع کی گئی جبکہ اس کے محلِ وقوع کا اندازہ تھا۔ انکم ٹیکس کمپلیکس کے سامنے ایک وسیع و عریض قطعہ اراضی تھا جس کی دیوار میں ایک چھوٹا سا دروازہ نصب تھا۔ دروازے کو پھلانگ کر اندر داخل ہوں تو قدم ایک پرانی سی انیکسی میں پڑتے تھے۔ صحن میں تین چار بڑے بڑے بنچ رکھے ہوتے تھے۔ گرمیوں کے دنوں میں پورے صحن میں چھائے ہوئے درخت کے سایہ تلے اور سردیوں میں اسی ماحول میں ٹھٹھرتے ہوئے مرد حضرات اپنی اپنی باری کا انتظار کرتے تھے۔ انیکسی کے پورچ میں جو سرکنڈوں کی چقوں سے دونوں طرف سے ڈھکی ہوئی تھی خواتین کے لیے دو بڑے بنچ اور چند پرانی کرسیاں رکھی تھیں۔ ان دنوں ڈاکٹر کلیم ارشد دن بھر ان مریضوں کو دیکھتے تھے جو مالی اعتبار سے مستحق تھے جبکہ شام کے وقت، وقت حاصل کر کے کوئی بھی مریض ان سے مشورہ کر سکتا تھا۔ مستحق مریضوں کے لیے 10 روپے رعائتی معاوضہ وصول کیا جاتا تھے۔ مریض کے لیے ایک اہلکار کو اپنی آمد کی اطلاع دینا پڑتی تھی جس کی بنیاد پر اپنی اپنی باری پر مریضوں کو بلایا جاتا۔ ڈاکٹر صاحب بار بار اس اہلکار کو قیصر کے نام سے پکارتے۔ لہٰذا ہم نے بھی قیصر سے واقفیت گانٹھ لی۔ پہلی بار جب ڈاکٹر کلیم ارشد صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے نوارد ہونے کا احساس تک نہیں ہونے دیا۔ تھوڑے سے وقت میں بیماری کے علاوہ حالاتِ حاضرہ، موسم اور ہومیوپیتھی کے مستقبل پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ لہٰذا اگلی بار جب جانا ہوا تو قیصر سے سیدھا ڈاکٹر صاحب کو ملنے کی فرمائش کی اور ڈاکٹر صاحب نے بکمال مہربانی طویل فہرست میں ترمیم کر کے فوری وقت عنایت فرما دیا۔
( جاری )
فیس بک کمینٹ