اسلام آباد ہائی کورٹ کے 8 ججوں کو خط موصول ہوئے ہیں جن میں دھمکانے والا نشان بنا ہؤا ہے اور لفافوں میں سے پاؤڈر بھی ملا ہے۔ یہ طے کرنے کے لیے کہ یہ مواد زہریلا ی اجان لیواتو نہیں ہے، پولیس کے ماہرین اس کا تجزیہ کررہے ہیں۔ چیف جسٹس عامر فاروق کے حکم پر اس وقوعہ کا محکمہ انسداد دہشت گردی کے تھانے میں مقدمہ درج کرکے تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔ابھی تک کسی سیاسی جماعت یا بعض پرجوش وکیلوں نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ اس معاملہ کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ فل بنچ قائم کرے اور اس معاملے پرسو موٹو اختیار کے تحت کارروائی کی جائے۔ نہ ہی حامد خان جیسے کسی ’عدلیہ نواز‘ وکیل نے یہ اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ پولیس تو حکومت کی نگرانی میں کام کرنے والا ادارہ ہے لہذا اس کی تحقیقات قابل اعتبار نہیں ہوسکتیں۔ یعنی سب معاملہ معمول کے مطابق ہؤا۔ پراسرا خط موصول ہوئے اور بھیجنے والے نے یہ تخصیص نہیں کی کہ کون سا جج کس گروپ کا حامی ہے یا اس کی سیاسی وابستگی کے بارے میں کیا رائے پائی جاتی ہے۔
یہ خطوط یکساں طور سے چیف جسٹس سمیت تمام ججوں کو موصول ہوئے۔ بھیجنے والے کے طور پر ایک خاتون کا نام درج ہے لیکن کوئی پتہ موجود نہیں ہے۔ پولیس یا ہائی کورٹ ذرائع نے جو معلومات فراہم کی ہیں، ان کے مطابق لفافوں میں سے پاؤڈرجیسا مواد ملا ہے اور ان میں ڈرانے دھمکانے والے نشان بھی بنے ہوئے تھے۔ ان نشانات کی تفصیل بھی معلوم نہیں ہوسکی۔ نہ ہی یہ اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ ان لفافوں میں کوئی خط یا پیغام بھی موجود تھا۔ اس لیے محض پاؤڈر یا ڈرانے والی علامت کو ہی دہشت گردی کی کوشش سمجھ کر انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
پاؤڈر نما مواد خط کے ذریعے دہشت گردی پھیلانے کا وقوعہ نائن الیون دہشت گردی کے بعد وہائٹ ہاؤس اور دیگر امریکی محکموں کو پاؤڈر والے پراسرار خط ملنے کی صورت میں پیش آیا تھا۔ یہ پاؤڈر زہریلے مواد انتھراکس پر مبنی تھا ۔ ان خطوط کے ذریعے بھیجے گئے زہر کی وجہ سے 5 امریکی ہلاک اور 17 زخمی ہوگئے تھے ۔ ایف بی آئی نے اس واقعہ کی تحقیقات کے بعد 2008 میں ایک شخص ڈاکٹر بروس ایونز پر یہ خطوط بھیجنے کے الزام میں مقدمہ درج کیا لیکن گرفتاری سے پہلے ہی اس شخص نے خود کشی کرلی۔ اس کے بعد امریکی تاریخ کے سب سے ہلاکت خیز بائیلوجوکل حملے کی تحقیقات سمیٹ دی گئی تھیں۔
اس پس منظر میں اور یہ جانتے ہوئے کہ دہشت گرد عناصر اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے کوئی بھی ہتھکنڈا اختیار کرسکتے ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کو بھیجے گئے خطوط کے معاملہ کو سنجیدگی سے پرکھنا اور اس کی تہ تک پہنچنا اہم ہے۔ سائنسی ترقی کی وجہ سے اب ہلاکت خیزی کے متعدد طریقے دستیاب ہیں اور دہشت گرد و قانون شکن عناصر کو ان تک آسان رسائی بھی حاصل ہے۔ اس لیے کسی بھی معاملہ کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ حال ہی میں چونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے ایک خط کا چرچا رہا ہے جس میں انہوں نے واضح کیا تھا کہ ایجنسیوں کے ہرکارے ججوں کو ہراساں کرتے ہیں اور مرضی کے فیصلے نہ کرنے والے ججوں کو پریشان کیا جاتا ہے۔ اور ایک جج کے گھر سے جاسوسی کے آلات بھی برآمد ہوئے جبکہ ایک دوسرے جج کے بردار نسبتی کو لاپتہ کرکے انہیں دباؤ میں لانے کی کوشش کی گئی۔ ان ججوں کا خیال تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس انہیں ’تحفظ‘ فراہم کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں ۔ اس لیے اب سپریم جوڈیشل کونسل یہ طے کرے کہ دھمکیوں کی صورت میں ججوں کو کیا کرنا چاہئے۔
ابھی اس خط کی گونج کم نہیں ہوئی بلکہ سپریم کورٹ کا لارجر بنچ بدھ سے ا س معاملہ پر سو موٹو اختیار کے تحت سماعت کاآغاز کرنے والا ہے جبکہ تحریک انصاف کے نام نہاد چئیرمین گوہر علی نے مطالبہ کیا ہے کہ اس ’سنگین‘ معاملہ کا جائزہ لینے کے لیے لارجر بنچ کافی نہیں ہے بلکہ فل کورٹ بنچ بنایا جائے۔ البتہ بیرسٹر صاحب ایک دو روز پہلے ہی فل کورٹ کی سفارش پر قائم کیے گئے ایک رکنی تحقیقاتی کمیشن کو مسترد کرچکے ہیں۔ تحریک انصاف کی مہم جوئی ، دھمکیوں اور دباؤ کی وجہ سے حکومت کی طرف سے قائم کیے گئے کمیشن کے سربراہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی نے یہ فریضہ انجام دینے سے معذرت کرلی تھی۔ حیرت ہے کہ جب تحریک انصاف خود ہی فل کورٹ کے ایک فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی رہی ہے تو اب وہ کیوں کر اسی معاملہ میں فل کورٹ کا مطالبہ کررہی ہے۔
سپریم کورٹ کا 7 رکنی لارجر بنچ بھی بھاری بھر کم قانونی ادارہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ خاص طور سے ججوں کے خط کے معاملہ پر سماعت کرنے والے بنچ میں چیف جسٹس کے علاوہ سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ چار سال تک اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے ہر فائز رہنے والے جسٹس اطہر من اللہ بھی اس لاجر بنچ کا حصہ ہیں۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی کے چئیرمین اس لارجر بنچ سے بھی مطمئن نہیں ہیں کیوں کہ ان کی شکایت قانونی سے زیادہ سیاسی ہے ۔ تحریک انصاف کی موجودہ حکمت عملی کے تحت پارٹی کسی بھی مسئلہ کا کوئی حل نہیں چاہتی بلکہ ہر معاملہ میں بگاڑ پیدا کرکے انتشار کی کیفیت پیدا کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ اسی لیے بیرسٹر گوہر علی نے لارجر بنچ بننے کے بعد فل کورٹ بنچ کا مطالبہ کردیا ۔ عدالت اگر کوئی ایسا فیصلہ کردے گی جو تحریک انصاف کی سیاست کو فائدہ نہیں پہنچائے گا تو پارٹی اس کے خلاف مہم جوئی کا کوئی نیا طریقہ نکال لے گی۔ مین میخ نکالنے اور حجت کرنے کے لیے کسی دلیل یا جواز کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے خط پر تحریک انصاف کی حکمت عملی سے اس مزاج کو شناخت کیا جاسکتا ہے۔
اسی لیے حیرت ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے8 ججوں کو مشکوک خط ملنے کے بعد تحریک انصاف نے ابھی تک کوئی ایسا نکتہ تلاش نہیں کیا کہ اس معاملہ کو بھی سیاسی رنگ دیا جاسکتا۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے مروجہ اور قانونی طریقہ کے مطابق اس کی اطلاع پولیس کو دی اور پولیس ہی کے پاس اس معاملہ کا مقدمہ درج کروایا ہے۔ جن ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل سے اپنی پریشانیوں کا حل مانگا تھا، انہیں جسٹس عامر فاروق کی مخالفت کے باوجود ان سے کم از کم یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ کسی دھمکی یا مشکوک کارروائی کی صورت میں ججوں کو بھی عام شہری کی طرح پولیس سے ہی رابطہ کرنا چاہئے اور اس کی تہ تک پہنچنے کے لیے حالات سازگار بنانے چاہئیں۔ اس کی شکایت ایک خط کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل تک پہنچانے اور اسے کسی امریکی ویب سائٹ کے ذریعے عام کرکے سیاسی طوفان برپا کرنے کی بجائے ، مشکوک اور غیر قانونی حرکتوں میں ملوث لوگوں کو فوری طور سے سامنے لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
البتہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے تمام 8 ججوں کو ملنے والے مشکوک لفافوں کے بعد یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ صرف اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج ہی کیوں شر پسند اور قانون شکن عناصر کے نشانے پر ہیں؟ اس سے پہلے چھ جج حضرات اپنے خط میں دھمکیوں اور ہراساں کرنے کی شکایت کرچکے ہیں۔ اور اب ایک خط کے ذریعے ڈراوا بھیج کر ججوں کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ملک بھر سے صدائیں بلند ہوئی ہیں کہ ججوں کو ہراساں کرنا ایک سنگین مسئلہ ہے لیکن یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ صرف اسلام آباد ہائی کورٹ ہی خاص طور سے اس دھمکیوں کے نشانے پر ہے۔ ججوں کی شکایت سے جو تاثر قائم ہوتا ہے، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ کچھ عناصر سابق وزیر اعظم عمران خان کے مقدمات میں من چاہے فیصلے لینا چاہتے ہیں۔ البتہ یہ شکایت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھے ججوں کو پیش آئی اور دو جج اس سے محفوظ رہے۔ اسی طرح دیگر ہائی کورٹس یا سپریم کورٹ کے ججوں کی طرف سے دباؤ کے ہتھکنڈوں کے بارے میں کوئی شکایت سامنے نہیں آئی۔ اب چونکہ سپریم کورٹ براہ راست اس معاملہ پر غور کرنے کا آغاز کررہی ہے تو اس پہلو کو پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہوگا۔
اس کی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہی عمران خان کی اکثر اپیلوں پر فیصلہ ہوگا۔ دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ باقی عدالتوں کے جج بعض عناصر کے ہتھکنڈوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوں اور وہی فیصلہ کرتے ہوں جو ان کے خیال میں درست اور قانون کے مطابق ہیں۔ ایک تیسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ باقی سب عدالتوں کے سارے جج تو پریشان کن ہتھکنڈوں کے سامنے بے بس ہوچکے ہیں لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں نے ایسے طریقوں کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور ایک خط لکھ کر ایسے ’بدمعاش‘ عناصر کے سامنے ڈٹ گئے۔ لیکن اس رائے کو مان لینے میں صرف یہ قباحت ہے کہ ان چھے ججوں نے اپنے خط میں تسلیم کیا ہے کہ وہ سب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس (ر) شوکت صدیقی جیسے بہادر نہیں ہیں۔ انہیں اپنے ادارے کا تحفظ درکار ہے۔ واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریک انصاف کی حکومت کے بھیجے ہوئے ریفرنس کے خلاف کامیابی سے اپنا دفاع کیا تھا۔ اور جسٹس (ر) شوکت صدیقی نے تحریک انصاف ہی کے دور میں خود کو برطرف کرنے کے فیصلہ کے خلاف طویل عدالتی جنگ لڑی اور جیتی ہے۔
سپریم کورٹ کو سوموٹو نوٹس کی کارروائی کے دوران میں ان تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ عدلیہ کی خود مختاری یقینی بنائی جائے اور ریاست کے بعض عناصر کی روک تھام کی جائے جو ججوں کو پریشان کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ لیکن اس پہلو سے بھی غور کیا جائے کہ یہ شکایت اعلیٰ عدلیہ کے موجودہ 107 ججوں میں سے صرف 6 ججوں ہی کو کیوں ہے۔ کیا یہ شکایت حقیقی معنوں میں عدلیہ کی خود مختاری کو لاحق خطرے کی نشاندہی کرتی ہے یا اس خط کے پس پردہ کچھ دوسرے عوامل بھی ہوسکتے ہیں جن میں موجودہ حکومت کے ساتھ سیاسی بے گانگی بھی ایک وجہ ہو؟
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ